جموں و کشمیر کے عوام مسئلہ کشمیر پر دو ٹوک موقف اختیار کرنے پر ترک صدر، حکومت اور عوام کو نہایت عزت و احترام کی نگاہ سے دیکھتے ہیں، سردار مسعود خان

بدھ 18 نومبر 2020 16:18

مظفر آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 18 نومبر2020ء) آزاد کشمیر کے صدر سردار مسعود خان نے کہا ہے کہ جموں و کشمیر کے عوام مسئلہ کشمیر پر دو ٹوک، واضح اور اصولی موقف اختیار کرنے پر  ترک صدر،ان کی حکومت اور عوام کو نہایت عزت و احترام کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ صدارتی سیکرٹریٹ کی جانب سے جاری بیان کے مطابق ترکی کے اے نیوز ٹیلی ویژن کو انٹرویو  میں صدر آزاد کشمیر نے کہا کہ جموں و کشمیر کے عوام ترکی کے صدر کی طرف سے مسئلہ کشمیر پر دو ٹوک، واضح اور اصولی موقف اختیار کرنے پر انہیں ترکی کی حکومت اور عوام کو نہایت عزت و احترام کی نگاہ سے دیکھتے ہیں اور وہ سمجھتے ہیں کہ وہ نہ صرف تنازعہ کشمیر بلکہ مسئلہ فلسطین، اسلامو فوبیا اور دیگر مسائل پر بھی ایک اصولی اور جرات مندانہ موقف رکھتے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ مسلم دنیا میں انہیں اسلامی احیا کی ایک علامت سمجھا جانے لگا ہے۔

(جاری ہے)

انہوں نے کہا کہ مسئلہ کشمیر ایک سیاسی مسئلہ ہے جس کو پر امن سیاسی و سفارتی ذرائع سے حل کیا جا سکتا ہے لیکن بد قسمتی سے بھارت اس تنازعہ کو فوجی طاقت سے حل کرنا چاہتا ہے۔ پاکستان کی طرف سے بھارت پر پاکستان کے اندر دہشت گردی کے واقعات میں ملوث ہونے کے ثبوت پیش کیے جانے کے حوالے سے پوچھے گئے ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے صدر سردار مسعود خان نے کہا کہ پاکستان کے خلاف دہشت گردی اور پاکستان کو عدم استحکام سے دوچار کرنا نریندر مودی کی قیادت میں قائم بھارت کی موجودہ حکومت کی ریاستی پالیسی ہے۔

نریندر مودی اور ان کی حکومت میں شامل ان کے دوست پاکستان کے خلاف دہشت گردی کی حمایت کھل کر کرتے ہیں پاکستان کے اندر بھارتی دہشت گردی کے ثبوت سامنے آنا ہمارے لیے کم ازکم کوئی حیرت کی بات نہیں کیونکہ اگر بھارت دہشت گردوں کو تربیت دیکر اور انہیں اسلحہ، گولہ باردو اور مالی وسائل دیکر پاکستان میں داخل کررہا ہے تو یہ سب کچھ ہندو توا نظریہ اور وزیراعظم مودی کی حکومت کی پالیسی کے عین مطابق ہے کیونکہ وہ پاکستان اور دیگر ہمسایہ ممالک کے خلاف دہشت گردی کو جائز سمجھتے ہیں۔

جب ان سے پوچھا گیا کہ اگر دہشت گردی بھارتی حکومت کی طے شدہ پالیسی کا حصہ ہے تو عالمی برادری اس پر کیوں خاموش ہے۔ صدر آزاد کشمیر نے کہا کہ بھارت اپنے جھوٹے بیانیہ کے ذریعے دنیا کو ہمیشہ یہ تاثر دیتا رہا ہے کہ وہ مقبوضہ جموں و کشمیر میں دہشت گردی کے خلاف لڑ رہا ہے۔ وہ مقبوضہ ریاست میں آزادی اور حق خود ارادیت کی جدوجہد کرنے والے حریت پسندوں کو دہشت گرد بنا کر پیش کرتا رہا ہے لیکن دلچسپ بات یہ ہے کہ خود بھارت کے حکام کہتے ہیں کہ مقبوضہ کشمیر میں چند درجن حریت پسندوں سے لڑنے کے لیے بھارت نے نو لاکھ مسلح فوجی تعینات کر رکھے ہیں۔

حقیقت یہ ہے کہ بھارت کی یہ فوج حریت پسندوں سے لڑنے کے لیے نہیں بلکہ مقبوضہ کشمیر کے عام شہریوں کو قتل کرنے اور انہیں مظالم کا نشانہ بنانے کے لیے لائی گئی ہے۔ بھارت کی نیت اور اقدامات سے عالمی برادری پوری طرح آگاہ ہے۔ مقبوضہ جموں و کشمیر میں بھارتی فوج کے مظالم اور پاکستان کے اندر بھارتی دہشت گردی سے واشنگٹن لندن، جنیوا اور برسلز بے خبر نہیں بلکہ انہیں اچھی طرح معلوم ہے۔

کہ مقبوضہ کشمیر اور پاکستان کے اندر بھارت دہشت گردی کر رہا ہے لیکن اس کے باوجود عالمی برادری کی طرف سے کوئی رد عمل نہیں آ رہا ہے۔ بھارتی دہشت گردی کے بارے خود امریکی حکام پوری طرح باخبر ہیں۔ انہوں نے کہا کہ بھارتی تربیت یافتہ دہشت گرد پاکستان کے اندر فوجی تنصیبات کے علاوہ ہوٹل، سکولز، اسٹاک ایکسچینج کونشانہ بنانے میں ملوث رہے ہیں اور اس مقصد کے لیے بھارت نے 87 ٹریننگ سنٹر قائم کر رکھے ہیں جن میں 66 کیمپ افغانستان میں ہیں جبکہ باقی 21 کیرالہ، کرناٹک، ڈیرہ دون، آسام اور بھارت کے دوسرے کئی علاقوں میں قائم ہیں۔

انہوں نے کہا بھارت کی اس کھلی دہشت گردی کے باوجود بین الاقوامی برادری کی خاموشی ایک وجہ بھارت کا نہایت چالاکی اور ہوشیاری سے پاکستان کے خلاف جھوٹا پروپیگنڈا اور دوسری وجہ یہ ہے کہ جو لوگ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں بیٹھے ہیں اور جن کے پاس ویٹو کا اختیار ہے ان میں چین کو چھوڑ کر سب بھارتی اقدامات پر جان بوجھ کر آنکھیں موند کر بیٹھے ہوئے ہیں اور وہ بھارت کے ساتھ اپنے اسٹریٹجیک اور معاشی مفادات کی وجہ سے اس کے انسانیت کے خلاف جرائم کو بے نقاب کرنے کے لیے آمادہ نہیں ہیں۔

اب پاکستان نے بھارت کے خلاف تمام ثبوت سلامتی کونسل کے صدر کو مہیا کر دیئے جس کی ایک نقل اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل کو بھی مہیا کی گئی ہےا ور توقع ہے کہ وہ ان ناقابل تردید ثبوتوں کو سلامتی کونسل کی انسداد دہشت گردی کمیٹی اور 1267 کمیٹی کو بھیج کر ان ثبوتوں کا جائزہ لیں گے۔ یہ محض الزامات نہیں بلکہ ٹھوس ثبوت ہیں اور ہمیں خدشہ ہے کہ اگر بھارت کو نہ روکا گیا تو آنے والے دنوں اور مہینوں میں پاکستان کے اندر دہشت گردی کے واقعات میں مزید کئی گنا اضافہ ہو جائے گا اور بھارت دہشت گردوں اور ان سات سو لوگوں کی فورس کو پاکستان میں داخل کرنے کی کوشش کر ے گا جو چین پاکستان اقتصادی راہداری کے منصوبے کو ناکام بنانے کے لیے بھارت نے تیار کر رکھی ہے۔

اب وقت آ گیا ہے کہ بھارت کو اس کے جرائم کی سزا کے لیے جوابدہ ٹھہرایا جائے۔ جب صدر سردار مسعود خان سے پوچھا گیا کہ اگر بھارت کے خلاف کوئی ٹھوس کارروائی نہ کی گئی تو اس کے خطے پر کیا اثرات مرتب ہوں گے تو انہوں نے کہا کہ بھارت کے مقبوضہ جموں و کشمیر میں مظالم اور گلگت بلتستان کے خلاف فوجی کارروائی کی دھمکیاں خطہ کو تباہ کن جنگ کے شعلوں میں دھکیل سکتی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ خطہ کشمیر پہلے ہی حالت جنگ میں ہے کیونکہ بھارت کی نولاکھ فوج کشمیریوں کو گزشتہ ایک سال سے محاصرے میں لے رکھا ہے۔ اگر یہ جنگ ہوئی تو اسکی قیمت خطہ کے لوگوں کے علاوہ بین الاقوامی برادری کو بھی ادا کرنی پڑے گی اس لیے وہ ہر صورت میں مداخلت کرے اور صورتحال کو مزید بگڑنے سے بچائے۔

مظفر آباد میں شائع ہونے والی مزید خبریں