صرف 3دن دھرنے میں150ارب نقصان کا نہیں،126دن دھرنے کے نقصانات کا بھی جواب دیں،مشاہدللہ خان

جو سیاسی جماعت ملک کی سالمیت کے خلاف کام کرے اس کی رجسٹریشن منسوخ کرنا آئینی تقاضا ہے،مصطفی نواز قرض وفاق لیتا ہے مگر صوبوں سے پوچھتاتک نہیں،میر کبیر شاہی ہمارا موجودہ نظام بھیک مانگ رہا ہے ،ْ آئندہ نسل بھی بھیک مانگتی ہوئی نظر آہی ہے،ستارہ ایاز این آئی سی ایل ،ای او بی آئی مقدمے میں شامل لوگوں نے بھی ملک لوٹا ہوگا، مصدق ملک احتساب اور کرپشن کا خاتمہ عوام کا نمبر ون مطالبہ ہے، پچھلے بارہ سالوں میں پورے ملک کو چور بنا دیاگیا،،ان کو پتہ ہی نہیں کہ اکنامیA" "سے شروع ہوتی ہے یا" "E ،حکومتی سینیٹرز اس وقت ملک میں جمہوریت کو توکوئی خطرہ نہیں مگر سارے ادارے خسارے میں ہیں، ملک کو جمہوریت کے نام پر لوٹا گیا،اس ملک کے ساتھ کھلواڑ ہوا، وفاقی وزیر پٹرولیم غلام سرور کا سینیٹ میں خطاب ء سینیٹر مشاہداللہ کی تقریر کے دوران اپوزیشن اور حکومتی ارکان کے درمیان تلخ جملوں کا تبادلہ ،ْچیئرمین سینیٹ نے ارکان کو غیر پارلیمانی الفاظ کے استعمال سے روکتے رہے

پیر 12 نومبر 2018 23:29

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 12 نومبر2018ء) مسلم لیگ (ن )کے رہنما سینیٹر مشاہداللہ خان نے کہاہے کہ حکومت صرف 3دن دھرنے میں50ارب نقصان کا نہیں بلکہ126دن کے دھرنے میںملکی معیشت کو کتنا نقصان ہوا یہ بھی بتائیں، پاکستان کے وزیراعظم چین جا کر کپڑے دھوئے،پھر کہا کہ کچھ قرضہ دو، وزیر اعظم نے ہر ہفتے پارلیمنٹ میں سوالوں کے جواب دینے کا اعلان کیا تھا ،ْاس کے بعد سے وزیراعظم ایک دفعہ بھی مڑ کر نہیں آئے ،ْوزیر اعظم ہائوس کو یونیورسٹی بنانے کا بھی اعلان کیا گیا تھا ،دنیا ان وعدوں کوضرور دیکھتی ہے،احتساب ضرور کریں مگر سلیکٹڈ احتساب نہیں،کل تک دھرنے والے ان کے دوست تھے آج دشمن ہیں، پی ٹی آئی والے یوٹر ن لینے میں ماہر ہیں،سارے جنونی حکومت میں ہیں، حکومت کا تعلق جنون سے نہیں عقل سے ہوتا ہیں،یہ کہاں پھنس گئے۔

(جاری ہے)

پیر کو سینیٹ میں اظہار خیال کرتے ہوئے سینیٹر مشاہداللہ خان نے کہا کہ موجودہ حکومت بھیک مانگنے سے پہلے اعلان کررہی ہے کہ سب اپنی اپنی بھیک تیار رکھیں،سعودی عرب نے ہر مشکل وقت میں پاکستان کا ساتھ دیا،ایک وہ وقت بھی تھا جب سعودیہ مانگنے سے پہلے قرض دیتا تھا،جب دینے والوں کو پتہ ہو کہ پیسہ میٹرو،موٹرویز،ہسپتالوں،بارہ ہزار بجلی کے منصوبوں پر لگے گا تو دینے ذرا سی ہچکاہٹ محسوس نہیں کرتے۔

مشاہد اللہ نے کہا کہ ُپر تشدد مظاہروںکی حق میں میں بات نہیں کر سکتا کیونکہ اس سے عوام کو تکلیف ہو رہی تھی،حکومت نے ان کے ساتھ معاہدہ کیا جنہوں نے وزیراعظم کو یہودی بچہ، گردن اڑانے کی باتیں کیں،آج اسرائیل سے تعلقات کی باتیں کی جارہی ہیں۔ انہوں نے الزام عائد کرتے ہوئے کہا کہ پتہ کرنے پرمعلوم ہوا کہ وزیر اطلاعات چور،ڈاکو،بھتہ خور نہیں ہیں مگر جتنے ڈاکو چور ہیں ان کے ماہانہ اجلاس ان کے گھر میں ہوتے ہیں۔

رہنما مسلم لیگ (ن )نے کہا کہ،وجیہہ الدین اور تسنیم نوارنی نے کہا کہ انٹراپارٹی میں دھاندلی ہوئی اور پیسہ چلایا گیا، ،حکومت میں موجود لوگوں اور وزیروں میں کتنوں کو پکڑا،پی ٹی وی پر وزیرعظم کی تقریر کے دوران’ بیگنگ‘لکھنا تاریخی غلطی نہیں ،ْتاریخی حقیقت معلوم ہوتی ہے۔پاکستان پیپلز پارٹی کے سینیٹر مصطفی نواز کھوکھر نے کہا کہ پہلی مرتبہ ایک رجسٹرڈ سیاسی کے سربراہان نے سپریم کورٹ کے ججزکے قتل کے فتوے دیئے اور افواج پاکستان کو بغاوت پر اکسایا،تاریخ میں اس سے پہلے کبھی ایسا نہیں ہوا،کیا ہم کھلے عام بغاوت کرنے والی پارٹی کوبرداشت کر سکتے ہیں ،ْآئین کے مطابق جو سیاسی جماعت ملک کی سالمیت کے خلاف کام کریگی اس کی رجسٹریشن منسوخ کی جائے گی،اگر آئین پر عمل درآمد نہیں کرواسکتی تو آئین سے اس شق کو نکال دیں، قوم کونئے پاکستان کا خواب دکھایا گیا لیکن حکومتی روش اس کے برعکس رہی،حکومت اپنے وعدوں کے برعکس آئی ایم ایف کے پاس چلی گئی۔

انہوںنے کہاکہ بیرونی دنیا سے قرض مانگے جارہے ہیں،غریبوں کو مہنگائی کے بوجھ تلے دبایا گیا،پچھلے چند ہفتوں میں ملک کے نظام کو مفلوج کیا گیا۔ انہوں نے کہا کہ سپریم کورٹ کے فیصلے پر علماء نے تقاریر کیں مگر فیصلے کو نہیں پڑھا،ہمارے معاشرے کی بنیاد ان اولیائے اسلام نے رکھی جن کی تعلیمات کی بنیاد عدم برداشت تھیں، آج یہ مولوی انہی کی تعلیمات پر انہی کو ہی غلط قرار دے رہے ہیں۔

انہوںنے کہاکہ وزیر داخلہ نے اس سارے واقعہ کا ذمہ دار اپوزیشن کو ٹھہرا کرملکی معاملات پر حکومتی اور اپوزیشن کے اتفاق رائے کو دھچکہ پہنچایا ،پاکستان کے اصل دشمن معاشرے میں بڑھتی ہوئی عدم برداشت ہے۔سینیٹر کبیر محمد شاہی نے کہا کہ وفاق قرض لیتا ہے مگر صوبوں سے پوچھتاتک نہیں،مشترکہ مفادات کونسل کے اجلاس میں صوبوں کو اعتماد میں لینا چاہئے تھا،قرض تو وفاقی حکومت لیتی ہے مگر اس کا خمیازہ صوبوں کو بھگتناپڑتے ہیں،وفاقی حکومت کو قرضوں کو خرچ کرنے کی ایریاز کو سامنے لانا ہو گا،ایف بی آر میں ریفارمز کی ضرورت ہے، اس کی چیئرمین شپ باری باری سارے صوبوں کو ملنی چاہیے۔

انہوںنے کہاکہ مہنگائی تاریخ میں اس سے زیادہ کبھی نہیں دیکھی، سیمنٹ،گیس،یوریا اور سریاسمیت تمام اشیاء کی قیمتوں میں 25 روپے تک اضافہ کیا گیا،پیٹرول اور گیس کی قیمتوں میں اضافے سے غریب طبقہ زیادہ متاثر ہو رہے ہیں،وزیر اعظم اپنی تقریروں کو ایک دفعہ خود بھی سنیں۔انہوںنے کہاکہ خارجہ پالیسی میں ہمسائیوں سے پرامن تعلقات کو ترجیح ہونی چاہیے ،ْ یمن کے حوالے سے سعودیہ اور ایران کے مابین ثالثی کا کردار ادا کرنا چاہیے،گوادر کی ترقی کے مخالف نہیں،وفاقی حکومت کی طرف سے گوادر میں سعودیہ کو آئل ریفائنری بنانے کی اجازت دینا 18ویں ترمیم کی خلاف ورزی ہے۔

انہوںنے کہاکہ بلوچستان کو میدان جنگ بنایا رہا ہے ۔عوامی نیشنل پارٹی کی پارلیمانی لیڈر سینیٹرستارہ ایاز نے کہا کہ دھر نا قائدین فوج میں بغاوت کی باتیں کررہے تھے مگر حکومت خاموش تماشائی بنی ہوئی تھی،ہمارا موجودہ نظام بھی بھیک مانگ رہا ہے اور آئندہ نسل بھی بھیک مانگتی ہوئی نظر آرہی ہے،اگر سب کو خلا میں بھیجیں گے تو حکومت کرنے والا کوئی نہیں ہو گا۔

انہوںنے کہاکہ موجودہ حکومت نے لوگوں کو خوابوں کی جنت کی سیر کرائی،صرف باتوں سے کام نہیں ہوگا، عملی اقدامات کرنے ہوں گے، وزیر اعظم چاہے سلیکٹڈ ہوں یا الیکٹڈ ،ْوہ ہمارے بھی وزیر اعظم ہیں،وہ اپنی عزت برقرار رکھیں،وزیر اعظم ایک طرف چین میں جاکر کرپشن کی باتیں کررہے تھے دوسری طرف ان کو پاکستان میں سرمایہ کا ری کی دعوت دیتے رہے۔ پاکستان مسلم لیگ (ن) کے سینیٹر مصدق ملک نے کہا کہ این آئی سی ایل اور ای او بی آئی کیس میں جن لوگوں کے خلاف مقدمات ہیں انہوں نے بھی ملک لوٹا ہوگا، ان کے خلاف کارروائی کیوں نہیں ہو رہی سینیٹر فیصل جاوید نے کہا کہ اے وطن! تجھے کس نے لوٹا ہے، اے وطن! تیرا پیسہ لوٹ کر کس نے باہر منتقل کیا۔

انہوںنے کہا کہ احتساب اور کرپشن کا خاتمہ عوام کا نمبر ون مطالبہ ہے۔ انہوںنے کہاکہ پانامہ آپ کی حکومت میں آیا آپ نے کارروائی کیوں نہیں کی،پانامہ کے بعد اقامہ کا ڈرامہ سامنے آیا،وزیر اعظم،وزیر دفاع اور وزیر داخلہ کا کوئی کام نہیں تھا اس لیے ان کو بیرون نوکری کیلئے اقامہ کی ضرورت تھی ،اس اقامہ سے وہ تحقیقات کے دائر ہ سے آزاد رہتے تھے،پاکستان میں بہترین احتساب ہو رہا ہے،اس سے سرمایہ کاروں کا اعتماد بحال ہو رہا ہے ۔

سینیٹر نعمان خان وزیر نے کہا کہ آپ نے ماضی میں جو گناہ کیا ہے اس کا خمیازہ ہمیں بھگتناپڑ رہا ہے ،آئی ایم ایم ایف کے پاس ویلیو کریڈٹ کیلئے جاتے ہیں،بجلی میں 13سوبلین کی چوری ہو رہی ہے، پچھلے 12،13 سالوں میں پورے ملک کو چور بنا دیا،بھیک مانگتے ہوئے سب کو برا لگتا ہے،سوئی گیس میں 186ارب کی چوری ہو رہی ہے۔ انہوںنے کہا کہ تحریک لبیک کے دھرنے کو جس طریقے سے حل ہوا اس پر شہریار آفریدی تحسین کے لائق ہیں ،ْآئندہ اپوزیشن گولی چلانے کا کہیں ایسا ہی کریں گے۔

سینیٹر محسن عزیز نے کہا کہ شرائط ہم نے نہیں مانی،آپ نے ملک کے ائیرپورٹ،موٹرویز کو گروی رکھ کر شرائط مانیں،آج اپوزیشن بینچوں پر بیٹھ کر مزاحیہ تقریں کر رہے ہیں،ان کو پتہ ہی نہیں کہ اکنامیA" "سے شروع ہوتی ہے یا" "E سے۔یہ لوگ ملک کو لوٹ کر کھا گئے،تنقید ضرور کریں مگر وہ تنقید وہ کریں جس کا آپ کو پتہ ہو۔سینیٹرکہدا بابر نے کہا کہ مسئلہ یہ نہیں کہ ملک میں اس طرح کی واقعات پیش آتے ہیں،ایک طرف گوادر میں بین ااقوامی کانفرنس کے ذریعے بہتر کیا جارہا تھا تو دوسری طرف سڑکوں پر مذہب کے نام پر ملک کا امیج خراب کر رہے تھے،حکومت نے جس طرح مسئلے کا حل نکالا وہ قابل تعریف ہے ،ْگوادر میں بجلی،گیس اور پینے کا پانی تک نہیں ،ْآپ سرمایہ کاری بھی روک رہے ہیں،اگر ان کو بلوچستان اور پاکستان کی فکر ہے تو گوادر کے لوگوں کی مفادات کو بچانے کیلئے قانون سازی کریں،لوگوں کی مفاد میں قانون سازی کرنی چاہئے،چین بیلٹ اینڈ روڈ میں ملکوں کو دعوت دے رہا ہے،دنیا میں سرمایہ کاروں کو دعوت دی جاتی ہے جبکہ ہمارے پارلیمنٹ روک رہے ہیں۔

وفاقی وزیر پٹرولیم غلام سرور خان نے کہا کہ اس وقت ملک میں جمہوریت کو توکوئی خطرہ نہیں مگر سارے ادارے خسارے میں ہیں، ملک کو جمہوریت کے نام پر لوٹا گیا،اس ملک کے ساتھ کھلواڑ ہوا، معاشی بحران دہائیوں کا پیداکردہ ہے،ستر کی دہائی تک کوئی بجلی ،گیس اور پانی کا کوئی بحران نہیں تھا،مگرآج گیس،بجلی اور پانی کا شدید بحران ہیں،نوے کی دہائی میں آئی پی پیز کے ساتھ مہنگے معاہد ے ہوئے ،اپوزیشن اگر تجاویز دیں تو ضرور جائزہ لیں گے مگر تضحیک نہ کریں۔

وفاقی وزیر پٹرولیم نے کہا کہ 2004ء میں دیامر بھاشا ڈیم کی رکھی گئی،2010میں ایک حکومت آئی اس کی بنیادپھررکھی گئی اور 2013میں ایک حکومت نے دوبارہ بنیادرکھی ،نیلم جہلم ہائیڈرو پراجیکٹ کی ابتدائی لاگت 84 بلین تھی جب مکمل ہوا تو لاگت506بلین تک پہنچ گیا،اسٹیل ملز470بلین خسارے میں ہیں،پی آئی اے 200بلین خسارے میں ہے۔ انہوں نے کہا کہ اسلام آباد انٹرنیشنل ائیرپورٹ کی تعمیر میں تاخیر پر سپریم کورٹ نے نوٹس لیتے ہوئے ذمہ داروں کے خلاف کاروائی کا حکم دیا مگر آج تک کسی کے خلاف کارروائی نہیں کی گئی،لاہور میں سب سے زیادہ گیس کی چوری ہوتی ہے،عام آدمی کیلئے گیس کی قیمت میں صرف 10فیصد اضافہ ہوا۔

دریں اثناء سینیٹر مشاہداللہ کی تقریر کے دوران اپوزیشن اور حکومتی ارکان کے درمیان تلخ جملوں کا تبادلہ ہوا، چیئرمین سینیٹ نے بار بار ارکان کو غیر پارلیمانی الفاظ کے استعمال سے روکتے رہے ،انہوں نے تمام غیر پارلیمانی الفاظ کو کارروائی سے حذف کرتے ہوئے میڈیا پر نشر نہ کرنے کی بھی رولنگ دیں۔اجلاس کے دور ان سینیٹر نعمان وزیر نے مشاہد اللہ خان کے ذو معنی جملوں پر احتجاج کیا لیکن سینیٹر مشاہد اللہ خان نے مسلسل اپنی تنقیدی گفتگو جاری رکھی جس پر سینیٹر فیصل جاوید، سینیٹر محسن عزیز اور دیگر حکومتی ارکان بھی اپنی نشستوں پر کھڑے ہو گئے اور مشاہد اللہ خان کے ساتھ تلخ جملوں کا تبادلہ ہوا۔

اس دوران قائد حزب اختلاف نے کہا کہ یہ معاملہ ختم ہو گیا ہے، سینیٹر مشاہداللہ خان کو تقریر جاری رکھنے کا موقع دیا جائے۔ جس پر چیئرمین سینٹ نے مشاہد اللہ خان کو تقریر جاری رکھنے کا کہا اور انہیں کہا کہ وہ چیئر کو مخاطب کر کے بات کریں۔

ننکانہ صاحب میں شائع ہونے والی مزید خبریں