قائداعظم محمد علی جناحؒ پاکستان کو اسلامی، جمہوری اور فلاحی ریاست بنانا چاہتے تھے،پروفیسر ڈاکٹر عطاء الرحمن

11 اگست 1947ء کو پاکستان کی آئین ساز اسمبلی سے قائداعظم محمد علی جناحؒ کا خطاب تاریخ ساز اہمیت کا حامل ہے،بانی پاکستان کے بیان کئے گئے اصولوں کو ہم قراردادِ مقاصد کی بنیادی دفعات کے طور پر دیکھتے ہیں،ایوانِ کارکنان تحریک پاکستان میں تقریب سے خطاب

اتوار 12 اگست 2018 00:00

لاہور (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آن لائن۔ 12 اگست2018ء) قائداعظم محمد علی جناحؒ نے پاکستان کی پہلی قانون ساز اسمبلی سے اپنے تاریخی خطاب میں اسلام کے بنیادی اصولوں عدل‘ رواداری‘ سماجی اقدار اور اقلیتوں کے حقوق کے تحفظ کے حوالے سے واضح موقف اختیار کیا اور ایسے امور کی نشاندہی کی تھی جو اسلامی معاشرے کی تشکیل کیلئے ضروری ہیں۔ وہ پاکستان کو اسلامی، جمہوری اور فلاحی ریاست بنانا چاہتے تھے۔

ان خیالات کا اظہار پروفیسر ڈاکٹر عطاء الرحمن نے ایوانِ کارکنان تحریک پاکستان لاہور میں 71ویں یومِ آزادی کی تقریبات کے سلسلے میں 11اگست 1947ء کو پاکستان کی پہلی قانون ساز اسمبلی سے قائداعظمؒ کے خطاب کے تناظر میں منعقدہ خصوصی لیکچر میں طلبہ سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ اس موقع پر پروفیسر ڈاکٹر پروین خان بھی موجود تھیں۔

(جاری ہے)

اس لیکچر کا اہتمام نظریہٴ پاکستان ٹرسٹ نے تحریک پاکستان ورکرز ٹرسٹ کے اشتراک سے کیا تھا۔

پروفیسر ڈاکٹر عطاء الرحمن نے کہا کہ 11 اگست 1947ء کو پاکستان کی آئین ساز اسمبلی سے قائداعظم محمد علی جناحؒ کا خطاب تاریخ ساز اہمیت کا حامل ہے جس میں انہوں نے پاکستان کی غیر مسلم اقلیتوں کے حقوق کے تحفظ اور ان سے بحیثیت پاکستانی شہری مساوی سلوک پر بطور خاص زور دیا تھا. قائداعظم محمدعلی جناحؒ کے بیان کردہ اصول وہی تھے جو مدینہ کی پہلی اسلامی ریاست کے منشور میثاقِ مدینہ اور خطبہ حجة الوداع میں نمایاں حیثیت کے ساتھ موجود ہیں۔

اس کے علاوہ بانئ پاکستان نے ان سماجی خرابیوں اور معاشرتی برائیوں کی بھی نشاندہی کی جن کو قرآن سنت میں معاشرے کے لئے خطرناک قرار دیا گیا ہے۔ قائداعظم محمد علی جناحؒ نے رشوت ستانی‘ اقربا پروری اور بدعنوانی جیسی قباحتوں کی نشاندہی کی جن کا خاتمہ نوزائیدہ ریاست پاکستان کے لیے چیلنج کی حیثیت رکھتا تھا۔ بانئ پاکستان نے جن امور کی بر وقت نشاندہی کی اگر آج بھی ان کے بتائے ہوئے اصولوں کے مطابق ملک کو پیش آمدہ مسائل کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنا ہو تو ہمیں ان سے رہنمائی مل سکتی ہے۔

قائداعظمؒ کے بیان کئے گئے اصولوں کو ہم قراردادِ مقاصد کی بنیادی دفعات کے طور پر دیکھتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اس ضمن میں خاص امر یہ ہے کہ بعض نام نہاد دانشور اس خطاب کو تاریخی حقیقت اور تحریک پاکستان کی روح کے مطابق دیکھنے کے بجائے اپنی ذاتی رائے کو سیکولر ازم کے پیرائے میں بیان کرتے ہیں۔ یہ رویہ اور سوچ سرا سر غلط ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ صاف‘ واضح‘ کھلے دل اور مثبت دماغ سے سوچا اور بیان کیا جائے۔

لاہور میں شائع ہونے والی مزید خبریں