لاہور‘شہر میں مساج سنٹر، پارلر زکے نام پر جسم فروشی کا دھندہ عروج پرپہنچ گیا

گھنائونے کاروبار میں ملوث افراد نے سکیورٹی اداروں کو چکمہ دیتے ہوئے سوشل میڈیا کا سہارا لے لیا 6سے 10ماہ قیام کے بعد علاقہ بدل لیا جاتا ہے ،مبینہ طور پر پولیس افسران، انڈر ورلڈ کے جرائم پیشہ عناصر پشت پناہی کرنے لگے

بدھ 20 نومبر 2019 11:53

لاہور(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 20 نومبر2019ء) صوبائی دارالحکومت میں جہاں دیگر جرائم پیشہ عناصر قانون نافذ کرنے والے اداروں کے لئے چیلنج بنے ہوئے ہیں وہیں پر جسم فروشی کا دھندہ کرنے والوں نے بھی نت نئے روپ دھار لیے ہیں ۔ شہر کے پوش علاقوں میں قائم کئے گئے مساج پارلر کے نام پر جسم فروشی کا دھندہ عروج پر پہنچ گیا، اگھنائونے کاروبار میں ملوث افراد نے پولیس اور دیگر سکیورٹی اداروں سے بچنے کے لیے سوشل میڈیا کا سہارا لے لیا ۔

’’ این این آئی ‘‘ کی مرتب کردہ رپورٹ کے مطابق شہریوں کو نامعلوم موبائل نمبروں سے ٹیکسٹ میسجز اور واٹس ایپ کے ذریعے پیغامات بھجوائے جا رہے ہیں جس میں ان کو مساج سنٹر کی تفصیلات فراہم کرتے ہوئے انہیں لذت گناہ کی دعوت دی جاتی ہے ۔

(جاری ہے)

علاوہ ازیں اس دھندے میں ملوث بعض افراد نے باقاعدہ طور پر اپنی ویب سائٹس بھی بنا رکھی ہیں جبکہ فیس بک پر مختلف ناموں سے اکائونٹس بنا کر مساج سنٹرز اور جسم فروشی کا دھندہ کرنے والی خواتین کی تفصیلات فراہم کی گئی ہیں ۔

بیشتر اکائونٹس میں تو باقاعدہ طور پر ریٹ بھی مقرر کیے گئے ہیں جس میں تمام تفصیلات فراہم کی گئی ہیں ۔ فیس بک پر چلنے والے ان اکائونٹس میں سے بیشتر میں گناہ کرنے کے لیے محفوظ جگہ بھی فراہم کرنے کا دعوی کیا گیا ہے ۔ اس گھنائونے کاروبار سے منسلک افراد پوش علاقوں میں عارضی طور پر گھر کرائے پر لیتے ہیں جہاں پر مساج سنٹر کھول کر جسم فروشی کا دھندہ کروایا جاتا ہے ۔

باوثوق ذرائع کے مطابق اس کاروبار سے منسلک افراد ایک ہی علاقے میں زیادہ دیر قیام نہیں کرتے ، 6سے 10 ماہ تک قیام کرنے کے بعد علاقہ تبدیل کر لیا جاتا ہے ۔تاہم بعض مساج پارلر زایسے بھی ہیں جنہیں کئی کئی سالوں سے ایک ہی جگہ پر چلایا جا رہا ہے اور ایسے مساج سنٹروں کی پشت پناہی کرنے والوں میں مبینہ طور پر پولیس افسران اور انڈر ورلڈ سے تعلق رکھنے والے بااثر افراد شامل ہیں جو ماہانہ بنیادوں پر اپنا حصہ وصول کرتے ہیں ۔

رپورٹ کے مطابق 2009 میں سی سی پی او لاہور پرویز راٹھور کی جانب سے ایسے مساج سنٹرز، قحبہ خانوں اور گیسٹ ہائوسز کے خلاف فوری کارروائی کے احکامات جاری کیے گئے ۔ اس سلسلے میں سپیشل برانچ کی مدد سے شہر بھر میں قائم 1200سے زائد گیسٹ ہائوسز، مساج سنٹرز اور قحبہ خانوں کا ریکارڈ مرتب کیا گیا ۔ کچھ عرصہ تک اس گھنائونے کاروبار میں ملوث افراد کے خلاف کارروائیاں بھی کی گئیں لیکن جیسے ہی پرویز راٹھور ریٹائر ہوئے یہ سلسلہ وہیں رک گیا ۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ اس دھندے میں ملوث بااثر افراد دور دراز کے پسماندہ علاقوں اور چھوٹے شہروں سے لائی گئی خواتین کو ماہانہ چند ہزار روپے اور کھانے پینے اور رہنے کی سہولیات دیتے ہیں جبکہ ان کے جسموں کے عوض گاہکوں سے بھاری رقوم وصول کی جاتی ہیں ۔ دوسری جانب ڈی آئی جی آپریشنز لاہور اشفاق خان کا کہنا ہے کہ پولیس انٹیلی جنس معلومات کی بنیاد پر ایسے گھنائونے کاروبار میں ملوث افراد کے خلاف کارروائیاں کرتی ہے، بعض اوقات شہریوں کی شکایات پر بھی ایسے افراد کے خلاف کارروائیاں کی جاتی ہیں اور شکایات کا اندراج کروانے والوں کا نام بھی صیغہ راز میں رکھا جاتا ہے ۔

ان کا کہنا ہے کہ ایسے پولیس افسران جو جسم فروشی کے دھندے میں ملوث پائے جائیں ان کے خلاف نہ صرف محکمانہ بلکہ قانونی کارروائی بھی کی جاتی ہے ۔ ڈی آئی جی آپریشنز لاہور نے شہریوں سے بھی اپیل کی کہ وہ اپنے اطراف میں نظر رکھتے ہوئے مشکوک حرکات و سکنات میں ملوث افراد کی فوری طور پر پولیس کو اطلاع کریں تاکہ جرائم پیشہ عناصر کے خلاف بروقت قانونی کارروائی کی جاسکے۔

لاہور میں شائع ہونے والی مزید خبریں