ساہیوال سانحہ میں متاثرہ بچوں سے بار بار واقعہ کے بارے میں پوچھنا انکے ذہنوں پر شدید نقش چھوڑ رہا ہے ‘نفسیاتی معالج

لوگوں کو اندازہ نہیںیہ واقعہ اور بار بار اس کی یاد دلانا انہیںمستقبل میں بہت سی نفسیاتی بیماریوں میں مبتلا کر سکتا ہے بچوں کی یاداشت بہت اچھی اور پکی ہوتی ہے ،ایسی صورتحال کا شکار ہونے کے بعد وہ زیادہ مشکل کا شکار ہو سکتے ہیں‘ ارسہ غزل

پیر 21 جنوری 2019 21:12

ساہیوال سانحہ میں متاثرہ بچوں سے بار بار واقعہ کے بارے میں پوچھنا انکے ذہنوں پر شدید نقش چھوڑ رہا ہے ‘نفسیاتی معالج
لاہور(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 21 جنوری2019ء) نفسیاتی معالج ارسہ غزل نے کہا ہے کہ ساہیوال سانحہ میں متاثرہ بچوں سے بار بار واقعہ کے بارے میں پوچھنا ان کے ذہنوں پر ایک شدید نقش چھوڑ رہا ہے جو کہ غلط ہے ،لوگوں کو اندازہ نہیںہے کہ یہ واقعہ اور بار بار اس کی یاد دلانا انہیںمستقبل میں بہت سی نفسیاتی بیماریوں میں مبتلا کر سکتا ہے۔

بی بی سی سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اس وقت ٹی وی چینلز اور سوشل میڈیا پر بار بار ساہیوال واقعہ اور اس میں متاثر ہونے والے بچوں کی ویڈیوز چل رہی ہیں، بچوں سے سوال کر کے بار بار اسی واقعہ کے اندر لیجایا جا رہا ہے ۔یہ بالکل ایسے ہی ہے جیسے آپ سے کسی گزرے ہوئے واقعہ کے بارے میں پوچھا جاتا ہے تو آپ اپنے ذہن میں اس اسے یاد کرتے ہیں اوردوہراتے ہیں اور پھر آپ کسی کو اس کے بارے میں بتاتے ہیں۔

(جاری ہے)

ساہیوال میں بھی بچوں کے ساتھ یہی کیا جا رہا ہے، یہ ان کے ذہنوں پر ایک شدید نقش چھوڑ رہا ہے جو کہ غلط ہے۔انہوںنے کہا کہ ہو سکتا ہے کہ لوگ یہ سوچ رہے ہوں کہ ہم ان کی مدد کر رہے ہیں ٹھیک ہے آپ انہیںانصاف دلوانا چاہ رہے ہوں گے لیکن یہ طریق کار بہت غلط ہے۔پاکستان سمیت دنیا بھر میں یہ قانون موجود ہے کہ آپ بچوں کے سامنے ان کی موجودگی میں اس قسم کی کوئی کارروائی کسی صورت میں نہیں کر سکتے۔

نفسیاتی معالج ارسہ غزل کے مطابق اس قسم کے واقعات میں بچے ڈرئوانے خواب، اکیلے پن، کھانے اور سونے کے اوقات کے متاثر ہونے کا شکار ہو سکتے ہیںان کے سامنے اگر ایسا واقعہ ہو گیا ہے تو آپ فی الحال انہیںریلیکس ہونے کے لیے چھوڑ دیں،یہ پہلی ترجیح ہونی چاہیے انہیںاس وقت کونسلنگ کی ضرورت ہے۔بچوں کے ذہن کچے ہوتے ہیں اور اِن بچوں کے والدین کی طبعی موت نہیں ہوئی یہ چیز ان پر منفی اثرات چھوڑتی ہے۔

آپ کو اندازہ نہیں ہے کہ یہ واقعہ اور بار بار اس کی یاد دلانا انہیںمستقبل میں بہت سی نفسیاتی بیماریوں میں مبتلا کر سکتا ہے۔بطور نفسیاتی معالج ایسے بچوں کا علاج کرنا بھی ہمارے لیے بہت بڑا چیلنج ہوتا ہے، یاداشت کو کھرچ دینا بالکل ختم کرنا خاص طور پر بچوں کے معاملے میں اتنا آسان نہیں ہوتا۔یہ بالکل ایسے ہی ہے کہ جیسے ہمیں اپنے بچپن کی باتیں شاید حال کی کچھ باتوں سے زیادہ اچھی طرح یاد ہوتی ہیں۔

بچوں کی یاداشت بہت اچھی اور پکی ہوتی ہے اور ایسی صورتحال کا شکار ہونے کے بعد وہ زیادہ مشکل کا شکار ہو سکتے ہیں ایسا ان کے لیے ڈرائونے خواب، اکیلے رہنے کو ترجیح دینا یعنی گھلنا ملنا پسند نہ کرنا، کھانے اور سونے کے اوقات متاثر ہونے کی صورت میں ہو سکتا ہے۔صدماتی کیفیت کے شکار بچوں کے علاج کے لیے ان کی شخصیت کو مدنظر رکھا جاتا ہے اور ان سے 10 سے 12اور کبھی کبھی اس سے بھی زیادہ سیشنز کیے جاتے ہیں۔

اس کے عمومی طریق کار میں پہلے سیشن میں بچے سے ملاقات کی جاتی ہے اور دوسرے سیشن میں اس سے باضابطہ بات چیت کا آغاز کیا جاتا ہے اگر وہ بات کرنا پسند نہ کرے تو پلے تھراپی)یعنی کھیل کے ذریعی(یا ڈرائنگ تھراپی کے ذریعے اس کی ذہنی صورتحال کا اندازہ لگایا جاتا ہے۔کس بچے کو کتنا وقت دینا ہے اور کتنے دن بعد دوسرے سیشن کے لیے بلوانا ہے یہ فیصلہ ہر بچے کو دیکھتے ہوئے کیا جاتا ہے۔

ان کے چہروں کو آپ دیکھیں وہاں معصومیت، خوف آور آنسو ہیں، ان بچوں کو ہم اسی طرح تکلیف سے نکال سکتے ہیں کہ ہم انہیںپہلے تھوڑا وقت دیں۔اس وقت ہر چیز ساتھ ساتھ کیے جانے کی کوشش کی جا رہی ہے جو بچوں کو سوائے اذیت کے اور کچھ نہیں دے رہا۔اس میں ہمارے سماجی رویے بھی بہت اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ بچوں کے رشتہ دار اور اردگرد کے لوگ بھی بار بار ان سے پوچھتے ہیں کہ ہاں بیٹا بتا ئوکیا ہوا ہے جو کہ بہت منفی ہے۔

لاہور میں شائع ہونے والی مزید خبریں