سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے پاور کا اجلاس چیئرمین کمیٹی سینیٹر فدا محمد کی زیر صدارت منعقد ہوا

اجلاس میں مختلف امور بجلی کی موجودہ صورتحال پر بریفنگ کے علاوہ ڈسٹری بیوشن کمپنیز میں بیس ہزار ملازمین کو مستقل کرنے کے معاملات کا تفصیلی جائزہ

منگل 15 جنوری 2019 23:54

اسلام آباد ۔ (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 15 جنوری2019ء) سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے پاور کا اجلاس چیئرمین کمیٹی سینیٹر فدا محمد کی زیر صدارت پارلیمنٹ ہائوس میں منعقد ہوا۔ قائمہ کمیٹی کے اجلاس میں ریشما پاور جنریشن پرائیویٹ لمیٹڈ کی عرضداشت، نیپرا اور پاور ڈویژن کی طرف سے نشاط پاور لمیٹڈ جو اپنی سرمایہ کاری پر 32فیصد منافع کما رہی ہے جبکہ نیپرا نے صرف 17فیصد کی منظوری دی ہے، آئسکو کمپنی کو پی او ایف سنجوال سولرپاور پلانٹ کو اپنی سرپلس بجلی بذریعہ ویلنگ قانون کے پاکستان آرڈیننس فیکٹری واہ کو مہیا کرنے کی اجازت نہ دینے، کے۔

الیکٹرک کی طرف سے صارفین کو ٹائم آف یوز میٹرنگ، بلنگ کی عدم دستیابی، صارفین سے میٹر رینٹ کی وصولی اور سکیورٹی ڈیپازٹ پر شرح منافع کی ادائیگی کے معاملات، پبلک سیکٹر ترقیاتی منصوبہ کے تحت ضلع کوہاٹ میں خصوصی وفاقی ترقیاتی پروگرام انفراسٹرکچر برائے ترسیلی بجلی کی موجودہ صورتحال پر بریفنگ کے علاوہ احمد علی نورانی کی پبلک پٹیشن برائے ڈسٹری بیوشن کمپنیز میں بیس ہزار ملازمین کو مستقل کرنے کے معاملات کا تفصیل سے جائزہ لیا گیا۔

(جاری ہے)

قائمہ کمیٹی کو بتایا گیا کہ حکومت کی طرف سے ٹیرف کے حوالے سے مختلف پالیسیاں بنائی گئی تھیں نیپرا نے 2015 ء میں ٹیرف کا اعلان کیا تھا کچھ پلانٹ آر ایف او اور کچھ آئی ٹی پی کے تحت آئے تھے۔ ریشما اور گلف کمپنیوں کے علاوہ دیگر کمپنیوں کے 41پلانٹ ہیں قائمہ کمیٹی کو معاملے بارے تفصیلی آگاہ کیا گیا۔ سینیٹر نعمان وزیر خٹک نے کہا کہ پاور سیکٹر کا سب سے بڑا مسئلہ انرجی مارکیٹ کا نہ ہو نا ہے۔

اگر پاکستان کو ترقی یافتہ کرنا ہے تو انرجی مارکیٹ پیدا کرنا ہو گی۔ ویلنگ میکنیزم ڈویلپ کرنا ہو گا۔ سینیٹر دلاور خان نے کہا کہ ایک کمپنی اربوں روپے کی سرمایہ کاری کرتی ہے ان کے مسائل حل کرنے چاہئیں۔ 41پلانٹ کو کرایہ ملتا ہے ان دو کمپنیوں کو کیوں نہیں دیا جاتا جس پر سیکرٹری پاور نے کہا کہ یہ دو کمپنیاں رینٹل پاور پروجیکٹ کا حصہ تھیں۔

ان کے لئے 3سال کی پالیسی بنائی گئی تھی۔ ٹیک اینڈ پے کی پالیسی اختیار کی گئی۔ ریشما اور گلف کے فرنس آئل کے پلانٹ ہیں ریشما پاور حکام نے کہا کہ ہم نے ویلنگ کے لئے گزشتہ ایک سال سے درخواست دے رکھی ہے۔ نیپرا کے رولز 2016 میں بنے تھے مگر ان پر آج تک عملدرآمد نہیں کیا گیا۔جس پر سیکرٹری پاور نے کہا کہ ویلنگ کے حوالے سے سی پی پی اے کی اپنی رائے ہے اور جو قانون موجود ہے اس پر عمل ہونا چاہئے۔

پالیسی کا جائزہ لے کر کمیٹی کو رپورٹ فراہم کر دی جائے گی۔نئی پالیسی بھی بنائی جا رہی ہے جس سے معاملات میں بہتری آئے گی۔ نشاط پاور لمیٹڈ کمپنی کی طرف سے سرمایہ کاری پر 32فیصد منافعے کے معاملے کا تفصیل سے جائزہ لیا گیا۔ وزیر توانائی عمر ایوب نے قائمہ کمیٹی کو بتایا کہ نشاط سمیت دیگر نو کمپنیوں کے حوالے سے کیس عدالت میں ہے۔ فیصلہ آنے پر کمیٹی کو آگاہ کر دیا جائے گا۔

قائمہ کمیٹی نے تمام آئی پی پیز کے منافع کی تفصیلات طلب کر لیں۔ قائمہ کمیٹی کو بتایا گیا کہ سنجوال سولر پاور پلانٹ پانچ میگا واٹ کا منصوبہ ہے۔ 2017ء میں ویلنگ کے لئے درخواست آئی تھی ان کی طرف سے مکمل دستاویزات فراہم نہیں کی گئی تھیں پاور پرچیز کا معاہدہ ہو گا تو کنکشن کی اجازت دی جائے گی۔ سیکنڈ ٹیر بھی فراہم کریں گے جس پر قائمہ کمیٹی نے فیصلہ کیا کہ نیپرا اور کمپنی میٹنگ کر کے معاملات کو حل کریں۔

سینیٹر ولید اقبال نے کہا کہ تعجب کی بات ہے کہ ویلنگ کیلئے 2016ء سے رولز بنے ہیں جو صرف کتابی ثابت ہوئے ہیں عملدرآمد نہیں ہوا۔ سیکرٹری پاور نے کہا کہ بجلی کی پیداوار کافی ہے ٹرانسمشن میں کچھ مسائل ہیں مارکیٹ کو اوپن کرنا ہو گا اور ویلنگ کو قانون کے مطابق دیکھنا ہو گا۔ ڈائریکٹر کی-الیکٹرک نے قائمہ کمیٹی کو بتایا کہ صنعتی کنزیومر کے لئے ٹائم آف یوز کو ریگولر کر دیا ہے گھریلو صارفین کے لئے نیپرا کی طرف سے ٹیرف کا نوٹس ہونا ہے 2.2لاکھ میٹر لگ چکے ہیں نیپرا حکام نے کہا کہ کے۔

الیکٹرک نے حکم امتناعی حاصل کر رکھا ہے۔ کے۔الیکٹرک حکام نے کہا کہ نیپرا نے کراچی الیکٹرک لمیٹڈ کمپنی کو 2016ء میں ہدایت کی تھی کہ وہ اپنے تمام صارفین کو 5کلوواٹ اور زائد لوڈ کے مطابق ٹی او یو میٹر/ بلز فراہم کرنے کا اہتمام کرے تاہم کراچی الیکٹرک نے اپنی مالی مشکلات کی وجہ سے سہولت صرف صنعتی صارفین کو مہیا کی اور گھریلو صارفین کے 2.2لاکھ میٹر لگ چکے ہیں۔

سینیٹر نعمان وزیر خٹک نے کہا کہ بہتر یہی ہے کہ نیپرا اور کی-الیکٹرک عدالت سے باہر معاملے کو حل کریں۔ چیئرمین کمیٹی فدا محمد نے کہا کہ آئندہ اجلاس میں دونوں کو بلا کر معاملے کا تفصیل سے جائزہ لیا جائے گا۔ قائمہ کمیٹی کو بتایا گیا کہ پبلک سیکٹر ترقیاتی منصوبہ کے تحت ضلع کوہاٹ میں خصوصی وفاقی ترقیاتی پروگرام انفراسٹرکچر برائے ترسیل بجلی کے حوالے سے 297ملین روپے کی 122سکیمیں ہیں۔

ان تمام سکیموں کو مکمل ہونے میں پانچ ماہ لگیں گے جس پر چیئرمین کمیٹی نے سکیموں کو جلد سے جلد مکمل کرنے کی ہدایت کر دی۔ احمد نورانی کی عوامی عرضداشت کا بھی کمیٹی نے تفصیل سے جائزہ لیا۔ احمد نورانی نے قائمہ کمیٹی کو بتایا کہ ڈسٹری بیوشن کمپنیوں میں 2015-16میں ایک سالہ کنٹرکٹ پر 20ہزار لوگوں کو بھرتی کیا۔ تین سال مکمل ہونے کے بعد ہمیں ریگولر نہیں کیا گیا۔

جس پر ایڈیشنل سیکرٹری پاور نے کہا کہ جب ان کی بھرتی کی گئی تھی تو نجکاری کمیشن کی طرف سے تقرریوں پر پابندی عائد تھی ایک سال کے لئے بھرتی کئے گئے تھے۔ ان کا کیس بنا رہے ہیں۔ کارکردگی کا جائزہ لے کر ریگولر کر دیا جائے گا۔ سینیٹر فدا محمد نے کہا کہ پیسکو میں تقرریوں کے لئے ٹیسٹ کروانے کے جو ٹینڈر کئے گئے ہیں اس میں ایسی شرائط رکھی گئی ہیں جس میں صرف ایک کمپنی ہی کوالیفائی کر سکے۔

یہ چیزیں ملک و قوم کے مفاد کے منافی ہیں ایسا طریقہ اختیار کیا جائے جس میں تمام کمپنیوں کو یکساں مواقع مل سکیں جس پر قائمہ کمیٹی کو بتایا گیا کہ 16کمپنیوں نے حصہ لیا ہے۔ معاملات میں شفافیت یقینی بنائی جائے گی۔ قائمہ کمیٹی نے شرائط کو ختم کرنے اور ایسا طریقہ کار اختیار کرنے کی ہدایت کر دی جس میں سب کو یکساں مواقع مل سکیں۔ کمیٹی کے اجلاس میں سینیٹرز فدا محمد، ولید اقبال، نعمان وزیر خٹک، شمیم آفریدی، محمد علی خان سیف، مولا بخش چانڈیو، دلاور خان، سردار محمد شفیق ترین کے علاوہ وزیر توانائی عمر ایوب، سیکرٹری توانائی، ممبر نیپرا، ایڈیشنل سیکرٹری پاور، ڈائریکٹر کے الیکٹرک اور دیگر اعلیٰ حکام نے شرکت کی۔

میانوالی میں شائع ہونے والی مزید خبریں