سیاحت بارے آزادکشمیر میں بہت کام ہو رہا ہے ،نتائج جلد آنا شروع ہو جائیں گے،مشتاق احمد منہاس

وزیراعظم پاکستان نے سیاحت کے فروغ بارے میری کئی تجاویز سے اتفاق کر کے اسے اپنی حکمت عملی کا حصہ بنانے کی ہدایت کی ہے،پاکستان نے بھارت کو زبردست جواب دیکر بھارتی فوج پر اپنی دھاک بٹھا دی، وزیر اطلاعات آزاد کشمیر

جمعرات 18 اپریل 2019 23:41

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 18 اپریل2019ء) آزادجموں و کشمیر کے وزیر اطلاعات و سیاحت راجہ مشتاق احمد منہاس نے کہا ہے کہ سیاجت کے حوالے سے آزادکشمیر میں بہت کام ہو رہا ہے جس کے نتائج جلد آنا شروع ہو جائیں گے۔ وزیراعظم پاکستان نے سیاحت کے فروغ کے حوالے سے میری کئی تجاویز سے اتفاق کیا اور اسے اپنی حکمت عملی کا حصہ بنانے کی ہدایت کی۔

حکومت میں اختلاف رائے ہوتا رہتا ہے مگر اسے پارلیمانی کمیٹی کے اجلاسوں میں حل کر لیا جاتا ہے۔پاکستان نے بھارت کو زبردست جواب دیکر بھارتی فوج پر اپنی دھاک بٹھا دی۔سوشل میڈیا جسے ڈیجیٹل میڈیا بھی کہا جاتا ہے بہت طاقتور ہو چکا ہے اسے حکومت مزید سہولتیں دے گی۔وزیر اطلاعات نے ان خیالات کا اظہار ڈیجیٹل میڈیا سٹیٹ ویوز کے میزبان کاشف میر کے ساتھ ایک تفصیلی انٹرویو میں کیا۔

(جاری ہے)

راجہ مشتاق احمد منہاس نے کہا کہ حکومتی جماعت کے اندر اختلافات کی موجودگی کے سوال پر کہا ہے کہ سچائی یہ ہے کہ کیبنٹ میں بیٹھے ہمارے تین، چار دوستوں کو مجھ سمیت حکومتی بعض معاملات پر اختلافات رہتے ہیں، کچھ کو تو وے آف گورننس پر اختلافات ہیں اور جمہوری نظام میں ایسا ہوتا بھی ہے، لیکن سنٹرل کمانڈ کے بغیر جو نظام چلتا ہے وہ چوں چوں کا مربہ بن جاتا ہے، دوستوں کی اختلاف رائے پہلے بھی تھی اور اب بھی موجود ہے ، ہمارے سینئر پارلیمنٹرین چوہدری طارق فاروق منجھے ہوئے سیاستدان ہیں ان کو بعض معاملات میں اختلاف تھا اور اظہار کیلئے انہوں نے سوشل میڈیا ، پرنٹ میڈیا کو استعمال کیا، ہم کہتے ہیں اختلاف رائے برا نہیں اور طارق فاروق صاحب نے بھی کہا اختلاف رائے اپنی جگہ لیکن میں عدم اعتماد یا جماعت کی تقسیم کی بات نہیں کرسکتا ، نہ ہی ایسا سوچ سکتا ہوں۔

اب فریقین کے درمیان معاملات کافی حد تک سیٹل ہو چکے ہیں ، برف پگل رہی ہے، اختلاف رائے کا لیول اب کافی کم ہو چکا ہے،پارلیمانی پارٹی اور کیبنٹ کی اکثریت یہ سمجھتی ہے کہ وزیر اعظم راجہ فاروق حیدر خان اچھی حکومت چلانے کیلئے کوشاں ہیں ، اس جماعت کی تنظیم نو کیلئے باڈی بنی ہوئی ہے جس کے سربراہ سابق وزیر داخلہ پروفیسر احسن اقبال ہیں ، آزادکشمیر سے اس آرگنائزنگ کمیٹی کے ممبر سردار عبدالخالق وصی ممبر کشمیر کونسل ہیں ،ہماری طرف سے وہ نمائندگی کر رہے ہیں،جس طرح پاکستان کے دیگر صوبوں میں پارٹی کی تنظیم سازی ہو گی اسی طرح یہاں بھی تنظیم سازی ہو گی ، یہ آزادکشمیر کی موروثی سیاسی جماعت تو ہے نہیں، اس پر کسی خاندان کی اجارہ داری نہیں ہے ، ہر شخص جو یہ سمجھتا ہے کہ وہ پارٹی کیلئے بہتر کام کر سکتا ہے وہ اپنے آپ کو صدارت کیلئے پیش کر سکتا ہے۔

وزیر حکومت راجہ مشتاق احمدمنہاس نے بطور وزیر اطلاعات اپنی کارکردگی بتانے کے سوال پر کہا کہ جب ہم نے حکومت سنبھالی تو میں روائیتی وزیر اطلاعات نہیں بننا چاہتا تھا، مجھے اپنی پبلسٹی کا شوق بلکل نہیں ہے کیونکہ الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا میں کام کی وجہ سے لوگ مجھے پہلے سے جانتے ہیں۔ جب وزیر بنا تو محکمہ کی طرف سے مجھے دو روز تک اخبارات کی کٹنگز بھیجی جاتی رہیں، میں نے سربراہ محکمہ کو بلایا اور کہا کہ مجھے یہ کٹنگز مت بھیجا کریں کیونکہ میں نے اپنی خبریں یا بیانات چھپوانے ہی بہت کم ہوتے ہیں، ہاں جب کسی اہم ایشو پر ہمیں اخبارات میں خبریں یا بیان شائع کرانے ہوں تو اس کیلئے انتظامات کے لیے میں میڈیا کے اپنے دوستوں اور آپکا تعاون بھی حاصل کر لوں گا لیکن روایتی اخباری بیان بازی کی مجھے ضرورت نہیں۔

اس پر سربراہ محکمہ نے مجھے بتایا کہ محکمہ اطلاعات کی ٹیم ہر روز صدر ریاست، وزیر اعظم اور وزیر اطلاعات کی اخباری کٹنگز بناتی ہے اور صبح سویرے ان افراد کو پہنچائی جاتی ہیں تاکہ وہ ملاحظہ کر سکیں کہ اخبارات میں حکومت اور ان شخصیات کے بارے میں کیا شائع ہوا ہے۔ راجہ مشتاق منہاس نے کہا کہ میں چونکہ تمام اخبارات خود پڑھتا ہوں اس لیے مجھے کٹنگز کی ضرورت نہیں رہتی لہذا باقی حکومتی افراد کو کٹنگ بھیجی جائیں۔

راجہ مشتاق احمدمنہاس نے کہا کہ گزشتہ ڈھائی سال میں آزادکشمیر میں سنگین نوعیت کے ایشوز سامنے نہیں آئے کہ وزیر اطلاعات کو میڈیا کے سامنے بار بار آنے کی ضرورت ہوتی، اس کے باوجود جہاں بھی ضرورت محسوس ہوئی ہم نے میڈیا کو آگاہ کیے رکھا جبکہ حکومتی تقریبات اور ترجیحات کی خبریں اور بیانات تو ویسے بھی معمول کے مطابق شائع ہو جاتے ہیں اس لیے میڈیا کے دوستوں کو مزید کہنے کی کبھی ضرورت محسوس نہیں ہوئی۔

وزیر اطلاعات مشتاق منہاس سے جب پوچھا گیا کہ گزشتہ ڈھائی سال میں لائن آف کنٹرول پر بھارت کی طرف سے مسلسل گولہ باری کی جاتی رہی جس سے سویلین کا جانی و مالی نقصان ہوتا رہا لیکن بطور وزیر اطلاعات آپ نے قومی میڈیا کو خصوصی پروگرامات کیلئے آزادکشمیر کیوں نہیں لایا۔راجہ مشتاق احمدمنہاس کا کہنا تھا کہ ایل او سی کا ایشو بہت پیچیدہ ہے ، اس میں سٹیک ہولڈر بہت زیادہ ہیں ، ایل او سی کے ایشوز پر ہمارے لوگ متاثر ہوں یا نہ ہوں ، جہاں کیمرہ چلا جائے، انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا میسر ہو تو پھر معلومات روکی نہیں جا سکتیں۔

ایل او سی کے یہ معاملات قومی سلامتی سے جڑے ہوئے ہیں۔ جب میڈیا کے لوگ متاثرین کے سامنے کیمرہ اور مائیک رکھتے ہیں تو لوگ گولہ باری کے مناظر کی منظر کشی کرنا شروع کر دیتے ہیں اور اپنی لوکیشن بھی بتاتے ہیں، فورسز کے کیمپ اور پوسٹوں کا ذکر بھی کر دیتے ہیں اور نقصانات بھی بتاتے ہیں جس سے دشمن کو ایسے حساس مقامات کو نشانہ بنانے میں مدد مل سکتی ہے۔

ہم آزادکشمیر والے وار زون میں بیٹھے ہیں اور میڈیا کو وہاں لیجانا مناسب نہیں ہوتا۔ راجہ مشتاق احمد منہاس نے کہا کہ ایل او سی پر جو بھی نقصانات ہوتے ہیں وہ قومی میڈیا دکھاتا ہے اور لوگوں کے بھی علم ہوتا ہے، ایل او سی پر جب بھی کوئی بھی غیر معمولی سرگرمی ہوتی ہے تو وہ ٹی وی چینلز کی ٹاپ فائیو نیوز میں ہوتی ہے اس لیے ہم نہیں سمجھتے کہ قومی میڈیا نے لائن آف کنٹرول کے ایشوز کو نظر انداز کر رکھا ہے۔

راجہ مشتاق منہاس نے کہا کہ ایل او سی پر فوج تعینات ہے اور وہاں کے نقصانات اور دیگر معلومات بھی فوجی خبر رساں ادارہ آئی ایس پی آر ہی جاری کرتا ہے، ہم سمجھتے ہیں کہ ہماری فوج میدان جنگ میں ہے اور جنگی حالات میں وہ جو خبر جاری کریں وہی با اعتماد ذریعہ بھی ہے اور ان کی فراہم کردہ معلومات ہی آگے پہنچانا بہتر ہوتا ہے۔ راجہ مشتاق منہاس نے کہا کہ آزادکشمیرحکومت کے میڈیا منیجر کے طور پر میں بتا رہا ہوں کہ لائن آف کنٹرول کی صورتحال پر قومی سلامتی کے ادارے یا آئی ایس پی آر جو معلومات عوام کے سامنے لانا چاہیں وہی ملک و قوم کیلئے بہتر ہوتی ہیں۔

وزیر حکومت نے کہا کہ 27 فروری کے بعد پاکستان اور بھارت کے درمیان تعلقات زیادہ کشیدہ ہوئے ، بھارتی جنگی طیاروں نے در اندازی کی کوشش کی جس کا ہماری فوج نے بہادری سے منہ توڑ جواب دیا، اس کے بعد سے اب تک لائن آف کنٹرول پر حالات کشیدہ رہے ہیں، لائن آف کنٹرول کے علاقوں میں قومی سلامتی کے اداروں نے حکومت آزادکشمیر سے مشاورت کے بعد انٹرنیٹ سروس معطل کر رکھی ہے۔

ایل او سی کی اس دو سو کلومیٹر طویل پٹی کے لوگوں کو انٹرنیٹ کی معطلی کی وجہ سے مشکلات کا سامنا ہے ، لوگوں نے ای میل کرنی ہوتی ہیں ، آن لائن درخواستیں جمع کرانا ہوتی ہیں ،داخلہ لینا ہوتا ہے، بیرون ممالک میں موجود اپنوں سے رابطہ کرنا ہوتا ہے، لوگ مختلف علاقوں میں انٹرنیٹ کی فراہمی کیلئے احتجاج بھی کر رہے ہیں، سوشل میڈیا پر بھی احتجاج کیا جا رہا ہے ہمیں اس پوری صورتحال کا ادراک اور لوگوں کی مشکلات کا احساس ہے اور ہم پر امید ہیں کہ جلد ہی لوگوں کو انٹرنیٹ کی سہولت دے دی جائے گی لیکن ہمیں یہ بھی دیکھنا ہو گا کہ ایل او سی کے ان علاقوں میں گولہ باری کے دوران ہمارے بعض لوگ جس طرح سوشل میڈیا پر لائیو ویڈیو دکھاتے ہیں اور ساتھ کمنٹری کرتے ہوئے علاقے کی شناخت، نقصانات وغیرہ بتاتے ہیں تو اس سے ہماری فوجی تنصیبات، توپ خانوں سمیت اہم عمارتوں کو نقصان پہنچنے کا خدشہ رہتا ہے، اس لیے جانے انجانے میں ویڈیو اپ لوڈ کر کے ہم خود اپنے علاقے اور فورسز کیلئے نقصان دہ ثابت ہو سکتے ہیں اس لیے ان معاملات میں ذمہ داری کا مظاہرہ ضروری ہے۔

مشتاق منہاس نے کہا کہ اب ایل او سی پر گولہ باری کی کشیدہ صورتحال میں کافی بہتری آگئی ہے، وفاقی وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کی طرف سے 16 سے 20 اپریل تک بھارتی در اندازی کے خدشہ ظاہر کیا گیا تھا، یہ دن گزر جائیں تو ہم متعلقہ اداروں کے ساتھ بیٹھیں گے اور تازہ ترین صورتحال کا جائزہ لیں گے، ہمیں امید ہے کے ایل او سی سے منسلک علاقوں میں ایک مرتبہ پھر انٹرنیٹ سروسز فراہم کر دی جائیں گی۔

آزادکشمیر کے لوگوں سے کہتا ہوں کہ آپ وار زون میں رہ رہے ہیں ، اس لیے کوئی بھی ایسی ویڈیو اپ لوڈ نہ کیا کریں یا معلومات پوسٹ نہ کیا کریں جن کا تعلق قومی سلامتی سے ہو۔ وزیر حکومت مشتاق منہاس سے آزادکشمیر کی سیاحتی راہداری کی تفصیلات بتانے کا کہا گیا تو مشتاق منہاس نے کہا کہ سیاحتی راہداری میرا ایک خواب ہے۔آزادکشمیر میں سب سے زیادہ سیاح نیلم جاتے ہیں اور اس کی خوبصورتی دیکھنا پسند کرتے یں ، آزادکشمیر کے دیگر علاقے راولاکوٹ، باغ، منگلا جھیل ، بھمبر، سماہنی ، کوٹلی ، نکیال کے علاقے بھی خوبصورت ہیں اور سیاح وہاں بھی جا رہے ہیں۔

سال بھر میں نیلم میں 10 لاکھ سے زائد سیاح جا رہے تھے اور بھارت کی طرف سے نیلم پر صرف ایک گولہ مارا گیا تو وہاں سیاح پھنس گئے، ان کو ہم نے مشکل سے نکالا جبکہ نیلم کی سیاحت بری متاثر ہو گئی، اس سال بھی نیلم ویلی میں سیاحوں کیلئے بنائی گئی رہائش گاہوں کو سیاحوں کیلئے مفت آنے کی آفر بھی دی کیونکہ سیاح اس طرف نہیں جا رہے تھے اور لوگوں نے وہاں اچھی خاصی انوسٹمینٹ کر رکھی ہے۔

نیلم کے متبادل کے طور پر سیاحوں کو جگہیں فراہم کرنے کیلئے ہم نے منصوبے پر کام شروع کیا، ہٹیاں بالا، باغ، راولاکوٹ، سدھنوتی ودیگر مقامات پر سیاحتی راہداری بنانے پر غور کرنا شروع کیا تو وزیر اعظم آزادکشمیر راجہ فاروق حیدر خان صاحب سے میں نے اس تجویز کا اظہار کیا تو انہوں نے کہا کہ میں بھی ایسا ہی سوچ رہا تھا کہ نیلم اگر خدانخواستہ متاثر ہی رہتا ہے تو اس کا متبادل ہمارے پاس ہونا چاہیے۔

اس وقت پاکستان میں سی پیک کے اوپر بات چیت زوروں پر تھی تو ادھر ہم نے سیاحتی راہداری کا منصوبہ تیار کرنا شروع کر دیا۔ اس منصوبے کی فزیبلٹی بنا کر ہم نے وزیر اعظم پاکستان میاں نواز شریف صاحب کے سامنے پیش کی تو ان کو یہ آئیڈیا بہت پسند آیا تو انہوں نے ہدایت کی کہ اس منصوبے کو ہم بنائیں گے آپ اس پر مزید باریکی سے تیاری کر لیں، میاں نواز شریف کی وزارت عظمیٰ جانے کے بعد یہ منصوبہ ہم نے وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی سے ڈسکس کیا تو انہوں نے رضامندی ظاہر کرتے ہوئے ساتھ یہ تجویز بھی دی کہ آپ اس منصوبے کو ناران کاغان کے ساتھ جوڑ دیں کیونکہ ناران کاغان اور بابوسر ٹاپ، سری پائے کا علاقہ مظفرآباد کے حلقہ کوٹلہ کے ساتھ لگتا ہے اور چند کلو میٹر کا راستہ بنا کر دونوں علاقوں کو جوڑا جا سکتا ہے، تاکہ لاکھوں سیاح جو ان علاقوں میں جاتے ہیں وہ ایک گھنٹے میں مظفرآباد آسکیں ، نیلم جا سکیں اور سیاحتی راہداری بننے کے بعد باغ، راولاکوٹ تک جا سکیں، شاہد خاقان عباسی صاحب نے اس منصوبے کو فیڈرل گورنمنٹ کی اے ڈی پی میں شامل کرتے ہوئے یہ یقین دہانی کرائی کہ حکومت پاکستان اس منصوبے کو آن کرنے کیلئے تیار ہے۔

پاکستان میں تحریک انصاف کی نئی حکومت آئی تو اس حکومت نے آزادکشمیر کے کچھ منصوبے ختم کر دیئے جن میں سیاحتی راہداری سمیت مانسہرہ ، مظفرآباد، میرپور منگلا ایکسپریس وے کا منصوبہ بھی شامل تھا اس کو بھی ڈراپ کر دیا۔ مانسہرہ ، مظفرآباد اور منگلا سڑک کے منصوبے پر 2011 میں جب میں خود جرنلسٹ تھا تب میاں نواز شریف سے ڈسکس کیا تھا اور جب ان کی حکومت آئی تو انہوں نے اس منصوبے کو فیڈرل پی ایس ڈی پی میں شامل بھی کیا۔

مشتاق منہاس نے کہا کہ وزیر اعظم عمران خان کے ساتھ وزیر سیاحت آزادحکومت کی حیثیت سے چھ، سات ملاقاتیں ہوچکی ہیں، جس میں آزادکشمیر میں سیاحتی منصوبوں کا مقدمہ بھرپور انداز میں پیش کیا، آزادکشمیر میں سیاحت کے فروغ کیلئے ہمارے موقف کی بھرپور حمایت وزیر امور کشمیر علی امین گنڈا پور نے بھی کی ہے۔ گزشتہ چھ ، سات ماہ سے جاری ان میٹنگز کا فائدہ یہ ہوا ہے کہ حکومت پاکستان نے 205 کلومیٹر طویل سیاحتی راہداری کے منصوبے کو فیڈرل پی ایس ڈی پی میں شامل کرنے پر رضا مندی دے دی ہے لیکن اس منصوبے پر مرحلہ وار کام کیا جائے گا ، ابتدائی طور پر تقریبا 2 ارب روپے فیز ون کیلئے رکھے جا رہے ہیں۔

یہ راہداری چکار ہٹیاں سے ہوتے ہوئے سدھن گلی، نانگا پیر کی طرف بھی جائے گی، پھرباغ ، شیرو ڈھارہ، لسڈنہ ، تولی پیر سے ہوتے ہوئے بنجوسہ ، جنڈالی اور دیوی گلی تک جائے گا۔ ان علاقوں کے علاوہ بھی ہم میرپور میں منگلا جھیل پر مزید کام کر رہے ہیں، ٹورزم ایکٹ ہم نے اسمبلی میں پیش کر دیا ہے، ایکٹ کے بعد پاکستان کے سرمایہ دار آزادکشمیر کے تفریحی مقامات پر سرمایہ کاری کر سکیں گے، حکومت سرمایہ کاروں اور کاروباری لوگوں کو معاونت اور سہولت دے گی،اب حکومت خود عمارتیں نہیں بنائے گی۔

آزادکشمیر حکومت اس وقت سوشل سیکٹرصحت، تعلیم وغیرہ پر 33 فیصد خرچ کر رہی ہے ہم اس کو مزید بڑھائیں گے۔ وزیر حکومت مشتاق منہاس نے غیر میلکی سیاحوں کی آزادکشمیر آمد پر مشکلات اور محکمے کی تیاریوں کے حوالے سے سوال کے جواب میں کہا کہ وزیر اعظم عمران خان کے ساتھ جب میری پہلی ملاقات ہوئی تو اس وقت میں نے انہیں کہا کہ سیاحت کی ترقی دماغ میں ہوتی ہے ، اس کیلئے گورنمنٹ لیول پر خود سے زیادہ سرمایہ نہیں چاہیے ہوتا ، حکومت اس حوالے سے بہتر پالیسی بنائے تو تب ہی یہ شعبہ ترقی کر سکتا ہے۔

میں نے عمران خان کو کہا کہ پنجاب، سندھ ، بلوچستان مین خوبصورت اور تاریخی مقامات اپنی جگہ لیکن زیادہ تر غیر ملکی سیاح، گلگت بلتستان ، خیبر پختونخواہ ، آزادکشمیر اور فاٹاجانا چاہتے ہیں لیکن یہ علاقے تو سیاحوں کیلئے نو گو ایریاز بنے ہوئے ہیں، نیلم میں جو سیاح جاتے ہیں انہیں اکیس چیک پوسٹوں پر تلاشی دینی پڑتی ہے ، فیملیوں سے پولیس سوال و جواب کرتی ہے کہ یہ آپ کے ساتھ کون اور کیوں بیٹھا ہے، اس کے ساتھ آپ کا کیا تعلق ہے ، خواتین کے بارے میں سوال و جواب کیے جاتے ہیں تو اس تلاشی اور ذہنی تشدد سہنے کے بعد کوئی بھی دوبارہ ان علاقوں کی طرف جانا پسند نہیں کرتا ، بیشک علاقہ جتنا ہی خوبصورت کیوں نہ ہو، سیاح وہاں جاتا ہے جہاں اس کے ساتھ زیادہ چھیڑ چھار نہیں کی جاتی اور وہ اپنی مرضی سے وقت گزار لیں۔

جب کمرے میں رہائش پذیر فیملیز سے نکاح نامے تلاش کرنے شروع کیے جائیں گے اور چھاپے مارے جائیں ، یونیورسٹی کے بچے مشترکہ سیاحتی دورے پر جاتے ہیں تو ان سے غیر ضروری پوچھ کچھ کی جاتی رہے گی تو وہ تنگ ہو جائیں گے۔ ہمیں سیاحوں کیلئے محفوظ اور پرسکون ماحول مہیا کرنا ہو گا ، ایسا ماحول کے جو ہماری معاشرتی اقدار کو بھی پامال نہ کرے اور ان کو بھی حدود کے اندر رہتے ہوئے تفریح میسر ہو سکے، تبھی سیاحوں کی دلچسپی اور تعداد میں اضافہ ہوگا جس سے ریاست کو بھی فائدہ ہو سکے گا۔

لائن آف کنٹرول پر اہم جگہوں پر چیک پوسٹوں کا جواز تو بنتا ہے لیکن شہروں میں یہ مناسب نہیں ، آج گوگل میپ کے دور میں انسانی نقل و حمل باآسانی دیکھی جا سکتی ہے، ٹیکنالوجی کے اس دور میں غیر ضروری رکاوٹیں کھڑی نہیں کرنی چاہیں، ، راولاکوٹ، باغ ، میرپور، مظفرآباد ، کوٹلی جانے کیلئے جامعہ تلاشی جاری رکھی جاتی رہی ہے، وزیر اعظم عمران خان نے میری ان باتوں کی حمایت کی جبکہ دیگر صوبوں کے وزرائے سیاحت نے بھی بھی میرے موقف کی تائید کی اور یقین دہانی کرائی کہ ان مسائل وک حل کریں گے۔

گزشتہ ماہ وزیر اعظم عمران خان کے ساتھ ہمارا پھر اجلاس ہوا تو غیر ملکی سیاحوں کو آزادکشمیر تک رسائی دینے پر رضا مندی ظاہر ہوئی، قومی سلامتی کے اداروں کو بھی رسائی دینے میں کوئی مسلہ نہیں تھا، اس لیے حکومت پاکستان نے ان علاقوں میں سیاحوں کو بغیر این او سی جانے کی اجازت ایک نوٹی فکیشن جاری کرتے ہوئے دی، میں اب بھی سمجھتا ہوں کہ ایل او سی سے 5 کلومیٹر دور تک رسائی دینے کی بجائے یہ فاصلہ صرف دو کلومیٹر رکھا جانا چاہیے۔

حکومت پاکستان کا گلگت بلتستان اور آزادکشمیر میں سیاحوں کو بغیر این او سی جانے دینے کا فیصلہ انتہائی خوش آئیند ہے لیکن اب جب غیر ملکی سیاح آزادکشمیر جا رہے ہیں تو آزادکشمیر کے ناکے کے اوپر بیٹھا اہلکار اپنی ذہنیت کو تبدیل نہیں کر پا رہا تھا ، مظفرآباد جانے والے کچھ سیاحوں کو تین سے چار گھنٹے تک بٹھائے رکھا گیا، ہم تک اطلاع پہنچی تو ہم نے سیکیورٹی کی متعلقہ اتھارٹیز سے بات کی تب جا کر ان سیاحوں کو مظفرآباد اور پیرچناسی جانے دیا گیا، لوگوں نے ان کا والہانہ استقبال کیا، ان سیاحوں نے دورے کی جو ویڈیوز ریلیز کیں تو حکومت پاکستان اور آزادکشمیر اور عوام کی نیک نامی ہوئی، یہ نیک نامی کروڑوں روپے خرچ کر کے بھی نہیں ملتی، ہمارے علاقے سیاحوں کی دلچسپی کا محور ہیں . اب بھی دوستوں سے کہتا ہوں کہ کاغذ پر بنے ناکے تو ہم ختم کر رہے ہیں لیکن ذہنوں پر جو ناکے بیٹھے ہیں ان کو بھی ختم کرنے کی طرف پیش رفت کی جانی چاہیے، چترال شہر میں 1920 میں انگریز نے ایک ناکہ لگایا ، وہ آج تک موجود اور سنتری وہاں موجود ہے، جو ناکے لوگوں انسانی تحفظ کیلئے لگائے گئے ہیں ان کو تو باقی رہنا چاہیے لیکن جو ناکے انسانوں کو اذیت دینے کیلئے قائم ہیں ان کو اب ختم کردیا جانا چاہیے۔

. راجہ مشتاق منہاس نے کہا کہ اب تمام اتھارٹیز سے بات چیت ہو گئی ہے، اب کسی بھی غیر ملکی سیاح کو غیر ضروری تنگ نہیں کیا جائے گا، باغ اور راولاکوٹ میں بھی سیاح اب جا رہے ہیں، سیکرٹری سیاحت مدہت شہزاد کو ہدایت دی ہے کہ محکمہ پولیس کے ساتھ ملکر ٹورزم پروٹیکشن فورس بنائیں، جن کی وردی ڈراونی نہ ہو ، وہ فورس آزادکشمیر کے انٹری پوائینٹس پر سیاحوں کو خوشدلی سے ویلکم کہے، ان کو گائید کرے، ہم چاہتے ہیں کہ بنکاک کی طرز کی ٹورازم پروٹیکشن فورس جلد قائم کر لیں ، یہ فورس ٹورسٹ فرینڈلی ہو گی۔

میانوالی میں شائع ہونے والی مزید خبریں