لاہور ہائی کورٹ نے حمزہ شہبازاور پنجاب حکومت پر ایک ‘ایک لاکھ جرمانہ عائدکردیا

وزیراعلی پنجاب کے انتخاب کو کالعدم قراردینے کے لیے تحریک انصاف اور چوہدری پرویزالہی کی درخواستوں پر سماعت 30مئی تک ملتوی

Mian Nadeem میاں محمد ندیم بدھ 25 مئی 2022 14:22

لاہور ہائی کورٹ نے حمزہ شہبازاور پنجاب حکومت پر ایک ‘ایک لاکھ جرمانہ عائدکردیا
لاہور(اردوپوائنٹ اخبارتازہ ترین-ا نٹرنیشنل پریس ایجنسی۔25 مئی ۔2022 ) لاہور ہائی کورٹ نے پنجاب کے وزیر اعلیٰ کے انتخاب کے خلاف دائر درخواستوں پر جواب جمع نہ کرانے پر وزیر اعلیٰ حمزہ شہباز اور صوبائی حکومت پر ایک، ایک لاکھ روپے جرمانہ عائد کردیا ہے. عدالت نے گزشتہ سماعت پر چیف سیکرٹری پنجاب، حمزہ شہباز، ڈپٹی اسپیکر پنجاب اسمبلی سردار دوست محمد مزاری، گورنر پنجاب کے پرنسپل سیکرٹری اور سیکرٹری پنجاب اسمبلی کو نوٹس جاری کیے تھے خیال رہے کہ حمزہ شہباز کو 16 اپریل کو صوبائی اسمبلی کے اجلاس کے دوران وزیر اعلیٰ پنجاب منتخب کیا گیا تھا، انہوں نے کل197 ووٹ حاصل کیے تھے جو مطلوبہ تعداد 186 سے 11 ووٹ زیادہ تھے جس میں پی ٹی آئی کے 25 منحرف اراکین کے ووٹ بھی شامل تھے.

(جاری ہے)

مسلم لیگ (ن) کے رہنما کو اس وقت کے گورنر پنجاب عمر سرفراز چیمہ کی جانب سے حلف لینے سے انکار کی وجہ سے وزیراعلیٰ کا چارج سنبھالنے میں خاصی تاخیر کا سامنا کرنا پڑا آج ہونے والی سماعت کے دوران لاہور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس محمد امیر بھٹی نے کہا کہ عدالتی احکامات کی تعمیل ہر ایک کے لیے ہر حال میں لازم ہے، اس لیے مدعا علیہان پر جرمانہ عائد کیا جاتا ہے.

سماعت کے دوران ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل اور حمزہ شہباز کے وکیل نے عدالت سے استدعا کی کہ انہیں جواب جمع کرانے کے لیے مہلت دی جائے جس پر مسلم لیگ (ق) کے وکیل نے اعتراض کیا کہ اس معاملے میں مزید تاخیر نہیں کی جانی چاہیے، انہوں نے کہا کہ پنجاب کابینہ کے بغیر کام کر رہا ہے اور صوبہ آئینی بحران سے گزر رہا ہے. تاہم جسٹس امیر بھٹی نے کہا کہ مدعا علیہان کے دلائل سنے بغیر کیس آگے نہیں بڑھ سکتا، جوابات جمع ہونے کے بعد ہم روزانہ کی بنیاد پر کیس کی سماعت کریں گے بعد ازاں عدالت نے کیس کی مزید سماعت 30 مئی تک ملتوی کر دی ہے لاہور ہائی کورٹ میں درخواست پی ٹی آئی کے رہنما سبطین خان سمیت 5 اراکین پنجاب اسمبلی کی جانب سے دائر کی گئی تھی جس میں وزیر اعلیٰ پنجاب حمزہ شہباز سمیت دیگر افراد کو فریق بنایا گیا.

تحریک انصاف کے راہنماﺅں کی جانب سے درخواست میں موقف اپنایا گیا تھا کہ وزارت اعلیٰ کے انتخاب کے روز پی ٹی آئی اور (ق) لیگ کے اراکین پنجاب اسمبلی کو حمزہ شہباز کی ایما پر اسمبلی سے نکال دیا گیا تھا درخواست میں کہا گیا تھا کہ پولیس نے ہمارے ووٹرز کو حق رائے دہی استعمال کرنے سے زبردستی روکا، قانون کے مطابق اسمبلی سیشن کے دوران ایوان میں کسی غیر متعلقہ شخص کے آنے پر پابندی ہے تو پولیس ایوان میں کیسے داخل ہوئی.

ہائی کورٹ میں دائر کردہ درخواست میں کہا گیا کہ سیکریٹری پنجاب اسمبلی نے نجی لوگوں کا داخلہ روکا مگر ڈپٹی سیکرٹری نے 300 لوگوں کو بلایااپیل میں تحریک انصاف کی جانب سے کہا گیا کہ احمد سلیم بریار نے ووٹ نہیں ڈالا مگر ان کا نام بھی ووٹ ڈالنے والے اراکین پنجاب اسمبلی کی فہرست میں موجود ہے درخواست میں استدعا کی گئی تھی کہ حمزہ شہباز کا انتخاب غیر قانونی ہے اسے کالعدم قرار دیا جائے اور حمزہ شہباز کی بطور وزیر اعلیٰ پنجاب کامیابی کا نوٹیفکیشن کالعدم قرار دیا جائے.

عدالت سے یہ بھی استدعا کی گئی تھی کہ پنجاب میں وزیر اعلیٰ کا عہدہ خالی قرار دیا جائے اور حمزہ شہباز کو کام کرنے اور خود کو چیف ایگزیکٹو ظاہر کرنے سے روکا جائے دوسری جانب چوہدری پرویز الٰہی نے اپنی درخواست میں عدالت سے استدعا کی تھی کہ وہ یہ اعلان کرے کہ حمزہ وزیراعلیٰ نہیں ہیں کیونکہ وہ سپریم کورٹ کی تشریح کی روشنی میں منحرف اراکین کے ووٹس کو شمار نہ کر کے وہ مطلوبہ تعداد میں ووٹ حاصل کرنے میں ناکام رہے ہیں.

درخواست میں کہا گیا تھا کہ اس طرح 16 اپریل کے انتخابات، اس کے نتائج اور پنجاب اسمبلی کے ڈپٹی اسپیکر کی جانب سے حمزہ شہباز کو ان کی کامیابی کا جاری کردہ سرٹیفکیٹ قانونی طور پر بے اثر ہے درخواست میں ہائی کورٹ سے استدعا کی گئی تھی کہ حمزہ شہباز کی جانب سے بطور وزیر اعلیٰ پنجاب کیے گئے تمام نتیجہ خیز اقدامات، تمام خط و کتابت، جاری کردہ احکامات اور نوٹیفکیشن وغیرہ کو کالعدم قرار دیا جائے.

لاہور میں شائع ہونے والی مزید خبریں