امسال پوسٹ بجٹ سیشن میں اسمبلی اراکین کی شمولیت گزشتہ سال سے زیادہ رہی، 98اراکین نے بحث میں حصہ لیا،

اپوزیشن کے کئی اراکین نے عوام دوستی کا بھی ثبوت دیا، بحث میںانفراسٹرکچر اور انرجی کے میگا پراجیکٹس کی بجائے پھل فروش، سبزی فروش ،ڈرائیور ، موچی اور عام آدمی کی بات ہوئی جوخوش آئند ہے،توقع ہے کہ جس طرح اپوزیشن نے بجٹ پر بحث کے دوران عوام دوستی کا مظاہرہ کیا مستقبل میں بھی عوامی مفاد کے لئے حکومتی بنچوں کے ساتھ مل کر کام کریں گے صوبائی وزیر خزانہ مخدوم ہاشم جواں بخت کا پنجاب اسمبلی میں بجٹ پر بحث کو سمیٹتے ہوئے اظہار خیال

پیر 24 جون 2019 21:51

لاہور۔24 جون(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 24 جون2019ء) صوبائی وزیر خزانہ مخدوم ہاشم جواں بخت نے کہا ہے کہ امسال پوسٹ بجٹ سیشن میں اسمبلی اراکین کی شمولیت گزشتہ سال سے زیادہ رہی اور 98اراکین نے بحث میں حصہ لیا،اپوزیشن کے کئی اراکین نے عوام دوستی کا بھی ثبوت دیا،یہ بات خوش آئند ہے کہ اس بار بحث میںانفراسٹرکچر اور انرجی کے میگا پراجیکٹس کی بجائے پھل فروش، سبزی فروش ،ڈرائیور ، موچی اور عام آدمی کی بات ہوئی،توقع ہے کہ جس طرح اپوزیشن نے بجٹ پر بحث کے دوران عوام دوستی کا مظاہرہ کیامستقبل میں بھی عوامی مفاد کے لئے حکومتی بنچوں کے ساتھ مل کر کام کریں گے،وہ پنجاب اسمبلی میں بجٹ پر بحث کو سمیٹتے ہوئے اظہار خیال کر رہے تھے،وزیر خزانہ نے کہا کہ قائد حزب اختلاف نے اپنی تقریر میں جن سنہرے دنوں کی یاد دلائی وہ یہ بتائیں کہ انہوں نے اپنے دور حکومت میں ڈالر کی سپلائی بڑھانے کے لئے کیا اقدام کیا، ملک میں برآمدات میں اضافہ کے لئے گزشتہ حکومت نے کونسے اقدامات کئے،ایسی تمام انڈسٹریز جو ملک میں ڈالر کے اضافے اور فارن ایکسچینج کا باعث بن سکتی تھیں انہیں کیوں تباہ کیا گیا،انہوں نے کہا کہ ہم آئندہ مالی سال کے بجٹ میں معاشی منصوبہ بندی کی بنیاد زمینی حقائق اور جدت پر استوار کی ہے،ہماری ترجیحات تعلیم، صحت زراعت اور صنعت ہے،غربت کی لکیر سے نیچے زندگی بسر کرنے والے طبقوں کو بجٹ میں خصوصی نمائندگی دی گئی اور ان کے لئے پنجاب حساس پروگرام متعارف کرایا گیا ۔

(جاری ہے)

وزیر خزانہ نے کہا کی بجٹ میںہم نے صحت اور تعلیم کو خاص توجہ دی ہے،صحت کے شعبے میں ہم نے 2017-18 کے مقابلے میں اپنا بجٹ 20 فیصد زیادہ مختص کیا ہے، اس بجٹ میں ہم نے 279 ارب روپے صحت کے شعبے کے لئے مختص کئے جب کہ 2017-18 میں یہ رقم 233 ارب روپے تھی ،تعلیم کے شعبے میں ہم نے 383 ارب روپے مختص کئے جو کہ 2017-18 میں 345 ارب روپے تھے۔ منیر مسیح کی ڈائیلاسزمشین کی دستیابی کے نکتہ کے حوالے سے بات تے ہوئے انہوں نے کہا کہ لاہور کے بیشتر ہسپتالوں میں ڈائیلاسز مشینز یا تو ناکارہ ہیں یا تو سرے سے موجود ہی نہیں تھیں جس سے معلوم ہوتا ہے کہ صوبے میں ہیلتھ سیکٹر میں سروس ڈیلوری کا کتنا فقدان تھا،اگرپچھلے پانچ سالوں میں اس مسئلے کی طرف نشاندہی کی جاتی اور اس کا ازالہ وہیں ہو جاتا، لاہور جیسے شہر میں پچھلے دس سالوں میں ایک بھی جنرل ہسپتال کا قیام عمل میں نہیں لایا گیا جبکہ اس کی آبادی بتدریج بڑھتی گئی، ہم نے اس بجٹ میں لاہور میں بھی دو نئے ہسپتالوں کے لئے رقم مختص کی ہے، پنجاب بھر میں خصوصاً جنوبی پنجاب میں 6 نئے ہپستالوں کا قیام بھی ہماری اسی ترجیحات کی کڑی ،وزیر خزانہ نے اقلیتوں کی جانب سے بجٹ پر تحفظات کے حوالے سے کہا کہ رواں مالی سال میں اقلیتوںکا ترقیاتی بجٹ 50 کروڑ روپے رکھا تھا آئندہ مالی سال میں اسے دُگنا کر کے ایک ارب روپے کر دیا گیا ہے جوکہ اے ڈی پی کا 0.29 فیصد ہے۔

گزشتہ حکومت کے آخری سال میں یہ بجٹ اے ڈی پی کا 0.13 فیصد تھا،انہوں نے کہا کہ دنیا بھر میں خصوصاً انفراسٹرکچر کے پروجیکٹس اور میگا پراجیکٹس ہمیشہ پبلک پرائیویٹ سیکٹر کے تحت پورے کئے جاتے ہیں،ہم نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ بڑے پراجیکٹس کو انوویٹو فنانسنگ کے تحت پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ سے متعارف کروایا جائے گا۔ اس سال ہم نے پی پی پی کے تحت 13 بڑی شاہراہوں کی تعمیر کا منصوبہ تیار کیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ کہ اکنامک گروتھ پرائیویٹ سیکٹر کیلئے آسانیاں پیدا کرنے کے لئے فیصلہ کیا ہے کہ پنجاب میں رولز اینڈ ریگولیشن کو نظر ثانی کر کے ایسے رولز اور ریگولیشن بنائیں جو پبلک پرائیویٹ سیکٹر کو آسانی پیدا کریں جبکہ ایس ایم ایز اور انٹر پرینور شپ کو فروغ دینے کے لئے اہم منصوبے لے کر آئے ہیں،زراعت کے شعبے میں ہم نے اس سال 100 فیصد اضافہ کیا ہے، پچھلی حکومت نے 12 لاکھ سالانہ آمدن والے کاشتکار سے تقریباً ڈیڑھ لاکھ ٹیکس وصول کر رہی تھی ہم نے وہ صرف تین ہزار روپے کر دیا ہے،وزیراعلیٰ کے اخراجات میں انٹرٹینمنٹ کا ہیڈ جہاں پچھلی حکومت نے شاہ خرچیاں کی تھیں ہم نے اس بجٹ میں 60 فیصد کمی کی ہے،تحائف اور مہمان نوازی کی مد میں 11 کروڑ روپے سے کم کر کے 3 کروڑ روپے کر دیئے ہیں جس سے سرکاری خزانے کو 8 کروڑ روپے کی بچت ہوئی، علاوہ ازیںگاڑیوں کی مرمت کی مد میں اخراجات نصف کر دیئے گئے ہیں، سیکورٹی اخراجات میں 66 فیصد کمی کی گئی ہے جو 83 کروڑ روپے سے کم ہو کر 28 کروڑ روپے ہو گئی ہے،انہوں نے کہا کہ اپوزیشن کی جانب سے پنجاب ہائوس کے کچھ بل واجب الادا ہیں وہ یہ واجب الادا بل ادا کر دیں تاکہ آئندہ آنے والوں کے لئے ایک اچھی روایت قائم ہو،انہوں نے کہا کہ ایوان میں جنوبی پنجاب کے حوالے سے بہت سارے سوالات اٹھائے گئے اور حکومتی بنچوں کو ہوا دینے کی کوشش کی گئی، موجودہ حکومت صرف جنوبی پنجاب کے بجٹ میں اضافہ نہیں کر رہی بلکہ معاشی ترقی کے لئے باقاعدہ ٹھوس منصوبہ بندی کی ہے۔

جس کے تحت جنوبی پنجاب میں بنیادی سہولیات کی فراہمی کے ساتھ ساتھ معاشی سرگرمیوں کو بھی فروغ دیا جا رہا ہے۔ تعلیم اور صحت کی سہولیات کے علاوہ انڈسٹریل زونز اور کاروبار کے مواقع بھی پیدا کئے جا رہے ہیں۔ انتظامی امور میں بہتری کے لئے جنوبی پنجاب کے علیحدہ سیکرٹریٹ کے قیام کے لئے بجٹ خصوصی طور پر تین ارب روپے کی رقم مختص کی ہے۔ جنوبی پنجاب کو تین مراحل میں ترقی دینے کا فیصلہ کیا ہے،سماجی اور معاشی بدحالی کو ترقی میں تبدیل کرنے کے لئے تحت 35 فیصد فنڈ مختص کرکے یہ کوشش کی جائے گی کہ جنوبی پنجاب میں صحت، تعلیم اور پانی کی سہولیات کو بہتر کیا جا سکے۔

انہوں نے کہا کہ صوبے پر قانون سازی کیلئے ہماری حکومت کام کر رہی ہے،اگر ہمارے پاس دو تہائی اکثریت ہوتی تو ہم یہ اعلان گزشتہ برس ہی کر چکے ہوتے لیکن اس پر کام جاری ہے،وزیر خزانہ نے کہا کہ ہم نے پنجاب کی ترقی بھی کو تین مراحل میں تقسیم کیا ہے، پہلا مرحلہ میں بڑے شہروں کی ترقی اور ان شہروں میں بسنے والے لوگوں کے لئے بہترین سروس ڈیلوری ہے،دوسرا مرحلہ میںانٹرمیڈیٹ سیٹیز میں شہری سہولیات کے لئے پانچ شہروں میں ڈویلپمنٹ پارٹنرز کی مد سی27 ارب روپے کا پروگرام اس سال شروع کر دیا جائے گا،تیسرے مرحلہ میںچھوٹے علاقوں جن کو ماضی میں نظرانداز کیا گیا ہے ان کی فلاح و بہبود ہے اور اس پر ہم کام کر رہے ہیں ،انہوں نے کہا کہ ہمارا عزم ہے کہ انڈسٹری کو فروغ دینے کے لئے پنجاب کے ہر ضلع میں ایک انڈسٹریل اسٹیٹ ہو، تعلیم کے شعبے میں ہر ضلع میں ایک یونیورسٹی ہو اور ہر تحصیل میں ایک کالج ہو یہ کام ہم اسی دور حکومت میں کریں گے اور اس کے علاوہ ہم گزشتہ حکومت کے عوامی فلاح کے جاری منصوبے بھی جاری رکھیں۔

لاہور میں شائع ہونے والی مزید خبریں