پنجاب اسمبلی کا بجٹ اجلاس‘ڈاکٹر خاور، غیاث الدین ‘ ڈاکٹر وسیم اختر کے ایصال ثواب کیلئے فاتحہ خوانی

بجٹ پر بحث 21جون تک جاری رہے گی‘سپیکر 2600ارب روپے کا مقروض پنجاب ورثے میں ملا‘جتنا بجٹ میٹروبس پر خر چ کیا گیا اگر وہ عوام پر خرچ کیا جاتا تو کوئی ضلع ایسا نہ ہوتا جہاں شوکت خانم جیسا ہسپتال نہ بن چکا ہوتا‘ جنوبی پنجاب کیلئے مختص بجٹ صرف اس کی ترقی کیلئے خرچ ہو گا‘ملک کی لوٹی ہوئی دولت واپس لائی جائے گی‘ وزیر قانون راجہ بشارت

منگل 18 جون 2019 02:05

لاہور۔17 جون(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 18 جون2019ء) پنجاب اسمبلی کا بجٹ اجلاس ایک گھنٹہ 20منٹ کی تاخیر سے سپیکر پنجاب اسمبلی چوہدری پر ویز الٰہی کی زیر صدارت شروع ہوا‘اجلاس میں وفات پاجانے والے اراکین اسمبلی ڈاکٹر خاور، غیاث الدین اور ڈاکٹر وسیم اختر کی روح کے ایصال ثواب کیلئے فاتحہ خوانی کی گئی‘اس موقع پر سپیکر نے بتایا کہ پنجاب اسمبلی بجٹ 2019-20پر بحث 21جون تک جاری رہے گی اور اسمبلی روایت کے پیش نظر اپوزیشن لیڈر بجٹ پر بحث کا آغاز کرینگے‘اجلاس میں حمزہ شہباز جیسے ہی تقریر کیلئے اٹھے تو اپوزیشن بنچوں سے شیر آیا شیر آیاکے نعرے گونجنے شروع ہو گئے جس کے جواب میں حکومتی بنچوں سے بھی نعرے بازی شروع ہو گئی اور ایوان مچھلی منڈی کا منظر پیش کرنے لگ گیا۔

اس موقع پر صوبائی وزیر چوہدری ظہیر الدین نے کہا کہ اگر اپوزیشن اراکین نے بجٹ کے موقع پر وزیر خزانہ کی تقریر کو سنا ہوتا تو آج ایسا نہ ہوتا یہ ان ہی کا کیا دھرا ہے جو آگے آرہا ہے‘اس دوران سپیکر کی مداخلت پرایوان خاموش ہوا تو اپوزیشن لیڈر حمزہ شہباز نے کہا کہ ہم ایک دوسرے سے سیاسی و نظریاتی اختلاف کرتے ہیں اور شور دونوں اطراف ہوتاہے،تاہم جمہوریت ہمیںایک دوسرے کو برداشت کرنے کا سبق دیتی ہے ، ہر وقت جواب اور نعرے بازی تو کرتے رہتے ہیں لیکن آج کا وقت اس بات کاتقاضا کررہاہے ملکی معاشی حالت پر کھل کر بات کریں ۔

(جاری ہے)

بجٹ پر بحث کا آغاز کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ جنوبی پنجاب کے صوبہ کو بنانے کے اعلان کو ایک سالٴْ ہو گیا ہے جبکہ جنوبی پنجاب صوبے کا کچھ پتہ نہیں بلکہ جنوبی پنجاب صوبے کے فنڈز میں پچاس فیصد کٹوتی کر دی گئی، پچاس لاکھ گھروں کیلئے چار ارب روپے رکھے گئے ہیں اور ان پانچ سالوں میں کیا وہ گھر آسمان پر بنیں گے جن کاسنگ بنیاد زمین پر رکھ دیاگیاہے‘اگربلدیاتی انتخاب کے پچاس ہزار منتخب نمائندوں کاقتل کرناتھا تو الیکشن کا اعلان ہی کردیتے‘ الیکشن کا دور دور تک کوئی نام و نشان نہیں جبکہ لوکل باڈی ختم کرکے ’’بابائوں ‘‘کو بٹھا دیاگیا ہے، ہمارے دس سالہ دور میں کسانوں کو تین کھرب کے قرضے اور سبسڈی دی گئی، ٹریکٹر اور مشینری دی گئی، کھاد اور پانی کی قیمت میں کمی کی گئی اس کے ساتھ ساتھ ادویات کی قیمتوں میں کمی کی گئی‘ہم نے سترہ ارب روپے سے پنجاب ایجوکیشن انڈونمنٹ فنڈز طلبہ کو دئیے اورپچیس لاکھ بچوں کو لیپ ٹاپ تقسیم کئے جبکہ بارہ لاکھ بچوں کو مفت کتابیںبھی دی گئیں‘اگر آج معاشی حالات پرصرف سیاست اور الزام تراشی کی کوئی سیاسی حل تلاش نہ کیا تو آنے والی نسل ہمیں معاف نہیں کرے گیں۔

اپوزیشن لیڈر کی تقریر کے بعد صوبائی وزیر قانون راجہ بشارت نے کہا کہ اپوزیشن لیڈر جمہوریت کے حسن کے حوالے سے بات کر رہے تھے ‘ اگر وہ اللہ کی ذات کو حاضر ناظر جان کر سچ بولتے تو آج سارے مسائل حل ہو جاتے ‘ آج نیب بھی یہی واویلا کر رہی ہے کہ خدا را سچ بولیں ‘آج پورے ایوان نے جمہوریت کا حسن دیکھا کہ اپوزیشن لیڈر کی تقریر کو خاموشی سے سنا گیا‘ اگر اپوزیشن بجٹ کی تقریر کو بھی جمہوریت کا حسن سمجھ کر خاموشی سے سنتی‘ تو انہیں بھی اس بات کا اندازہ ہوتا ۔

انہوں نے کہا کہ پنجاب تباہی کے دھانے پر کھڑا ہے جس پر میں اتفاق کرتا ہوں‘ ہمیں جو پنجاب ورثے میں ملا تھا وہ تو چلنے کے قابل بھی نہیں تھا‘ 2600ارب روپے مقروض کر کے صوبہ چھوڑ کر گئے ‘ تاریخ میں پہلی بار دیکھا کہ حکومتوں کے جاری کردہ چیک بونس ہوتے ہیں‘ مسلم لیگ (ن) کی حکومت کے جاری کردہ 56ارب کے چیک بونس ہوئے جس پر افسوس ہی کیا جا سکتا ہے‘ وزیر اعلیٰ پنجاب عثمان بزدار کو چاہئے کہ ان پر 420کا پرچہ ہونا چاہئے کیونکہ چیک بونس کا بوجھ بھی ہماری حکومت پر پڑا‘ جس سے بحران تو پیدا ہونا تھا۔

انہوں نے کہا کہ جس ملک کا وزیر خزانہ مفرور ہو گیا ہو اور چیک بونس ہوں تو کون یہاں انوسٹمنٹ کرے گا۔صوبائی وزیر قانون نے کہا کہ ہم بھینسیں بیچ کر گذارہ کر رہے ہیں جبکہ پچھلے حکمرانوں نے پنجاب ہاؤس کے 50کروڑ کے بل ابھی تک ادا نہیں کئے جس پر سپیکر پنجاب اسمبلی نے کہا کہ آپ وہ لسٹ ہمیں فراہم کریں پنجاب حکومت اس کی ریکوری کرے گی ۔ صوبائی وزیر قانون نے سپیکر پنجاب اسمبلی کو یقین دلایا کہ وہ لسٹ ایوان میں پیش کریں گے ‘ انہوں نے کہا کہ اس وقت وزیر اعلیٰ پنجاب کا ایک کیمپ آفس ہے جو 7کلب میں واقعہ ہے جبکہ سابقہ وزیر اعلیٰ کے 4کیمپ آفس تھے حالانکہ انہیں ان کی ضرورت بھی نہ تھی ۔

صوبائی وزیر قانون نے کہا کہ گزشتہ حکمرانوں نے جتنا خرچہ میٹروبس پر کیا اگر وہ پیسہ عوام پر کیا جاتا تو 5سالوں میں کوئی ضلع نہ ہوتا جہاں شوکت خانم نہ بن چکا ہوتا۔ انہوں نے کہا کہ اپوزیشن لیڈر نے پبلک ٹرانسپورٹ پر سبسڈی کی بات کی اور دنیا کی مثال بھی دی تاہم انہیں معلوم ہونا چاہئے کہ پہلے تعلیم ‘ صحت اور روٹی ضروری ہے‘ ایک وقت تھا کہ ہسپتالوں میں مفت ادویات ملتی تھیں ۔

انہوں نے کہا کہ موجودہ حکمرانوں نے ان تجاوزات کے خلاف آپریشن کیا جو پٹرول پمپ مسلم لیگ (ن) کے دور میں 5ہزار روپے ماہانہ کرائے پر تھے اور آج ہم نے وہی پٹرول پمپ کروڑوں روپے میں نیلام کئے ہیں جس سے صوبہ کے ریونیو میں اضافہ ہوا ‘ ان حکمرانوں کو صرف اس بات کا جواب ہی دے دینا چاہئے کہ پنجاب اسمبلی کی عمارت ابھی تک مکمل کیوں نہ ہوئی‘ مری واٹرفلٹر یشن پلانٹ مکمل کیوں نہ ہوا‘ میو ہسپتال کا سرجیکل ٹاور ‘ وزیر آباد ہسپتال اور ڈینٹل کالج کیوں تاخیر کا شکار ہیں‘انہوں نے کہاکہ وفاق کی طرز پر صوبہ میں بھی کمیشن قائم ہونا چاہئے تاکہ ان کے پیٹو ں سے پیسے نکالے جا سکیں‘انہوں نے کہاکہ اسی اسمبلی نے بلدیاتی حکومتوں کا نیا قانون پاس کیا ہے جس پر بہت جلد انتخابات بھی ہوں گے‘ مسلم لیگ (ن) کے دور میں انتخابات کے کئی سال تک حلف ہی نہیں اٹھایا گیا تھا۔

صوبائی وزیر قانون نے کہا کہ موجودہ حکومت جنوبی پنجاب کے ساتھ کوئی واردات نہیں ہونے دے گی ‘ سابقہ حکومت جنوبی پنجاب کے نام پر اربوں روپے رکھ لیتے مگر خرچ نہ کرتے اور بعد ازاں یہ بجٹ لاہور میں خرچ کر لیا جاتا‘ اب پہلی بار کابینہ نے منظوری دی ہے کہ جو رقم جنوبی پنجاب کیلئے مختص کی جائے گی وہ صرف جنوبی پنجاب میں ترقیاتی منصوبوں کیلئے خرچ ہوگی نہ کہ پچھلی حکومتوں کی طرح دوسرے منصوبوں پر خرچ کی جائے گی ۔ انہوں نے کہا کہ احتساب کا عمل عمران خان کے ویژن کا عکاس ہے اور اس پر کام ہو گا اور عوام پر کئے گئے وعدے پر عمل درآمد کرتے ہوئے ملک کی لوٹی ہوئی پائی پائی واپس لائی جائے گی‘ بعد ازاں حکومتی اور اپوزیشن اراکین نے بھی بجٹ پر بحث کی اور اپنی اپنی تجاویز بھی دیں۔

لاہور میں شائع ہونے والی مزید خبریں