میں نے پہلے ہی کہا تھا آزادی مارچ کو بے نتیجہ کہنا قبل ازوقت ہے،مولانا محمد خان شیرانی

حکومت اور اتحادیوں کے درمیاں مفادات کی رسہ کشی ہے ۷ ان ہاوس تبدیلی کا غالب امکان تو نہیں حکومت اور اتحادیوں کا موقف اصولی یا تجارتی ہے یہ بہت جلد نظرآجائے گا ٓمشرق وسطی کی صورتحال آنے والوں وقتوں اس سے زیادہ خطرناک ہونے کے امکانات دکھائی دے رہے ہیں { سی پیک میں بلوچستان کے لئے کچھ نہیں ہے، پریس کانفرنس سے خطاب

بدھ 15 جنوری 2020 00:21

ٰحب (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آن لائن۔ 14 جنوری2020ء) جے یو آئی ف کے مرکزی رہنما سابق چیئرمین اسلامی نظریاتی کونسل مولانا محمد خان شیرانی نے کہا ہے کہ میں نے پہلے ہی کہا تھا کہ آزادی مارچ کو بے نتیجہ کہنا قبل ازوقت ہے اس کے نتائج اور ثمرات پر اب تک ساتھی پر امید دکھائی دیتے ہیں حکومت اور اتحادیوں کے درمیاں مفادات کی رسہ کشی ہے ان ہاوس تبدیلی کا غالب امکان تو نہیں حکومت اور اتحادیوں کا موقف اصولی یا تجارتی ہے یہ بہت جلد نظرآجائے گا مشرق وسطی کی صورتحال آنے والوں وقتوں اس سے زیادہ خطرناک ہونے کے امکانات دکھائی دے رہے ہیں مجھے اندیشہ کہء ترکی اور ایران ایک دوسرے سامنے کھڑے نہ ہو جائے مارکسزم پس پشت چلاگیا اور مغربی قوت حاوی ہوگیا سی پیک میں بلوچستان کے لئے کچھ نہیں ہے ان خیالات کا اظہار انہوں حب آمد پر بلدیہ ریسٹ ہائوس میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کیا مولانا محمد خان شیرانی نے کہا کہ آزادی مارچ کے حوالے میں نے پہلے کہا تھا جس طرح یہ اسلام آباد جائیں گے اور اسی طرح واپس لوٹ کر آئینگے تنائج کیا ہونگے یہ کہنا قبل ازوقت ہے تاہم ساتھی نتائج اور ثمرات کے حوالے پرامید ہیں انہوں نے کہا کہ حکومت اور اس کے اتحادیوں میں سیاسی مفادات کی رسہ کشی جاری ہے ان کا موقف اصولوں پر ہے یا تجارتی ہے یہ بعد میں پتہ چلے گا انہوں نے کہا کہ مملکت اسٹبلشمنٹ کی جاگیر ہے سیاستدان وزیر اعظم اور صدر اس کے ماتحت ہیں مشرق وسطی کی صورتحال کے حوالے سے پوچھے گئے سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ مشرق وسطی کا نقشہ مذہب کی بنیاد پر ہے ہمیں خدشہ ہے کہ امریکہ ترکی اورایران کو ایک دوسر ے کے سامنے کھڑا کرکے جنگ نہ چھیڑدیا نہوں نے کہا کہ کہا کہ مسلم لیگ (ن) میں دو دھڑوں کی تقسیم سے ہماری تحریک پر کوئی اثر پڑتا ہے کیونکہ گھر کے اندر کے حالات بھی ٹھیک نہیں ہے پھر باہر سے کیا اثر پڑے گا پہلے جماعت کے اندر کا مسئلہ ہی.

انہوں نے کہا کہ مولانا فضل الرحمن نے پہلا جلسہ پشاور میں کیا تھا اس میں انہوں نے کہا تھا کہ ہمیں اسٹیبلشمنٹ سے شکایت ہے اسکا مطلب اسٹیبلشمنٹ پہلے دوست تھا الیکشن میں جو پیٹیاں بھرنی تھیں اسٹیبشلمنٹ نے نہیں بھری اسلیے ہمیں جو امید تھا وہ آپ نے نہیں کیا دوسری بات یہ کہ ہمیں آپ سے شکوہ ہے کہ آپ نے جو وعدے کیے تھے کہ بلوچستان کی حکومت دینگے یا خیبرپختون خواہ کی یا دونوں حکومتیں دینگے وہ وعدے پورے نہیں کیے اسلیے شکوہ ہی.وزیر اعلی بلوچستان کی تبدیلی کے حوالے سے سوال کے جواب میں مولانا محمدخان شیرانی نے کہا کہ میرے خیال میں ان حکومتوں کو جنہوں نے تشکیل دیا ہے وہ چاہیں تو ابھی تبدیل کرسکتے ہیں اگر وہ اپنے مفاد میں سمجھیں تو یہ چلتی رہیں گے ورنہ وہ گرانا چاہیں انکے لیے یہ کوئی مشکل نہیں ہی.انہوں نے کہا اسٹیبلشمنٹ کے بغیر سیاستدان کیا حیثیت رکھتے ہیں پاکستان میں اسٹیبلشمنٹ کے بغیر کوئی سیاست نہیں کرسکتا ہیانہوں نے کہا کہ 1989 کے بعد سویت یونین افغانستان سے پسپا ہوا تو دنیا میں سیاست کے دو چیزیں ایک قوت کی یعنی سویت یونین کی قوت سیاسی میدان سے نکل چکی ہے صرف مغربی قوت باقی ہے اسی طرح وہ مارکسی نظریات کی سیاست تھی کہ مقاصد.

دلائل. فلسفی. خدمت. اور عوام ہے تو وہ سیاسی فکر سیاسی میدان سے پیچھے ہٹ گئی ہے تو اب مغرب کی سیاست ہے مفادات مقصد کی سیاست غالب ہے تو ظاہر ہے سورج جب غروب ہوتا ہے تو مولوی ہو یا کوئی اور سب غروب ہوجاتے ہیں سی پیک کے حوالے انکا کہنا تھا کہ جب اسکا افتتاح ہونے جارہا تھا کہ تو ہمارے رہنما جارہے تھے اللہ کی قدرت ہے کہ انکو دعوت نامہ بھی نظر نہیں آرہا تھا یہ این ایچ اے کا ہے یہ N50 کا توسیع منصوبہ ہے نہ انکو یہ نظر آرہا تھا یہ پیسے ایشین ترقیاتی بینک کے ہیں لیکن لوگوں کے سامنے کہہ رہے تھے کہ ہم سی پیک کا افتتاح کررہے ہیں میں نے پہلے کہا تھا کہ سی پیک میں بلوچستان کے لئے کچھ نہیں ہی

لسبیلہ میں شائع ہونے والی مزید خبریں