2025تک ذہنی بیماریاں دنیا میں پہلے نمبر پر ہوں گی، پاکستان میں ہر سال ڈیڑھ سے اڑھائی لاکھ افراد خودکشی کی کوشش کرتے ہیں، راتوں کو جاگنے والے بچوں کی یادداشت کمزور ہوجاتی ہے ،ْپڑھائی کا بے جا پریشر ،ْمقابلہ بازی کا رجحان اور رزلٹ کے خوف سے طلبا ذہنی و نفسیاتی مسائل میں مبتلاہو رہے ہیں عوام نفسیاتی بیماریوں کو دوسری جسمانی بیماریوںکی طرح نہیں لیتے، جعلی عاملوں اورتعویز گنڈوں سے علاج کرانے کی کوشش کرتے ہیں جس کا انہیں الٹا نقصان پہنچتا ہے ،پروفیسر ڈاکٹر آفتاب آصف

اتوار 14 اکتوبر 2018 14:30

لاہور۔14 اکتوبر(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 14 اکتوبر2018ء) کنگ ایڈورڈ میڈیکل یونیورسٹی و میو ہسپتال کے شعبہ سائیکاٹری کے چیئرمین پروفیسر ڈاکٹر آفتاب آصف نے کہاکہ2025تک ذہنی بیماریاں دنیا میں پہلے نمبر پر ہوں گی، پاکستان میں بھی ذہنی مریضوں کی تعداد میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے ، ہر سال ڈیڑھ سے اڑھائی لاکھ افراد خودکشی کی کوشش کرتے ہیں، راتوں کو جاگنے والے بچوں کی یادداشت کمزور ہوجاتی ہے ،ْپڑھائی کا بے جا پریشر ،ْمقابلہ بازی کا رجحان اور رزلٹ کے خوف سے طلبا نفسیاتی مسائل میں مبتلاہو رہے ہیں، یہاں اے پی پی سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کی رپورٹ کے مطابق دنیا میں پہلے نمبرپر دل کی بیماری ہے جبکہ دوسرے نمبر پر ذہنی و نفسیاتی امراض ہیں ،ْ اگر ذہنی مریضوں کی تعداد موجودہ شرح کے مطابق اسی طرح بڑھتی رہی تو آئندہ 2025تک یہ بیماری پہلے نمبر پر آ جائے گی، انہوں نے کہا کہ نشہ کی عادت ،ْخودکشی کی کوشش اور صحت مندانہ کھیلوں میں حصہ نہ لینا ڈپریشن و دیگر ذہنی بیماریوں کی بڑی وجوہات ہیں ،ْ نوجوانوں کا رات دیر تک انٹرنیٹ اور موبائل فون پر مصروف رہنا ان کی صحت برباد کر دیتاہے جس سے ان کی نیند بری طرح متاثر اور روزمرہ کے معمولات کو شدید نقصان پہنچتا ہے ،ْ ذہنی بیماریوں میں نوجوان نسل کا تیزی سے مبتلا ہونا لمحہ فکریہ ہے ،ْ ،ْ انہوں نے والدین سے اپیل کی کہ وہ اپنے بچوں پر نظر رکھیں کہ وہ کن دوستوں میں اٹھتا بیٹھتا ہے۔

(جاری ہے)

رات کو دیر سے گھر کیوں آتا ہے ،ْ پڑھائی میںکمزور کیوں ہورہا ہے ان سب باتوںکو چیک کرنا والدین کی اولین ذمہ داری ہے، انہوں نے کہا کہ اگر بچے کی ذہنی حالت خراب ہو رہی ہوتو Addiction Test لازمی کروائیں ،ْایک اہم مسئلہ کی طرف توجہ دلاتے ہوئے انہوں نے کہاکہ پڑھائی کا بے جا پریشر ،ْمقابلہ بازی کا رجحان اور رزلٹ کے خوف سے بھی نوجوان نسل نفسیاتی مسائل میں مبتلا ہو رہی ہے ،ْ ایف ایس سی میں 88 فیصد سے اوپر نمبرز لینے والے طلباء ہی کسی معیاری میڈیکل کالج میں داخلہ لینے کے اہل قرار پاتے ہیں جبکہ ناکام ہونیوالے نوجوانوں کو والدین کی ڈانٹ ڈپٹ اور رشتہ داروں کے طعنے برداشت کرنا پڑتے ہیں ،ْ انہوں نے کہا کہ میڈیکل کالجز میں داخلہ لینے والے طلباء سے جب پوچھا جاتا ہے تو ان میں سے 30 فیصد یہ بتاتے ہیں کہ انہیں ڈاکٹر بننے کا کوئی شوق نہیں وہ اپنے والدین کے پریشر کی وجہ سے یہاں ہیں ،ْ پروفیسرآفتاب آصف نے والدین سے اپیل کی کہ وہ اپنے بچوں کو آزادانہ فیصلے کرنے دیں ،ْ اپنی مرضی کے فیصلے ان پرمسلط نہ کریں ،ْ صحت مند معاشرہ کیلئے صحت مند جسم اور دماغ بہت ضروری ہے۔

انہوں نے کہا کہ عوام نفسیاتی بیماریوں کو دوسری جسمانی بیماریوںکی طرح نہیں لیتے ،ْ لوگ نفسیاتی بیماریوں کا علاج جعلی پیروںفقیروں ،عاملوں اورتعویز گنڈوں سے کرانے کی کوشش کرتے ہیں جس کا انہیں الٹا نقصان پہنچتا ہے۔ جب مریض کی حالت زیادہ خراب ہو جاتی ہے توپھر اسے ڈاکٹر کے پاس لاتے ہیں لیکن اسوقت بہت دیر ہو چکی ہوتی ہی،ْ انہوں نے کہاکہ نفسیاتی مریضوں کا علاج کسی مستند ڈاکٹرز سے کروائیں ،ْ بروقت علاج سے مریض جلد ٹھیک ہو جاتے ہیں۔

لاہور میں شائع ہونے والی مزید خبریں