اورنج لائن منصوبہ بالآخر مکمل، وزیر اعلی پنجاب کل افتتاح کرینگے

ہفتہ 24 اکتوبر 2020 22:34

لاہور۔ (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 24 اکتوبر2020ء) : سی پیک کا پہلا منصوبہ پانچ سال زیر تعمیر رہنے والا اورنج ٹرین منصوبہ بالآخر مکمل ہوگیا،کل اتوار کے روز وزیر اعلی پنجاب سردار عثمان بزدار افتتاح کرینگے جبکہ ٹرین کو عوام کے لئے پیر کے روز چلایا جائے گا، لوگ پہلی بار اورنج لائن میں سفر کریں گے۔ 27.1 کلومیٹر طویل اور 26 سٹیشنز پر مشتمل میٹرو اورنج ٹرین اب چلنے کے لیے مکمل تیار ہے۔

ٹرین کے سٹیشن پر تنصیبات اور آرائش و زیبائش مکمل ہوچکی ہے۔اورنج ٹرین کا کرایہ 40 روپے اور وقت صبح ساڑھے سات بجے سے رات ساڑھے آٹھ بجے تک مقرر کیا گیا ہے۔ اکتوبر 2015 میں شروع ہونے والا اورنج لائن ٹرین منصوبہ جس میں27.12 کلومیٹر کا ٹرین ٹریک لاہور ڈیرہ گجراں سے شروع ہو کر علی ٹا?ن سٹیشن پر اختتام پذیر ہوتا ہے۔

(جاری ہے)

اس کے علاوہ ٹرین کا گزر ودھا، اسلام باغ، سلامت پورہ، محمود بوٹی، پاکستان منٹ، شالیمار گارڈنز، باغبان پورہ، یو ای ٹی، لاہور ریلوے سٹیشن، لکشمی چوک، جی پی او، انارکلی، چوبرجی، گلشن راوی، سمن آباد، بند روڈ، صلاح الدین روڈ، شاہ نور، سبزہ زار، اعوان ٹا?ن، وحدت روڈ، ہنجروال، کینال، ٹھوکر نیاز بیگ اور علی ٹا?ن سے ہو گا۔

تقریباً 25 کلومیٹر کا ٹریک زمین کے اوپر اور لکشمی سے چوبرجی تک کا 1.72 کلومیٹر کا ٹرین ٹریک زیر زمین تعمیر کیا گیا ہے۔ اس ٹریک پر چلانے کے لیے 27 ٹرینیں چین سے خریدی گئی ہیں جبکہ ایک ٹرین کے پیچھے 5 بوگیاں لگائی جائیں گی۔5 بوگیوں پر مشتمل ایک ٹرین میں 250 افراد کے بیٹھے کی گنجائش موجود ہے۔ ایک اندازے کے مطابق اورنج ٹرین میں روزانہ تقریباً ڈھائی لاکھ افراد سفر کریں گے۔

اورنج ٹرین میں مسافروں کی رہنمائی کے لیے ٹرین کے اندر سکرینز نصب کی گئی ہیں جس سے انھیں سٹیشنز سے متعلق معلومات مل سکیں گی۔ مسافر ڈیرہ گجراں سے 45 منٹ میں علی ٹا?ن تک پہنچ سکیں گے۔ اس کے علاوہ سٹیشنز پر ٹکٹ خریدنے کے لیے خودکار مشینیں بھی نصب کی گئی ہیں۔اس منصوبے کو مکمل کر کے عوام کے لیے کھولنے کے لیے پاکستان سپریم کورٹ نے حکومت پنجاب کو یہ احکامات جاری کیے تھے کہ جنوری 2020 تک اس ٹرین کو چلایا جائے۔

اورنج ٹرین منصوبے کے سول سٹرکچر پر کام کا آغاز 2015 میں کیا گیا۔ پہلے فیز میں اس منصوبے کو ڈیرہ گجراں سے چوبرجی تک مکمل کیا گیا جسے جبیب کنسٹرکشن کمپنی نے مکمل کیا جبکہ دوسرے فیز میں اس پراجکیٹ کا کنٹریکٹ زیڈ کے بی کمپنی کو سونپ دیا گیا جس نے اسے چوبرجی سے علی ٹا?ن تک مکمل کیا۔اس منصوبے کا سول کام مکمل ہونے کے بعد اس منصوبے کے سول سٹرکچر پر آنے والے خرچے کا تعین کیا گیا جس کی لاگت 48 ارب روپے بتائی گئی۔

مئی 2019 میں اس منصوبے کا سول کام مکمل ہونے کے بعد مکینکل اور الیکٹریکل کام کو مکمل کرنے کے لیے اسے ایک چینی کمپنی کے حوالے کر دیا گیا۔27 ماہ میں مکمل کیے جانے والا منصوبہ 22 ماہ کی تاخیر کے بعد مکمل کیا گیا۔ اس منصوبے کی تاخیر جن وجوہات کا شکار رہی اس میں ماحولیاتی مسئلہ، شفافیت اور ہیریٹیج عمارتوں کو نقصان جیسے مسائل شامل تھے۔اگست 2016 میں لاہور ہائی کورٹ نے لاہور کے 11 تاریخی مقامات کے 200 فٹ کے اندر ہونے والے تعمیراتی کام کو بند کرنے کا حکم دیا تھا تاہم تاریخی عمارتوں کو نقصان سے بچانے کے لیے احتیاطی تدابیر اپنانے کے بعد اس منصوبے پر کام جاری کرنے کی اجازت دے دی گئی تھی۔

اگست 2018 میں چیئرمین نیب جسٹس ریٹائرڈ جاوید اقبال نے احکامات جاری کیے تھے کہ اورنج لائن منصوبے میں ہونے والی مبینہ کرپشن کی تحقیقات کی جائیں۔ نیب حکام کا الزام تھا کہ اس ’منصوبے میں شفافیت سے کام نہیں لیا گیا جس کی وجہ سے اس منصوبے میں مبینہ طور پر ’تقریباً 4 ارب روپے کا نقصان ہوا۔ایلی ویٹرز کے بعد ٹرین سٹیشن کی راہداری سے گزر کر مسافر سٹیشن تک پہنچیں گے جہاں کارڈ کا بیلنس چیک کرنے اور ریچارج کرنے کے لیے خود کار مشینری کی تنصیب مکمل ہے جن مسافروں کے پاس کارڈ موجود نہیں ان کے لیے ٹکٹ باکس بنائے گئے ہیں جہاں 40 روپے میں ایک ٹوکن خریدا جاسکتا ہے۔

ٹوکن اور کارڈ کے ذریعے ٹرین کے پلیٹ فارم تک جانے کے لئے آٹو میٹک دروازے کھلیں گے۔ اسی طرح ٹرین تک جانے کے لئے ایک اور برقی زینے کی تنصیب کی گئی ہے جس سے مسافر ٹرین کے پلیٹ فارم تک پہنچیں گے۔ٹرین کے سٹیشنز پر کی گئی لائٹنگ نے ان سٹیشنز کو اور بھی دلکش بنا دیا ہے جبکہ نقش و نگار سٹیشنز کو خوشنما بناتے ہیں۔ شہر لاہور کے باسی پر جوش ہیں کہ ٹرین میں سفر کر کے ان کو بہتر سفری سہولیات میسر آئیں گی۔یاد رہے اس سے قبل سابق وزیر اعلیٰ شہباز شریف اورنج لائن ٹرین منصوبے کا ڈیرہ گجراں سے لکشمی چوک تک ڈیزل لوکوموٹیو کے ٹیسٹ رن کا افتتاح کر چکے ہیں۔

لاہور میں شائع ہونے والی مزید خبریں