سرسید احمد خان نے مسلمانان ہند کو جدید تعلیم سے روشناس کرایا،پروفیسر زاہد جاوید شیخ

پیر 6 جولائی 2020 22:00

لاہور (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آن لائن۔ 06 جولائی2020ء) سر سید احمد خان نے مسلمانان ہند کو جدید تعلیم سے روشناس کرایا۔ وہ علی گڑھ تحریک کے بانی تھے جس کے فارغ التحصیل طلبہ نے تحریک پاکستان میں ہراول دستے کا کردار ادا کیا۔سرسید احمد خان مسلمانان برصغیر کے جداگانہ تشخص اور دوقومی نظریے کے زبردست داعی تھے۔ ان خیالات کا اظہار پروفیسرزاہد جاوید شیخ نے نظریہٴ پاکستان ٹرسٹ کے زیر اہتمام جاری اپنی نوعیت کے منفرد نظریاتی سمر سکول کے 20ویں سالانہ تعلیمی سیشن (آن لائن) کے اٹھارہویں روزتحریک علیگڑھ کے بانی رہنماسرسید احمد خان کی حیات وخدمات سے آگہی کیلئے منعقدہ خصوصی لیکچر کے دوران کیا۔

اس سکول کا ماٹو ’’ پاکستان سے پیار کرو ‘‘ ہے۔پروفیسرزاہد جاوید شیخ نے کہا کہ سرسید احمد خان انگریزوں کے دورِ غلامی میں مسلمانوں کی زبوں حالی سے بہت پریشان تھے۔

(جاری ہے)

مسلمانان برصغیر کی اصلاح و بیداری کیلئے سرسید احمد خان کی تعلیمی تحریک دوررس اور نتیجہ خیز ثابت ہوئی۔ انہوںنے تعلیمی میدان میں کارہائے نمایاں انجام دیے اور مسلمانوں کو جدید علوم و فنون سیکھنے پر آمادہ کیا ۔

سر سید احمد خان کی خواہش تھی کہ مسلمان اپنا اسلامی تشخص برقرار رکھتے ہوئے جدید علوم حاصل کریں۔انہوں نے کہا کہ سرسید احمد خان17اپریل 1817ء کو دہلی میں پیدا ہوئے۔ اپنے زمانے کے بہت بڑے کتب بین تھے۔والد کی وفات کے بعد گھر کے حالات دگرگوں ہوگئے تو اپنے عزیز و احباب کے مشورہ کے برخلاف مغل دربار کی بجائے ایسٹ انڈیا کمپنی میں 1838ء میں معمولی کلرک مقرر ہوئے۔

اگلے سال فروری 1839ء میں آگرہ ڈویژن کے کمشنر رابرٹ ہملٹن کے نائب میر منشی (اسٹنٹ چیف سیکرٹری) مامور ہوئے۔ پھر منصفی کا امتحان دے کر 1841ء میں مین پوری کے مقام پر منصف مقرر ہوئے۔ 1842ء میں فتح پور سیکری تبادلہ ہوا۔ اسی سال بہادر شاہ ظفر بادشاہ کی جانب سے سید صاحب کو جوادالدولہ عارف جنگ کا خطاب ملا۔1864ء میں علی گڑھ میں دوران ملازمت سائنٹیفک سوسائٹی قائم کی جہاں جدید سائنسی علوم پر تقریریں کروائیں اور انگریزی سے تاریخ و سیاسیات کی بعض کتابیں اردو میں ترجمہ کرائی گئی تھیں۔

1869ء میں آپ انگلستان گئے ۔1870ء میں وطن واپس آکر پوری تندہی سے اصلاح قوم اور جدید سائنسی علوم کی ایک اقامتی اسلامی درس گاہ آکسفورڈ اور کیمبرج یونیورسٹی کی طرز پر بنانے کی تیاریاں کیں۔ رسالہ ’’تہذیب الاخلاق‘‘ جاری کیا جس میں ایسی درسگاہ اور جدید سائنسی علوم کی ترویج کی ضرورت و اہمیت پر زور دیا۔ مجوزہ درس گاہ کیلئے علی گڑھ کا انتخاب کرکے سرمایہ فراہم کرنے لگے۔ 24مئی 1875ء کو نئے مدرسةالعلوم کا افتتاح کیا۔ 27مارچ 1898ء کو وفات پائی اور علی گڑھ کالج کی مسجد کے گوشے میں دفن کئے گئے۔

لاہور میں شائع ہونے والی مزید خبریں