اندرونی استحکام کے بغیر خارجہ پالیسی کامیاب نہیں ہو سکتی‘امریکہ سمیت تمام عالمی طاقتوں کے ساتھ مل کر چلنا ہے‘ خورشید محمود قصوری

عالمی سطح پر کسی بھی ملک کی دوسرے ملک کے ساتھ دوستی مستقل بنیادوں پر نہیں ہوتی ، ہر ملک اپنے قومی مفادات کے مطابق فیصلے کرتا ہے‘سابق وزیر خارجہ

جمعرات 19 مئی 2022 20:34

لاہور(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 19 مئی2022ء) سابق وزیر خارجہ خورشید محمود قصوری نے کہا ہے کہ عالمی سطح پر کسی بھی ملک کی دوسرے ملک کے ساتھ دوستی مستقل بنیادوں پر نہیں ہوتی بلکہ ہر ملک اپنے قومی مفادات کے مطابق فیصلے کرتا ہے، اندرونی استحکام کے بغیر کسی بھی ملک کی خارجہ پالیسی کامیاب نہیں ہو سکتی ہے، کشمیر، ایٹمی اثاثوں کے تحفظ اور چین سے تعلقات پر بنائی گئی پالیسی کو کوئی بھی حکومت بدل نہیں سکتی ہے۔

ان خیالات کا اظہار سابق وزیر خارجہ خورشید محمود قصوری نے ایوان قائداعظمؒ فورم کے زیر اہتمام منعقدہ نشست بعنوان ’’ موجودہ عالمی صورتحال میں مضبوط خارجہ پالیسی کی ضرورت‘‘ میں کیا۔ خورشید محمود قصوری نے کہا کہ عالمی دنیا میں کسی بھی ملک کی دوسرے ملک کے ساتھ دوستی مستقل بنیادوں پر نہیں ہوتی بلکہ ہر ملک اپنے قومی مفادات کے مطابق فیصلے کرتا ہے۔

(جاری ہے)

پوری دنیا میں اسٹیبشلمنٹ کا مخصوص کردار ہوتا ہے اور وہ ہروقت اس طرح نہیں سوچتی جیسے عوام سوچ رہے ہوتے ہیں۔ اسٹیبشلمنٹ ایک مستقل حکومت ہوتی ہے جو کبھی تبدیل نہیں ہوتی۔ امریکہ عراق جنگ کے دوران برطانیہ کے مفادات امریکہ سے وابستہ تھے لہٰذا وہاں کی حکومت نے جنگ کیخلاف ہونیوالے بڑے عوامی مظاہروں کو نظر انداز کر کے جنگ میں امریکہ کا ساتھ دیا۔

انہوں نے کہا کہ ہمارے ہاں سیاستدانوں کے آئے روز بدلتے بیانات سے قوم کنفیوز ہو جاتی ہے کہ یہ کل صحیح کہہ رہے تھے یا آج،ویسے بھی یہاں لوگوں کو ڈیبیٹ کی عادت نہیں ہے۔تاہم بعض دفعہ سیاستدانوں کو قربانی کا بکرا بھی بنایا گیا ۔ انہوں نے کہا کہ اگر ملک میں اندرونی استحکام نہیں تو آپ خود اپنے دشمن ہیں اور کسی بیرونی دشمن کی ضرورت نہیں ہے۔

آج یہاں گالم گلوچ کا بازار گرم ہے۔ بعض سیاستدان اتنے بھی برے نہیں لیکن ان کے منہ پر کالک مل دی گئی ہے۔ بھارت میں بھی حالات ہمارے جیسے ہی ہیں لیکن وہاں سیاسی جماعتیں قومی مفاد ات میں اکٹھی ہو جاتی ہیںلیکن یہاںایسا بھی نہیں ہو رہا ۔ اندرونی استحکام کے بغیر کسی بھی ملک کی خارجہ پالیسی کامیاب نہیں ہو سکتی ہے۔ خارجہ پالیسی کے تحت قومی مفادات کو پروموٹ کیا جاتا ہے۔

بارڈر ز کو سیکیور کرنا اور غربت کا خاتمہ بھی خارجہ پالیسی کے بنیادی مقاصد ہیں۔میرے خیال میں خارجہ پالیسی پر لوگوں کوبے وقوف بنانا آسان ہے۔ بھارت نے اپنی معیشت کے متعلق اتنا پروپیگنڈا کیا کہ دنیا سچ جاننے لگی کہ بھارتی معیشت بڑی مضبوط ہے حالانکہ وہ دگرگوں حالت میں ہے۔ انہوں نے کہا خارجہ پالیسی کا فیصلہ ایک شخص نہیں کر سکتا اور اس پالیسی میں اصول نہیں بدلتے ہیں۔

کشمیر، ایٹمی اثاثوں کے تحفظ اور چین سے تعلقات پر بنائی گئی پالیسی کو کوئی بھی حکومت بدل نہیں سکتی ۔ماضی قریب میں آنیوالی ہر حکومت کو آئی ایم ایف کے پاس جانا پڑا لہٰذا ہمیں عالمی طاقتوں کے ساتھ مل کر چلنا ہے اور امریکہ اس وقت ایک بڑی عالمی طاقت ہے۔ بدقسمتی سے اس وقت ہم بھکاری بن چکے ہیں اور دوست ممالک بھی ہمیں اس وقت تک کوئی پیسہ نہیں دیتے جب تک آئی ایم ایف کے ساتھ ہمارا پروگرام فائنل نہیں ہو جاتا ۔

ہماری معیشت امپورٹ بیسڈ ہے لہٰذا زیادہ ٹیکس اکٹھا ہو جاتا ہے جسے حکومت اپنی کامیابی سے تعبیر کرتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ اگر ہم ماضی میں ڈوبے رہے توتباہ ہو جائیں گے ہمیں مستقبل کی طرف بڑھنا ہے۔ آج نیپال، بھوٹان اور بنگلہ دیش ہم سے آگے نکل چکے ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں نظام تعلیم میں اصلاحات کی ضرورت ہے ، طلبہ میں سوال کرنے کی صلاحیت پیدا کرنا ہو گی۔

ٹاٹ پر بیٹھ کر پڑھنے والا ایٹمی سائنسدان بن جاتا ہے تو آج کے بچے زیادہ باصلاحیت ہیں۔ انہوں نے کہا کہ عوامی حمایت کے بغیر کوئی بھی امن دیرپا ثابت نہیں ہو سکتا ۔ ہماری فوج اور نیوکلیئر ڈیٹرنٹ کی موجودگی کوئی ہماری طرف میلی آنکھ سے نہیں دیکھ سکتا اور ماضی میں کئی بار اسی وجہ سے بھارت جنگ سے باز رہا۔ افغانستان، امریکہ اور انڈیا کے متعلق بننے والی خارجہ پالیسی فوج کی مشاورت سے ہی بنائی جاتی ہے۔

لاہور میں شائع ہونے والی مزید خبریں