وکلاء تحریک نے لوگوں کے ذہنوں میں تبدیلی لائی ، ملک میں فرد واحد نے من مانی کے ذریعے غیر آئینی طریقے سے عدالتی نظام کو سبوتاژ کیا ، پاکستان کی عدالتی اور قانونی تاریخ میں پہلی دفعہ وکلاء ایسے اقدام کے خلاف سڑکوں پر نکل آئے ، آئندہ کوئی بھی پی سی او نہیں لائیگا، بار اور بینچ ایک دوسرے کے لئے لازم و ملزوم ہیں، وکلاء پیشہ وارانہ اصولوں پر کاربند ر ہ ر انصاف کی فراہمی میں اپنی خدمات سر انجام دے سکتے ہیں،چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کافیڈرل جوڈیشل اکیڈمی میں وکلاء کیلئے منعقدہ تربیتی کورس کی تقریب تقسیمِ اسناد سے خطاب

ہفتہ 4 مئی 2013 21:49

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبار تازہ ترین۔آئی این پی۔4مئی۔ 2013ء) چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری نے کہاہے کہ وکلاء تحریک نے لوگوں کے ذہنوں میں تبدیلی لائی ، ملک میں فرد واحد نے من مانی کرتے ہوئے اور غیر آئینی طریقے سے عدالتی نظام کو سبوتاژ کیا ، پاکستان کی عدالتی اور قانونی تاریخ میں پہلی دفعہ اس کے خلاف وکلاء کا شدید رد عمل سامنے آیا ا ور وہ سڑکوں پر نکل آئے ، عام آدمی سمجھ گیاکہ قانون کی حکمرانی کا مطلب کیا ہے، آئندہ کے لئے پی سی او کوئی بھی نہیں لائے گا، بار اور بینچ ایک دوسرے کے لئے لازم و ملزوم ہیں، وکلاء پیشہ وارانہ اصولوں پر کاربند رہتے ہوئے معاشرے میں پیشے کی عزت میں اضافہ اور انصاف کی فراہمی میں اپنی قیمتی خدمات سر انجام دے سکتے ہیں،اس کے لئے قوم امیدیں رکھتی ہے۔

(جاری ہے)

وہ ہفتہ کوفیڈرل جوڈیشل اکیڈمی میں قانونی تعلیم کے عنوان سے راولپنڈی ہائیکورٹ بار ایسوسی ایشن کے وکلاء کیلئے ہفت روزہ تربیتی کورس کی تقریب تقسیمِ اسناد سے خطاب کررہے تھے ۔ انہوں نے کہاکہ میں قانونی تعلیم کے تواترکے مو ضوع پر دو ایک ہفتہ تربیتی کورسز کے شرکاء کو مبارک باد پیش کرتا ہوں۔ ان دو کورسز کے شرکاء نوجون وکلاء ہیں جن کا تعلق راولپنڈی ڈویژن سے ہے اس متبرک کام کی ابتداء صدر راولپنڈی باراسوسی ایشن راولپنڈی بنچ کی کاوش سے ہوئی۔

انہوں نے کہاکہ میں مذکورہ بالا کورسز کیلئے تشکیل کردہ پروگرامز جن میں شرکاء کو مختلف موضوعات بشمول پیشہ ورانہ اخلاقیات، شہادت ریکارڈ کرنے میں پیچیدگیاں، آئینی اختیارِ سماعت، دیوانی اور فوجداری اپیلز اور نگرانی، سائبر کرائمز لاز، مرڈر ریفرنس، میڈیکل جیورسپروڈنس اور فرینزک، بار اور بینچ کے درمیان تعلقات اور قانونی طباعت جیسے موضوعات پر خطاب کیا گیا کا مطالعہ کر چکا ہوں۔

مجھے خوشی ہے کہ 6یوم کی قلیل مدت میں اچھی وکالت سے متعلقہ مختلف موضوعات پڑھائے گئے۔ اِس بات میں کوئی دو رائے نہیں کہ حصولِ تعلیم کا عمل بالخصوص وکلاء برادی کیلئے رسمی سکول کے اختتام پر انجام کو نہیں پہنچتی۔ چیف جسٹس نے کہاکہ بڑھتی ہوئی دنیا کے ساتھ چلنے کیلئے آدمی کو معاشرے کے نئے قوانین اور بدلتے رجحانات سے متعلق معلومات حاصل کرنی پڑیں گی۔

کئی دائرہ اختیارات میں وکلاء کو قانونی تعلیم کے حصول ریاست کے بار ایسوسی ایشن منظم کرتی ہی۔ کچھ دائرہ اختیارات میں قانونی تعلیم کے اجراء کا عمل جس کو پروگرام پیشہ ورانہ ترقی کا اجراء بھی کہتے ہیں، لازمی ہے۔ معیاری قانونی تعلیم کا معاملہ عدالتِ عالیہ میں بھی جانچ کیلئے آیا اور بہت سنجیدگی سے غور خوض کے بعد ”پاکستان بار کونسل بنام وفاقی حکومت وغیرہ “ (PLD 2007 SC 394) میں یہ مشاہدہ کیا گیا کہ پوری دنیا میں قانونی تعلیم سے متعلقہ لوگوں کا اِس بات پر مکمل اتفاقِ رائے ہے کہ معاملے کو نہ صرف تعلیمی اور پیشہ ورانہ سطح جس میں ادارتی اور عملی تربیت دونوں شامل ہیں بلکہ قانونی تعلیم کو جاری رکھتے ہوئے نمٹایا جائے۔

چیف جسٹس نے کہاکہ فیڈرل جوڈیشل اکیڈمی نے لاء اینڈ جسٹس کمیشن کی شراکت سے قانونی تعلیم کے تسلسل کیلئے چند کورسز کا اہتمام کیا ہے لیکن بار کو بحیثیت ایک بڑی جماعت بھی اِدارون کی تشکیل کے ذریعے ایسی تربیت کے انعقاد کے بارے میں سنجیدگی سے غور کرنا چاہئے۔ اِس طرح کے تربیتی پروگراموں میں عدلیہ کے تعاون اور مشاورت کو یقینی بنایا جائے گا۔

اِس بات میں کوئی دو رائے نہیں ہیں کہ بار اور بینچ ایک دوسرے کے لئے لازم و ملزوم ہیں۔ انہوں نے کہاکہ ایک مضبوط بار کا مطلب ایک مضبوط عدلیہ ہے۔ عالمی سطح پر مختلف پیشہ ورانہ تعلیم کے باہمی امتزاج کا تصور تیزی سے پھیل رہا ہے جس کے پیچھے اصل مقصد مختلف پیشوں اور بنیادی مہارت رکھنے والے اساتذہ اور طالبعلموں کے اشتراک سے ایک نیا علمی ماحول پیدا کرنا اور فروغ دینا ہے۔

اکیڈمی میں ہم نے اِس تصور کو وکلاء کے اِن تربیتی پروگراموں میں اپنایا ہے۔ ِاِن مقاصد کو مدِنظر رکھتے ہوئے، فیڈرل یونیورسٹی آف لاء و جوڈیشل ایڈمنسٹریشن کا قیام زیرِ غور ہے۔ پاکستان میں علاقائی اور بین الاقوامی سطح پر قانون کی حکمرانی اور انصاف کی ترویج کیلئے سازگار ماحول پیدا کرنے کی ضرورت کو محسوس کیا گیا ہے، اور اِسی طرح قانونی پیشے کے معیار، بار اور بینچ کو مضبوط کرنے کی ضرورت کو بھی محسوس کیا گیا ہے۔

آئینی علم اور روایات کی ترویج، ہم عصر معاملات کے حل کی مہارت دینے اور قانونی تعلیم اور انصاف کی فراہمی کی ضرورت کو بھی محسوس کیا گیا ہے۔ جب ہم برصغیر میں جدید قانونی پیشہ کے ارتقائی دور کو دیکھتے ہیں، تو یہ 1672ء کو ممبئی میں بننے والی سب سے پہلی برٹش کورٹ سے جا ملتا ہے۔ کچھ عرصے تک وکالت میں صنفی امتیاز رائج رہا اور خواتین کو وکالت کرنے کی اجازت نہ تھی۔

خواتین کی وکیل بننے کی اہلیت اور وکالت کا پیشہ اختیار کرنے کے متعلق شکوک و شبہات کو دور کرنے کیلئے ایک قانون بنانے کی ضرورت تھی۔ چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری نے کہاکہ آج اِس مجلس میں، میں خواتین وکلاء کی ایک بڑی تعداد کو باقاعدہ لباس میں دیکھ سکتا ہوں جو اِس بات کا مظہرہے کہ معاشرے کے اِس طبقے نے وقت کے تقاضوں کو قبول کرتے ہوئے، آئینی حقوق سے پورا فائدہ اُٹھایا ہے۔

معاشرہ اور فراہمی انصاف کیلئے وکلاء کا متحرک کردار بہت اہم اور قابل ستائش ہے ۔ معاشرہ میں تبدیلی کیلئے وہ طاقتور محرک کی حیثیت رکھتے ہیں۔ یہ طبقہ قانون کی حکمرانی کا علمبردار ہے ۔ عام طور پر وکلاء رائج الوقت قوانین کی تشریح اور ساتھ ہی ساتھ ان میں تبدیلیوں کی تجویز/رائے کے ذریعے اپنے سائلان/موکلان کی کامیابی کیلئے سخت محنت کرتے ہیں۔

لہٰذا مفاد عامہ سے قطع نظر وہ اپنے سائل کے ذاتی مفاد کا دفاع کرتے ہیں۔ تاہم تاریخ گواہ ہے کہ نامور وکلاء نے مفاد عامہ کیلئے کوشش کی۔ حتیٰ کہ برصغیر میں پاکستان کے معرض وجود میں آنے سے قبل اسی طبقہ کے اراکین نے نظریہ آزادی اور ایک الگ سر زمین کی تشکیل کو محسوس کیا اور اسکو عملی جامہ پہنایا۔ اس طرح انہوں نے بہت بڑی اجتماعی سماجی تبدیلی لے آئے جس کے نتیجے میں اب ہم ایک آزاد مملکت اور قوم کے طور پر پہنچانے جاتے ہیں ۔

وکلاء کا عام کردار یہ ہے کہ وہ اپنے موکل کی قانونی دلچسپیوں کو اجاگر کرے۔ اس طریقے سے انکی تعلیمی قابلیت کا محور اپنا موکل ہوتا ہے۔ یہ اس وقت تک نہیں ہو سکتا تھاجب تک وکلاء سماجی تبدیلی کے دشوار راستے سے متاثر نہ ہوئے ہو ۔ اب وہ عوامی کردار ادا کرتے ہیں ۔ انہوں نے دوسروں کو سماجی تحریک میں شامل ہونے کیلئے منظم کیا۔ اس طرح کی تحریکیں ایک اعلیٰ تعلیم یافتہ لوگوں سے متوقع ہے۔

سماجی تبدیلی کیلئے وکالت کا نقطہ ارتکاز جمود کے خلاف لڑنا اور بے زبان لوگوں کی نمائندگی کرتے ہوئے اس کی تلافی کرنا ہے لوئس ڈی برانڈیز نے ان کو پیپلز لائر ز کے نام سے موسوم کیا ہے۔ انہوں نے کہاکہ وہ اخلاقی اقدار کے متحرکین ہیں ، جنہوں نے سماجی تبدیلی کیلئے ایک تہذیبی شفٹ بنائی۔ ماہرین کا نقطہ نظریہ ہے کہ سماجی تبدیلی کی حد تک قانون کا استعمال وکلاء کے اپنے اختیار میں ہے کیونکہ قانون معاشرہ کی اقدار اور معیار کو ظاہر کرتا ہے ۔

مثال کے طور پر ہمیں ماضی میں زیادہ پیچھے جانے کی ضرورت نہیں ہمارے ملک میں ایک فرد نے من مانی کرتے ہوئے اور غیر آئینی طریقے سے عدالتی نظام کو سبوتاژ کیا۔ یہ تمام اخلاقی اقدار کی واضح اور کھلم کھلا مخالفت تھی۔ یہ پاکستان کی عدالتی اور قانونی تاریخ میں پہلی دفعہ ایسا ہوا کہ وکلاء نے شدید رد عمل کا اظہار کیاا ور وہ سڑکوں پر نکل آئے۔

یہ ہر کوئی جانتا ہے کہ یہ تحریک موکلین کا مرکز نہیں تھی۔ مقصد صرف عدلیہ کی آزادی کو بحال کرنا تھا۔ اس تحریک کی انوکھی بات یہ تھی کہ یہ کسی بھی سیاسی قیادت کے بغیر تھی، بلکہ سیاستدانوں نے اس تحریک کی پیروی کی اور اس میں شامل ہو گئے۔ میڈیا نے بھی اپنی طرف سے اس تحریک کی مکمل طور پر حمایت کی۔ یہاں میں ان ممتاز شخصیات کا نام لیے بغیر ریکارڈ پر موجود تبصرے کو فروغ دینا چاہوں گا کہ:\" تحریک نے ساری پاکستانی نسل کو جگا دیا ہے جو کہ سوئی ہوئی تھی\"\" تحریک کا وسیع تر پہلو وہ خواب ہے جو لوگوں کی آنکھوں میں حیثیت کی تبدیلی کی صورت میں سجا دیا گیا ہے\" \" تحریک کوجانچا جا سکتا ہے پاکستانیوں کی ذہنی تبدیلی کو دیکھتے ہوئے جو کہ ہم نے پیدا کی ہیں۔

میں یہ سوچنے کی جسارت کرتا ہوں کہ آئندہ کے لئے پی سی او کوئی بھی نہیں لائے گا عام آدمی اب یہ سمجھ گیا ہے کہ قانون کی حکمرانی کا مطلب کیا ہے۔ یہ تبصرے آپ یعنی ارکان قانونی پیشہ ور کیلئے ایک اعزاز ہیں یہ آگاہی صرف پاکستانی قانونی ماہرین کی وکالت ہے جس کی وجہ سے معاشرے میں قانون کی حکمرانی برقرار رکھنے کیلئے ایک بے مثال معاشرتی تبدیلی آئی ہے ۔

وکیل کی عزت ایک پیشہ ور اور مشیر یا معاشرتی تبدیلی کا ذریعہ ہونے کی وجہ سے کی جاتی ہے۔ اسے اپنے پیشے میں مہارت کی وجہ سے پہچانا جاتا ہے۔ اس کے طرزِ عمل کانہ صرف عدالت یا اس کے دفتر میں مشاہدہ کیا جاتا ہے بلکہ معاشرے میں ایک قانونی اطاعت کرنے والا شہری بھی دیکھا جاتا ہے جو اپنے پیچھے گہرے اثرات چھوڑتا ہے۔جب کبھی اعلیٰ عدالتیں کوئی ایک قانونی اصول وضع کرتی ہیں تو ہر کوئی یہ جاننے کی دلچسپی لیتا ہے کہ کس نے عدالتی معاونت کی ہے۔

اب، چند الفاظ نوجوانووکلاء کے صلاح و مشورہ کے لیے ۔ آپ پیشہ ورانہ معیار علم الاخلاقیات کے اصولوں اور آداب ِمعاشرت کو حاصل کریں اور ان پر عمل کریں ۔ مناسب لباس اور وقت کی پا بندی اور کورٹ کے ضابطہء اخلاق آپ کی شخصی خوبصورتی میں اضافہ کرے گا۔ انہوں نے کہاکہ آپ کو عذر ،کیس پیشں کرنے ، تیار کرنے، مخالفانہ سوالات اور عذر،کیس پر بحث کرنے کہ ہنر میں ماہر ہوناچاہیے۔

وکالت ایک ہنر ہے اور دوسرے ہنر کی طرح کچھ کو قدرتی طور پر صلاحیت ہوتی ہے جبکہ دوسروں کو اس ہنر پر غالب ہونے میں بڑی مشکلات سے گزرنا پڑتا ہے۔اپنے علم سے لفظ ناممکن کو نکال دیں۔ آپ کو دوبدو گفتگو کرنا اور صلاح مشورہ دینہ کہ ہنرمندی اور طریقہ کار سیکھنا چاہیے۔ چیف جسٹس نے کہاکہ وکلاء کی مؤکلین، کورٹس کے ساتھی وکلاء اور خود ان کی ذات کی طرف کچھ ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں۔

وہ شخص جس کو آج کل انفارمیشن ٹیکنالوجی کی سوجھ بوجھ نہیں ہے وہ ناخواندہ کہلایا جاتا ہے۔ آپ کو بغیر کوئی حقائق چھپاتے ہوئے جو ریکارڈ پر موجود ہوں، دلائل کے ذریعے جج کو قائل کرنا ہوتا ہے، اپنی وقعت جہاں تک ممکن ہو بنائے اور بڑھائیے۔ ایک وکیل محض اپنے موکل کا زبانی نمائندہ نہیں ہے۔ تاہم اس کو اپنی بہترین کارکردگی سے اپنے موکل کے حق میں پوائنٹ جیتنے ہوتے ہیں۔

جج ایبٹ پیری نے اپنی مشہور کتاب دی سیون لیمپس آف ایڈووکیسی میں ان خصوصیات کا حوالہ دیا ہے جو بار میں کامیابی کیلئے چاہیے وہ سچائی، جرات، محنت ،برجستگی، معاملہ فہمی، جو ش بیانی اور مفاہمت ہے ، ادارات نے آٹھواں چراغ کا اضافہ کیا ہے جو موقع شناسی ہے ۔ آسان الفاظ میں یوں کہا جائے کہ محنت کامیابی کی کنجی ہے۔جیسا کہ لارڈ ایلڈن نے کہا کہ” ایک عظیم وکیل بننے کے لئے تنہائی اختیار کرنا پڑتی ہے اور گھوڑے کی طرح کرنا پڑتا ہے“۔

پیشہ وارانہ اصولوں پر کاربند رہتے ہوئے آپ معاشرے میں پیشے کی عزت بڑھا سکتے ہیں اور انصاف کی فراہمی میں اپنی قیمتی خدمات سر انجام دے سکتے ہیں۔ جس کے لئے قوم امیدیں رکھتی ہے۔ بار انصاف کی فراہمی میں اہم حصہ دار ہے اور بار معاشرے کے پسے ہوئے لوگوں کی تکالیف کم کرنے میں مدد کر سکتی ہے۔ اللہ تعالیٰ ، جن کا ایک نام ”وکیل“ بھی ہے آپ سے راضی ہو۔

اسلام آباد میں شائع ہونے والی مزید خبریں