وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا کی زیرصدارت کابینہ اجلاس،سرکاری محکموں کو وضع کردہ قوانین کے رولزجلدبنانے کی ہدایت،اہم امورکی منظوری

منگل 22 اکتوبر 2019 23:39

پشاور۔22اکتوبر(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 22 اکتوبر2019ء) وزیراعلی خیبر پختونخوا محمود خان نے تمام محکموں کے انتظامی سربراہوں کو ہدایت کی ہے کہ جن جن محکموں میں جو بھی نئے قوانین بنائے گئے ہیں ان کے تحت رولز جلد سے جلد بنائے جائیں اور ان نئے رولز کے مسودے ایک مہینے کے اندر منظوری کیلئے صوبائی کابینہ کے سامنے پیش کئے جائیں۔ اس معاملے میں کسی بھی قسم کی کوئی کوتاہی کسی صورت برداشت نہیں کی جائے گی۔

یہ ہدایات انہوں نے منگل کے روز سول سیکرٹریٹ پشاور میں صوبائی کابینہ کے اجلاس کی صدارت کے دوران جاری کیں۔اجلاس میں ممبران صوبائی کابینہ کے علاوہ چیف سیکرٹری، ایڈیشنل سیکرٹری اور متعلقہ محکموں کے سیکرٹریز نے بھی شرکت کی۔خیبر پختونخوا حکومت صوبے میں بلدیاتی انتخابات اور اپنی آئینی ذمہ داریاں پوری کرنے کیلئے مخلصانہ جدوجہد کر رہی ہے۔

(جاری ہے)

آج کابینہ نے اس سلسلے میں نوٹیفیکیشنز جاری کرنے کی منظوری دیدی جو صوبائی حکومت کی اختیارات کی نچلی سطح تک منتقلی کی کوششوں کی عکاسی کرتی ہے۔صوبائی کابینہ نے آنے والے بلدیاتی انتخابات کیلئے صوبے بشمول ضم شدہ قبائلی علاقوں کی49 نئے تحصیلوں کو تحصیل لوکل گورنمنٹس کیلئے لوکل ایریا declare کرنے کے نوٹیفیکیشن کی منظوری دیدی۔ لوکل گورنمنٹ ایکٹ2013 کے سیکشن۔

4اور 5 کی رو سے بورڈ آف ریونیو کی طرف سے قائم شدہ نئے تحصیلوں کو تحصیل لوکل گورنمنٹ کیلئے بطور لوکل ایریا قرار دینا ضروری ہے۔چونکہ ضم شدہ قبائلی اضلاع میں تحصیل لوکل گورنمنٹس سب ڈویژن کی سطح پر منعقد ہوں گے۔ اس لئے کابینہ نے ضم شدہ اضلاع کے 25 سب ڈویژنوں کوپہلے تحصیل کا درجہ دینے اور پھر انہیں تحصیل لوکل گورنمنٹس کے انتخابات کیلئے لوکل ایریاdeclareکرنے کی بھی منظوری دیدی۔

صوبائی کابینہ نے تحصیل کونسل میں خواتین، نوجوانوں، زمینداروں اور اقلیتوں کیلئے مختص نشستوں کا تناسب باالترتیب33فیصد،5فیصد،5 فیصداور 5فیصد برقرار رکھنے کی منظوری دیدی۔محکمہ منصوبہ بندی و ترقی کی طرف سیsustainable development strategy 2019-23 کا مسودہ کابینہ کے سامنے پیش کیا گیا۔یہ سٹریٹیجی صوبائی حکومت کیلئے ایک وسط المدتی ترقیاتی فریم ورک ہے جس کے ذریعے صوبائی حکومت اپنی ترقیاتی منصوبہ بندی زمینی حقائق سے ہم آہنگ کرکے سماجی اور معاشی شعبوں میں لوگوں کی معیار زندگی بہتر بنانے کیلئے پائیدار اور ٹھوس اقدامات اٹھائے گی۔

اس سٹریٹیجی کی بنیاد صوبائی حکومت کے 100روزہ پلان پر رکھی گئی ہے جو پی ٹی آئی کے منشور کو عملی جامہ پہنانے کیلئے ایک پلیٹ فارم فراہم کرتی ہے۔اس سٹرٹیجی کے چیدہ چیدہ نکات اور خصوصیات میں سیاسی قیادت اور بیوروکریسی کو صوبے کی ترقی کیلئے ایک روڈ میپ دینا،حکومت کے اصلاحاتی ایجنڈے کو ترقیاتی لائحہ عمل سے ہم آہنگ کرنا،حکومتی، سماجی اور معاشی شعبوں میں صوبے کی ترقی کیلئے ایک درست سمت فراہم کرنا، مختلف شعبوں میں ترقیاتی عمل کو ایک دوسرے سے مربوط بنانے کیلئے ترقیاتی اخراجات کو مستحکم بنانا اورعوامی اخراجات کے سلسلے میں ترجیحات کا تعین کرناشامل ہیں۔

قبائلی علاقوں کی صوبے میں انضمام سے پہلے ٹرائیبل الیکٹرک سپلائی کمپنی (TESCO) کی ترقیاتی کاموں سے متعلق کچھ معاملات ڈائریکٹوریٹ آف ایری گیشن اینڈ ہائیڈل پاور کو تفویض تھیں۔ قبائیلی علاقوں کی انضمام کے بعد ڈائریکٹوریٹ آف ایری گیشن اینڈ ہائیڈل پاور ختم ہو گیا توچیف سیکرٹری خیبر پختونخوا نے ٹیسکوسے متعلق امورانرجی اینڈ پاور ڈیپارٹمنٹ کو تفویض کی تھی، معاملہ صوبائی کابینہ کی توثیق کیلئے پیش کیا گیا جس کی کابینہ نے توثیق کر دی۔

کابینہ نیKP Whistlerblower Protection and Vigilacne Commission Rules. 2019 کی منظوری دیدی۔ان رولز کے تحت کمیشن کے چیئرمین اور کمشنرز کی تقرری کیلئے ایک Search & Scrutiny Committee قائم کی جائے گی۔ چیف سیکرٹری اس کمیٹی کے سربراہ ہوں گے جبکہ دیگر ممبران میں ایڈیشنل چیف سیکرٹری، سیکرٹری قانون، سیکرٹری اسٹبلشمنٹ اور ایک ممبر صوبائی اسمبلی شامل ہیں۔کابینہ نے سوات ایکسپریس وے پر بنی کاٹلنگ انٹر چینج کا نام تبدیل کرکے بابو زئی انٹر چینج رکھنے کی منظوری دیدی۔

کابینہ نے صوبائی محتسب کے ڈپٹی ڈائریکٹر سید مزمل جمیل کو ڈائریکٹر کے عہدے پر، اسسٹنٹ ڈائریکٹر محمد کاشف کو ڈپٹی ڈائریکٹر اور اسسٹنٹ پروگرامر محمد کامران علی کو اسسٹنٹ ڈائریکٹر کے عہدے پر ترقی دینے کی منظوری دیدی۔کابینہ نے عاطف علی خان ایڈوکیٹ کی بطور ایڈیشنل ایڈوکیٹ جنرل جبکہ عمر فاروق ایڈوکیٹ، بیرسٹر بابر شہزاد عمران، صوفیہ نورین ایڈوکیٹ اور محمد نثار ایڈوکیٹ کی بطور اسسٹنٹ ایڈوکیٹ جنرل تقرری کی منظوری دیدی۔

کابینہ نے وزیراعلی خیبر پختونخوا کے معاون خصوصی برائے صنعت کی سربراہی میں کابینہ کے ایک 13رکنی کمیٹی تشکیل دینے کی منظوری دیدی ہے جو صوبے میں کارخانوں اور صنعتوں کی انسپکشن کے موجودہ نظام کا تفصیلی جائزہ لے گی۔ اس نظام میں موجود خامیوں اور نقائص کی نشاندہی کرے ی۔ اسے دور جدید کے تقاضوں سے ہم آہنگ بنانے اور خصوصا انسپکشن فری رجیم متعارف کروانے کیلئے پالیسی وضع کرے گی تاکہ صنعتوں کی انسپکشن کے سلسلے میں انسانی مداخلت کو کم سے کم کرکے صنعتکاروں کیلئے زیادہ سے زیادہ آسانیاں اور سہولیات پیدا کی جا سکیں اور اس طرح زیادہ سے زیادہ سرمایہ کاروں کو صوبے کی طرف راغب کیا جا سکے۔

کمیٹی کے دیگر ممبران میں وزیر قانون، سیکرٹری قانون، سیکرٹری جنگلات، سیکرٹری بلدیات، سیکرٹری ایکسائز، سیکرٹری صحت، سیکرٹری داخلہ، سیکرٹری صنعت،سیکرٹری محنت، سیکرٹری زراعت، سیکرٹری توانائی اور چیف ایگزیکٹیو آفیسر کے پی بورڈ آف انوسٹمنٹ اینڈ ٹریڈ شامل ہیں۔کابینہ نیKP Universities (second amendment Bill-2019 کی منظوری دیدی جسے خیبر پختونخوا یونیورسٹیز ایکٹ2012 کا دائرہ سابقہ فاٹا اور پاٹا تک وسیع ہو جائے گا اور ان علاقوں میں قائم یونیورسٹیوں کے معاملات مذکورہ ایکٹ کے تحت آجائیں گی جبکہ سابقہ فاٹا اور پاٹا کے انضمام سے قبل وہاں پر قائم یونیورسٹیاں اپنے اپنے مخصوص قوانین کے تحت کام کر رہی تھیں۔

18ویں آئینی ترمیم سے پہلے ڈائریکٹوریٹ جنرل آف اسپیشل ایجوکیشن اسلام آباد کے ملازمین ہیلتھ الانس لے رہے تھے جس کے بعد وفاقی حکومت نے ان ملازمین کے ہیلتھ الانس بند کر دیئے جس پر یہ ملازمین فیڈرل سروس ٹربیوبل میں چلے گئے۔ٹربیونل نے ان کے حق میں فیصلہ دیا جس کے بعد وفاقی حکومت سپریم کورٹ سے رجوع کیا مگر سپریم کورٹ نے بھی ان کے حق میں فیصلہ دیا۔

سال2018 میں جب یہ ملازمین صوبہ خیبر پختونخوا کو مستقل ہوئے تب بھی یہ ملازمین ہیلتھ الانس لے رہے تھے مگر اکانٹنٹ جنرل آفس نے اس پر اعتراض کئے جس پر یہ ملازمین پشاور ہائی کورٹ سے رجوع کیا۔ ہائی کورٹ کے احکامات کی روشنی میں ان ملازمین کو ہیلتھ الانس دینے کا معاملہ کابینہ کے سامنے پیش کیا گیا جس کی کابینہ نے منظوری دیدی۔کابینہ نے سیکرٹریٹ آفیسرز کو ملنے والی ایگزیکٹیو الانس کی طرز پر پلاننگ کیڈر ملازمین کو بھی خصوصی الانس دینے کی منظوری دیدی۔

کابینہنے ترقیاتی فنڈز جاری کرنے کیلئے ریلیز پالیسی جبکہ اے ڈی پی پالیسی کی بھی منظوری دیدی۔ریلیز پالیسی کے تحت ایک ہی محکمے کے اندر مختلف منصوبوں کے فنڈز میں ضرورت کی بنیادوں پر ردوبدل کا اختیار متعلقہ محکمے کو دیاگیا ہے۔ اب ایسے ردو بدل کیلئے محکمہ خزانہ یا منصوبہ بندی کو کیس بھیجنے کی ضرورت نہیں پڑے گی۔ اسی طرح نئے اے ڈی پی پالیسی کے تحت انتخابی حلقوں کی بنیاد پر نہیں بلکہ علاقوں کی بنیاد پر اور ضرورت کے مطابق فنڈز رکھے جائیں گے۔

کابینہ نے اپریشن ضر عصب کے دوران میران شاہ اور میر علی بازار میں دوکانوں، پیٹرول پمپس اور سامان کو بیچنے والی نقصانات کے ازالے کیلئے کابینہ کے خصوصی کمیٹی کی سفارشات کی روشنی میں متاثرین کو معاوضوں کی ادائیگی کی بھی منظوری دیدی۔ میر علی بازار کیلئے معاوضے کی رقم2809.328 ملین جبکہ میران شاہ بازار کیلئے معاوضے کی رقم331.454ملین ہے۔ اسی طرح صوبائی کابہنہ نے خیبر پختونخوا منرل سیکٹر گورننس (ترمیمی) ایکٹ2019 اور خیبر پختونخوا پروٹیکشن اگینسٹ ہراسمنٹ آف ویمن ایٹ ورک پلیس ایکٹ2018 کی بھی منظوری دیدی۔

پشاور میں شائع ہونے والی مزید خبریں