مولانا محمد علی جوہر نے مسلمانان برصغیر کیلئے تاریخ ساز خدمات انجام دیں، پروفیسر محمد لطیف نظامی

جمعہ 3 جولائی 2020 23:54

لاہور۔ (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 03 جولائی2020ء) تحریک آزادی کے عظیم مجاہد مولانا محمد علی جوہر نے مسلمانان برصغیر کے حقوق و مفادات کے تحفظ کیلئے قابل قدر اور تاریخ ساز خدمات انجام دیں ،آپ ایک نڈر صحافی‘شاعر ‘ مقرر ‘ مؤرخ اور زبردست انشاء پرداز تھے، ان خیالات کا اظہار پروفیسر محمد لطیف نظامی نے نظریہٴ پاکستان ٹرسٹ کے زیر اہتمام جاری اپنی نوعیت کے منفرد نظریاتی سمر سکول کے 20ویں سالانہ تعلیمی سیشن (آن لائن) کے سولہویں روزتحریک آزادی کے نامور رہنمامولانا محمد علی جوہر کی حیات وخدمات سے آگہی کیلئے منعقدہ خصوصی لیکچر کے دوران کیا، اس سکول کا ماٹو ’’ پاکستان سے پیار کرو ‘‘ ہے،پروفیسر محمد لطیف نظامی نے کہا کہ مولانا محمد علی جوہر 10دسمبر 1878ء کو ریاست رام پور میں پیدا ہوئے،ابتدائی تعلیم کے بعد آپ 1890ء میں علی گڑھ کالج میں داخل ہو گئے اور 1898ء تک تعلیم حاصل کر تے رہے‘ علی گڑھ سے فارغ ہونے کے بعد انگلستان گئے، 1902ء میں ماڈرن ہسٹری میں ڈگری حاصل کی، محمد علی جوہر نے دسمبر 1906ء میں آل انڈیا مسلم لیگ کے تاسیسی اجلاس میں شرکت کی اور وہاں تشکیل شدہ عبوری کمیٹی کے رکن مقرر ہوئے، مسلم لیگ کا دستور بنانے والوں میں آپ کا نام بھی شامل ہے، یکم جنوری 1911ء سے ایک ہفتہ وار اخبار ’’کامریڈ‘‘ جاری کیا،1913ء میں دہلی سے روزنامہ ’’ہمددر ‘‘ جاری کیا، مسلمانوں کے حقوق و فرائض اور حکومتی ذمہ داریوں کے حوالے سے مولانا محمد علی جوہر نے اپنے پرچے کامریڈ میں نہایت عمدہ اداریے تحریر کیے، 1913ء میں مسجد کانپور کا سانحہ پیش آیا تو بر طانیہ جا کر حکومت کے سامنے مسلمانوں کے جذبات کی صحیح انداز میں ترجمانی کی، ان کی بے باکانہ صحافت کے پیش نظر حکومت نے انہیں 1915ء میں گرفتا ر کر لیا اور ان کے پرچے کو بھی بند کر دیا، بلقان جنگ کے خاتمے کے بعد ترکی کو شکست ہوئی اور عثمانی خلافت کا ڈول ڈولنے لگا تو مسلمانان ِ ہند نے ترکی کی خلافت کو بچانے کیلئے زبر دست تحریک کا آغاز کیا، یہ ’’تحریک خلافت‘‘ کے نام سے مشہور ہوئی، اس کے بانی اورسر کردہ ترین لیڈر مولانا محمد علی جوہر تھے، اس دوران انہیں کئی بار گرفتار کیا گیا اور رہا بھی ہوتے رہے، 8جولائی 1921ء کو انہوں نے ترکِ موالات کا اعلان کیا اور انگریزی مال کے بائیکاٹ کی اپیل کی، اس اعلان کے بعد انہیں گرفتا ر کر لیا گیا ان پر مقدمہ چلا اور سزائیں سنائی گئیں، 1923ء میں رہائی ملی تو دوبارہ اپنے پرچے ’’کامریڈ‘‘ اور ’’ہمدرد ‘‘کا اجرا کیا، نہرو رپو رٹ کے بعد مولانا محمد علی ہندو ؤں سے بد دل ہو گئے،لندن میں انہوں نے گول میز کانفرنس کے اجلاسوں میں شرکت کی، اسی دوران انہوں نے اعلان کیا کہ وہ غلام ملک میں نہیں مرنا چاہتے، بالآخر لندن میں جہاں وہ برطانیہ کے سامنے ہندو ستان کی آزادی کا مطالبہ پیش کر نے کیلئے گئے تھے 4جنوری 1931ء کو انتقال کر گئے، بر طانوی حکومت ان کی وصیت کے مطابق ان کی میت بیت المقدس لے گئی اور وہیں آپ کو دفن کیا گیا۔

لاہور میں شائع ہونے والی مزید خبریں