ایوان قائداعظمؒ فورم‘‘کے کا چھٹا ماہانہ اجلاس

حصول علم کے بغیر قومیں ترقی کی منازل طے نہیں کر سکتی ہیں۔ہم جب تک قومی زبان کو اہمیت نہیں دیں گے ترقی کی منازل طے نہیں کر سکیں گے۔ انگریزی پر مہارت ضرور حاصل کریں لیکن اردو سے غافل نہیں ہونا چاہئے۔ یکساں نظام تعلیم وقت کا تقاضا ہے۔نصاب تعلیم میں نظریہٴ پاکستان ‘ قیام پاکستان کے اسباب ومقاصد اور قائداعظمؒ علامہ اقبالؒ کے افکارونظریات کو شامل کیا جائے۔، مقررین

بدھ 13 نومبر 2019 21:50

لاہور (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آن لائن۔ 13 نومبر2019ء) حصول علم کے بغیر قومیں ترقی کی منازل طے نہیں کر سکتی ہیں۔ہم جب تک قومی زبان کو اہمیت نہیں دیں گے ترقی کی منازل طے نہیں کر سکیں گے۔ انگریزی پر مہارت ضرور حاصل کریں لیکن اردو سے غافل نہیں ہونا چاہئے۔ یکساں نظام تعلیم وقت کا تقاضا ہے۔نصاب تعلیم میں نظریہٴ پاکستان ‘ قیام پاکستان کے اسباب ومقاصد اور قائداعظمؒ علامہ اقبالؒ کے افکارونظریات کو شامل کیا جائے۔

ا ن خیالات کا اظہار ممتاز ماہر تعلیم و سابق ڈائریکٹر پبلک انسٹرکشن پنجاب محمد جمیل نجم نے ایوان قائداعظمؒ، لاہور میں قائم تھنک ٹینک’’ ایوان قائداعظمؒ فورم‘‘کے چھٹے ماہانہ اجلاس بعنوان ’’ یکساں نصاب اور نظام تعلیم کیسے ممکن ہی ‘‘سے خطاب کے دوران کیا۔

(جاری ہے)

اجلاس کی صدارت تحریک پاکستان کے سرگرم کارکن اور نظریہٴ پاکستان ٹرسٹ کے وائس چیئرمین پروفیسر ڈاکٹر رفیق احمد نے کی جبکہ اس موقع پر سماجی وسیاسی رہنما بیگم مہناز رفیع، معروف دانشور محمد آصف بھلی،پروفیسر رضوان الحق، احمر تاثیر انور، سیکرٹری نظریہٴ پاکستان ٹرسٹ شاہد رشید سمیت مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے افراد بڑی تعداد میں موجود تھے۔

پروگرام کا اہتمام نظریہٴ پاکستان ٹرسٹ نے کیا تھاجس کے آغاز پرحافظ محمد جمشید نے تلاوت کلام پاک اور محمد بلال ساحل نے نعت رسول مقبولؐ سنانے کی سعادت حاصل کی۔محمد جمیل نجم (تمغہ امتیاز) نے اپنے خطاب میں کہا کہ یہ ملک بڑی قربانیوں کے بعد حاصل کیا گیا اور ہماری نئی نسل کو قیام پاکستان کے اسباب ومقاصد اور اس کی خاطر دی جانیولی قربانیوں سے آگاہ ہونا چاہئے۔

یہ ملک عطیہٴ خدواندی ہے اس کی قدر کریں۔ انہوں نے کہا نصاب تعلیم مرتب کرتے وقت اس کے مقاصد اور ممکنہ اثرات کو مدنظر رکھنا بہت ضروری ہے۔ ہمیں محض دعوئوں کو نہیں بلکہ عمل کو زندگی کا حصہ بنانا چاہئے۔ پنجاب کریکولم اینڈ ٹیکسٹ بک بورڈ نصاب تعلیم کو مرتب کرنے کا ذمہ دار ادارہ ہے۔ یہ بات طے شدہ ہے کہ سرکاری و نجی سطح پر ترتیب دیے گئے نصاب تعلیم میں اسلام ، پاکستان ، نظریہٴ پاکستان کے منافی کوئی مواد شائع نہیں کیا جائیگا۔

تاہم کوئی ایسی ٹیم موجود نہیں ہے جو ایک ایک کتاب کا جائزہ لے اور اس کی منظوری دے۔ اسی لیے بسا اوقات وہ مواد بھی شائع ہو جاتا ہے جو ہمارے بنیادی نظریات سے متصادم ہے اور طاقتور لوگ اسے نافذ بھی کروا لیتے ہیں۔نصاب تعلیم تیار کرتے وقت مقامی ثقافت، دیہی وشہری زندگی ، سماجی اقدار کو بھی دیکھا جاتا ہے۔ بعض غیر ملکی این جی اوز بھی نصاب تعلیم کو مرتب کرنے کی کوشش کر رہی ہیں ۔

شعبہ تعلیم سے وابستہ اداروں میں موجود بعض افراد تعلیم پر توجہ دینے کے بجائے کرسی بچانے پر توجہ دے رہے ہیں۔ نصاب تعلیم میں علامہ اقبالؒ کے کلام کو شامل کیا جانا چاہئے۔ انہوں نے کہا کہ اساتذہ کی تربیت کیلئے عالمی معیار کو مدنظر رکھا جائے اور اسی طرز پر ہی تربیت کرنی چاہئے۔ استاد پر امید توقوم پر امید اگر استاد مایوس تو قوم مایوس ہو جاتی ہے۔

کسی بھی قوم کو جانچنے کا معیار استاد ہی ہوتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ نصاب تعلیم میں انگریزی زبان کا غلبہ ہے ۔ ذریعہٴ تعلیم اردو ہونا چاہئے جبکہ انگریزی کو بطور مضمون پڑھایا جائے۔ہم جب تک قومی زبان کو اہمیت نہیں دیں گے ترقی کی منازل طے نہیں کر سکیں گے۔ انگریزی پر مہارت ضرور حاصل کریں لیکن اردو سے غافل نہیں ہونا چاہئے۔ ہمیں اپنے امتحانی نظام میں بہتری لانا ہو گی۔

پالیسیاں تو بڑی اچھی بنتی ہیں لیکن اس پر عملدرآمد نہیں ہوتا ہے۔ اے لیول ، او لیول ، مدرسہ ، سب کو مین سٹریم میں لانے کی ضرورت ہے۔ ایک سٹڈی سرکل بنانے کی ضرورت ہے جس میں تمام نظام ہائے تعلیم میں علم حاصل کرنیوالے طلباوطالبات اکٹھے ہوں اور شعبہ تعلیم کو درپیش مسائل پر گفتگو کریں۔ انہوں نے کہا کہ شعبہ تعلیم کو تحصیل سطح پر انتظامیہ کے سپرد کیا جا رہا ہے ایسا نہیں ہونا چاہئے۔

پروفیسر ڈاکٹر رفیق احمد نے کہا کہ علم بہت بڑی دولت ہے ۔ تعلیم کے بغیر ترقی کا سوچنا محض خواب ہی ہے۔ طلبا وطالبات تعلیم پر مکمل توجہ دیں۔ ملک میں یکساں نصاب اور نظام تعلیم رائج کیا جائے تاکہ ہر ایک کو آگے بڑھنے کے یکساں مواقع میسر آ سکیں۔ بیگم مہناز رفیع نے کہا کہ وطن عزیز میں اس وقت کئی قسم کے نظام تعلیم نافذ ہیں۔ ایک نجی سکولوں میں انگریزی میڈیم سکول ہیں جو شہر کے پوش علاقوں میں واقع ہیں جہاں اے لیول ، او لیول پڑھایا جاتا ہے۔

پوش علاقوں سے باہر نکلیں تو درمیانہ طبقہ، مڈل کلاس شروع ہو جاتی ہے۔ ان کا نصاب اے لیول کی طرز کا تو نہیں ہوتا تاہم انگریزی میڈیم ضرور ہوتا ہے۔ پھر سرکاری سکولوں کا ایک نظام ہے ، ایک قسم مشنری سکولوں کی ہے جہاں انگریزی میڈیم طرز تعلیم رائج ہے۔ ایک اور قسم اسلامی طرز کے مدرسوں کی ہے۔ جہاں اس وقت پورے ملک میں لاکھوں بچے زیر تعلیم ہیں۔

وہاں انگریزی بالکل نہیں پڑھائی جاتی۔اب آپ خود اندازہ لگائیں ہمارے بچے جتنی قسم کے نظام تعلیم میں گزر رہے ہیں ہر بچہ ایک مختلف سوچ کے ساتھ جوان ہوگا۔ لہٰذا ایک یکساں نصاب تعلیم مرتب کیا جانا چاہئے ۔پروفیسر رضوان الحق نے کہا کہ ہمارے ہاں مغرب کی نقالی کی جاتی ہے۔ طلبا وطالبات میں سوچنے سمجھنے کی صلاحیت پیدا کرنے کی طرف کوشش نہیں کی جا رہی ہے۔

طلباء کو قومی زبان میں تعلیم دی جائے تاکہ وہ اپنے مضمون کو اچھی طرح سمجھ سکیں۔شاہد رشید نے کہا کہ نصاب تعلیم کو نظریہٴ پاکستان سے ہم آہنگ بنایا جائے اور اس میں قیام پاکستان کے اسباب ومقاصد ، مشاہیر تحریک آزادی کے افکارونظریات اور آزادی کی خاطر دی جانیوالی قربانیوں کو شامل کیا جائے۔بانئ پاکستان قائداعظمؒ کے افکار آج بھی ہماری رہنمائی کر رہے ہیں۔

لاہور میں شائع ہونے والی مزید خبریں