حکومت تھرڈ پارٹی کے ذریعے چینی کی قیمت کا تعین کرے ‘ پاکستان شوگر ملز ایسوسی ایشن

کچے گنے کو کرش کرایا گیا تو چینی کی کم پیدا وار ہو گی ،حکومت کو ایک بار پھر کثیر زر مبادلہ خرچ کرکے چینی درآمد کرنی پڑے گی

جمعہ 15 اکتوبر 2021 23:45

لاہور(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 15 اکتوبر2021ء) پاکستان شوگر ملز ایسوسی ایشن کے چیئرمین چوہدری ذکا ء اشرف نے کہا ہے کہ شوگر ملوں کو درپیش سنگین مسائل کے باوجود شوگر ملیں ہڑتال نہیں کریں گی ،اس وقت کسانوں کی 500ارب روپے کی گنے کی فصل کھیتوں میںکھڑی ہے ،شوگر کرشنگ سیزن کیسے شروع کریں ،گنے کے کسانوں کو تمام تر ادائیگیوں کے باوجود پنجاب حکومت شوگرملوں کو این او سی جاری نہیں کر رہی جس کے باعث بینک شوگرملوں کو ورکنگ کیپٹل دینے پر اعتراض کر رہے ہیں ،ملک میں گنے کی فصل 30نومبر کو پک کر تیار ہوتی ہے لیکن اس سال بھی حکومت شوگرفیکٹریز کنٹرول ایکٹ کے تحت پہلے کرشنگ سیزن کاآغاز کرانا چاہتی ہے اگر اس سال بھی کچے گنے کو کرش کرایا گیا تو چینی کی کم پیدا وار ہو گی اور حکومت کو ایک بار پھر کثیر زر مبادلہ خرچ کرکے چینی درآمد کرنی پڑے گی ،حکومت کو یہ سب منظور نہیں تو ہم سے فیکٹریوں کی چابیاں لے کر ہمارا سرمایہ واپس کرے اورصارفین کو جس ریٹ پر چینی دینا چاہتی ہے دے،گزشتہ سال حکومت نے ایک کلو چینی کی قیمت 84.75روپے مقررکی جبکہ ہماری ایک کلو چینی کی پیداواری لاگت 104روپے تھی ،اس سال بھی حکومتی افرادکہہ رہے ہیں کہ 80روپے کلو کے حساب سے چینی کی فروخت یقینی بنائیں گے میں صرف یہی کہوں گا کہ جب ملیں چلیں گی تو دیکھیں گے کہ اس کی کیا پیداواری قیمت بنتی ہے ،حکومت کو پیشکش ہے کہ تھرڈ پارٹی کے ذریعے چینی کی قیمت کا تعین کرے اور ہمارا 15فیصد منافع رکھ کر ایک کلو چینی کی قیمت مقرر کر دے۔

(جاری ہے)

مقامی ہوٹل میں پنجاب کے چیئرمین چو ہدری اسلم اور سینئر ممبر چوہدری محمد وحید کے ہمراہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ حکومت نے ایک جانب تو ملک میں چینی کی پیداواری قیمت سے کم قیمت مقرر کر کے شوگر سیکٹر کو مسائل سے دوچار کیا اور دوسری جانب بیرون ملک سے 125سے 130روپے فی کلو کے لگ بھگ مہنگی چینی درآمد کر نے پر 20کروڑ ڈالر کا خطیر زر مبادلہ خرچ کیا گیا ،ملک کی شوگر ملوں نے پہلے 104روپے کی پیداواری قیمت پر اور بعد میں 100روپے تک فروخت کرنے کی پیشکش کی لیکن حکومت نے ملکی کسانوں کی بجائے غیر ملکی صنعت اور غیر ملکی کسانوں کو فائدہ پہنچایا ۔

ممبرز کے غیر معمولی اجلاس عام میں فیصلہ کیا گیا ہے کہ آج شوگر کین کنٹرول بورڈ کی اجلاس کا بائیکاٹ کریں گے ، ہم حکومت سے کسی قسم کی محاذ آرائی نہیں چاہتے، ہم حکومت سے مل کر چلنا چاہتے ہیں، ہماری شوگر انڈسٹری میں 80 کاروباری گروپس ہیں جو کہ سب انڈسڑلسٹ ہیں اور ان کا کسی قسم کی سیاست سے تعلق نہیں ہے ہم نے لاتعداد طریقوں سے حکومت کے اعلی حکام سے بھی ملنے کی کوشش کی ہے لیکن ابھی تک ہمیں وہاں سے وقت نہیں ملا مگر ہم اس پر کوشش جاری رکھیں گے۔

مسابقتی کمیشن پاکستان نے حال ہی میں شوگر انڈسٹری پر 44 ارب کا جرمانہ کیاہے جو کہ ملکی تاریخ میں کسی صنعت کو ہونے والے سے جرمانے سے زیادہ ہے۔ یہ رقم اس قدر زیادہ ہے کہ مل مالکان اور ان کے شیئر زہولڈر اس سے سخت پریشان ہیں۔ قوانین میں تبدیلی کر کے شوگر ملوں پر کرشنگ سیزن کا آغاز نہ کر نے پر یومیہ 50 لاکھ روپے جرمانے کی شق شامل کر دی گئی ہے، صنعتکار کا یہ ذاتی فیصلہ ہونا چاہیے کہ اس نے اپنی صنعت کو کب چلاناہے اور کب بند کر نا ہے۔

فیڈرل بورڈ آف ریونیو نے پچھلے 5 سالوں کے کیسز بغیرکسی قانونی جواز، طریقہ کار اور قرعہ اندازی کے بغیر کھولے ہیں جو کہ منطقی طور پر فیصلہ شدہ تھے، اس طرح شوگر ملوں کو 18 سے 20 ارب روپے کا جرمانہ کیا گیاجو کہ ہر مل کی اصل قیمت سے بھی کہیں زیادہ ہے۔

لاہور میں شائع ہونے والی مزید خبریں