بی این پی بلوچ قوم اور بلوچستانی عوام کی ذمہ دار سیاسی نمائندہ جماعت کی حیثیت سے کسی بھی صورت شہداء کی قربانیوں کو فراموش نہیں کریگی ، رکن بلوچستان اسمبلی اختر حسین لانگو و دیگر کا تقریب سے خطاب

اتوار 24 مارچ 2019 22:05

کوئٹہ (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 24 مارچ2019ء) بلوچستان نیشنل پارٹی کے زیر اہتمام شہید اسلم بلوچ کے 32ویں برسی کی مناسبت سے بی این پی کوئٹہ کے جانب سے تعزیتی ریفرنس کلی ترخہ شیرانی میں منعقد ہوا ریفرنس کی صدرات شہید اسلم بلوچ کی تصویر سے کرائی گئی مہمان خاص پارٹی کے مرکزی کمیٹی کے ممبر و رکن صوبائی اسمبلی اختر حسین لانگو، اعزازی مہمان پارٹی کے مرکزی کمیٹی کے ممبر غلام نبی مری تھے تعزیتی ریفرنس کا آغاز تلاوت کلام پاک سے کرائی گئی سعادت حافظ روف نے حاصل کی اسٹیج سیکرٹری کے فرائض پارٹی کے سینئر رہنماء ماسٹر عبدالحلیم بنگلزئی نے سرانجام دیئے شہید اسلم بلوچ شہدائے بلوچستان و دنیا کے تمام قومی تحریکوں کے حقوق کی خطر جانوں کا نذرانہ پیش کرنے والے عظیم انسانوں کے قربانیوں کی یاد میں دومنٹ کھڑے ہوکر خاموشی اختیار کی گئی تعزیتی ریفرنس سے پارٹی کے مرکزی کمیٹی کے اراکین رکن صوبائی اسمبلی اختر حسین لانگو، غلام نبی مری ، ضلعی جنرل سیکرٹری آغا خالد شاہ دلسوزضلعی انفارمیشن سیکرٹری یونس بلوچ،اسد سفیر شاہوانی ، پرنس رزاق بلوچ، ناصر دہوار، حاجی عبدالحمید، دوست محمد ، حاجی نوراللہ ، بابو خیر محمد، خلیفہ جانان نورزئی ، حاجی حمید اللہ بڑیچ نے خطاب کیا اس موقع پرمختلف پشتون قبائل سے تعلق رکھنے والے حاجی حمید اللہ بڑیچ، محمد قاسم بڑیچ، ٹھیکیدار جمعہ خان بڑیچ، عبدالصمد بڑیچ، حاجی نعیم ترین ،حاجی محمد اسماعیل کاکڑ، خلیفہ جانان ، بابل خان رند، پرویز خان رند، محمد عظیم رند، محمد یعقوب بنگلزئی ، ناصر بنگلزئی ، جعفربنگلزئی ، عامر بنگلزئی عبدالقدوس اور دیگر نے اپنے خاندان دوست واقارب سمیت سردار اختر جان مینگل کی ولولہ انگیز قیادت پر مکمل اعتماد کا اظہار کرتے ہوئے بی این پی میں شمولیت کا اعلان کیا ۔

(جاری ہے)

اس موقع پر مقررین نے شہید اسلم بلوچ کے بلوچ قومی تحریک اور بلوچستانی سرزمین کیلئے طویل سیاسی جدوجہد اور آخرمیں اپنی جانوں کا نذرانہ دینے پر زبردست انداز میں خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے کہا کہ اسلم بلوچ نے اپنے سیاسی جدوجہد کا آغاز بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن کی پلیٹ فارم سے کیا اوربلوچ قومی مسائل پراور بلوچ مسائل پر فعال کردار ادا کیا اس سلسلے میں 1987ء کو کراچی کے بلوچ علاقے لیاری ملیر نویتہ، گھڈاپ و دیگر میں منشیات کے خاتمے کیلئے اس وقت کے امر دور حکومت میں ایک پرامن ریلی کی قیادت کرتے ہوئے بلوچ نوجوانوں کو منشیات جیسے لعنت سے نکالنے کیلئے آواز بلند کیا اس موقع پر سماج دشمن عناصر نے اور اس وقت کے حکومت نے اس ریلی پر فائرنگ کے نتیجے میں شہید اسلم جان کو شہید کیا ۔

شہید اسلم بلوچ کی شہادت سے یہ واضح ہوتا ہے کہ ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت بلوچ نوجوانوں کو قومی تحریک کی سیاسی قومی جمہوری تحریک سے توجہ ہٹانے کیلئے منشیات کی طرف دھکیلانے کی کوشش کرائی گئی تاکہ وہ قومی جدوجہد سے دستبردار ہوسکے۔لیکن اسلم بلوچ کی شہادت نے بلوچ قومی تحریک اور بلوچ سماج کو ایک نیا شعور ولولہ پیدا کیا کہ بلوچوں کو مختلف ہتھکنڈوں سازشوں کے نتیجے میں الجھا کر قومی تحریک کو کمزور کرنے کی کوشش کی جارہی ہے جسے ناکام کرنا بلوچ نوجوانوں کا قومی ذمہ داری ہے اور شہید اسلم بلوچ کی جدوجہد و قربانی بلوچ نوجوانوں کیلئے مشعل راہ کی حیثیت رکھتا جسے کسی بھی صورت فراموش نہیں کیا جاسکتاہے۔

بلوچ قومی تحریک بلوچ فرزندوں کی قربانیوں سے بھری ہوئی ہر وقت میں یہاں کے فرزندوں نے استحصالی قوتوں کے بلوچ قوم اور سرزمین کے خلاف توسیعی پسندانہ پالیسیوں کو ناکام بنانے کیلئے جدوجہد کرتے ہوئے وقف کی اور کسی قسم کی قربانی سے دریغ نہیں کیا ۔انہوں نے کہا کہ بی این پی بلوچ قوم اور بلوچستانی عوام کے ایک ذمہ داری سیاسی نمائندہ جماعت کی حیثیت سے کسی بھی صورت میں ان شہداء کی قربانیوں کو فراموش نہیں کرینگے اور نہ انھیں رائیگاں جانے دیا جائیگا۔

شہداء کے قربانیوں کی بدولت ہی آج بلوچ قومی تحریک اور سیاست میں شہداء کی لازوال قربانیاں اہمیت کے حامل ہیں۔ مائی کلاچی جو بلوچوں کے تاریخی مادر وطن ہیںاور دیگر علاقوں میں بلوچ سیاست معاشرے کو مسخ کرنے کی کوشش کی جارہی ہے ایسے سازشوں کو سیاسی جمہوری علمی اور عملی کردار کے ذریعے سے بلوچ کارکنوں کو اپنا بھر پور سیاسی کردار ادا کرنا ہوگا ورنہ آنے والے تاریخ میں ہمیں کسی بھی صورت میں معاف نہیں کرینگے ۔

انہوں نے کہا کہ بلوچ قومی تحریک کیلئے اپنی جان کا نذرانہ دینے والے ہر شہید کی قربانی کی پیچھے ایک بڑافکر و فلسفہ وابستہ ہے بلوچ سیاست اور سماج کو مذہبی انتہاء پسندی فرقہ واریت منشیات کی خرید فروخت کلاشنکوف کلچر میں ملوث کرنے فرسودہ قبائلی رشتوں کو تقویت دینے اور بلوچ قوم کو غربت جہالت پسماندگی کی طرف دھکیلانے حکمرانوں کے ان توسیعی پسندانہ پالیسیوں کا تسلسل ہے جو گذشتہ ستر سالوں سے روا رکھا گیا ہے۔

اس کا بنیاد مقصد یہ ہے کہ بلوچ مال و مڈی سائل وسائل قدرتی دولت سے مالال مال اس خطے کے وسائل کو بزور طاقت اپنے دست رست میں لایا جاکر بلوچ قوم کو مزید محرومیت جہالت پسماندگی غربت کی طرف دھکیلا جاسکے بلوچ قوم کو ان سنگین مسائل اور آنے والے چیلنجز سے نکالنے کیلئے بلوچ سیاسی کارکنان دانشوروں تاریخ پر گہری نظر رکھنے والوں پر یہ بڑی ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ قوم کو ان حالات سے نکال کر یہ ثابت کریں کہ بلوچ قوم ایک ترقی یافتہ ترقی پسند سیکولر خیالات رکھنے والے ہیں اور اپنے مادر وطن سرزمین اور قومی شناخت وجود بقاء سلامتی پر کسی بھی صورت میں وقتیً مصلحت پسندی کا شکار نہیں ہونگے اور شہداء کے ارمانوں کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کیلئے کسی قسم کی قربانی دینے سے دریغ نہیں کرینگے۔

اس موقع پر مقررین نے نئے شامل ہونے والے پشتون اور بلوچ قبائل سے تعلق رکھنے والے قبائلی عمائدین کو پارٹی میں شمولیت کرنے پر مبارک باد پیش کرتے ہوئے کہا کہ بی این پی یہاں کے تمام اقوام کی نمائندہ قومی جماعت ہے جو گذشتہ کئی عشروں سے جدوجہد میں مصروف عمل ہیں اور ہر قسم کی تعصب تنگ نظری نفرت کی سیاست کو رد کرتے ہوئے پارٹی نے بلوچستان کے اجتماعی قومی ایشوز کو آگے بڑھایا یہی وجہ ہے کہ اس سے پہلے حکمرانی کرنے والے جماعتوں نے بلوچ پشتون کانام ووٹ لیکراقتدرا پر رسائی کے بعد صرف اپنے ذاتی گروہی اور جماعتی مفادات کی نگبانی کی اور اقتدار تک محدود رہے اور پسند و ناپسند کی بنیاد پر کوئٹہ شہر میں تعصب تنگ نظری پسماندگی کی سیاست کوپروان چڑھایا جس کے نتیجے میں آج کوئٹہ شہری مختلف مسائل سے دوچار ہیں جس میں تعلیم صحت روزگار پینے کا صاف پانی انفرا اسٹریکچر امن و امان سرفہرست ہیں۔

اور عوام نے حالیہ الیکشن میں ان جماعتوں کو مسترد کیا جنہوں نے اقتدار کی خاطر مختلف معائدے کرائے جبکہ بی این پی وہ واحد جماعت ہے جنہوں نے مرکزی حکومت کی جانب سے شراکت اقتدار کی خاطر پارٹی کو وزارتوں کے افر کئے گئے لیکن بی این پی نے وقتیً اقتدار کو اہمیت نہیں دیا اور اس کے مقابلے میں چھ نکات حل کرنے کی خاطر پی ٹی آئی حکومت کے ساتھ ایم او یو معاہدہ کیا جس میں بلوچستان کے مجموعی مسائل شامل ہیں ۔

یہ وہ مسائل ہیں جنہیں ستر سالوں سے نظرانداز کیا گیا انہوں نے نئے شامل ہونے والے اکابرین کو مبارک بادی پیش کرتے ہوئے کہا کہ بی این پی کسی بھی صورت میں ان کے اعتماد کو ٹھیس نہیں پہنچائینگے اور کوئٹہ شہر سمیت بلوچستان بھر میں تعصب تنگ نظری نفرت کی سیاست کی پیخ کنی کرینگے جبکہ یہاں کے تما م اقوام بلوچ پشتون ہزارہ آباد کار بلوچستان کے اجتماعی قومی مسائل پر ایک جگہ متحد نہیں ہونگے اس وقت تک ہمارے مسائل حل نہیں ہونگے اور سازشی عناصر اپنے تقسیم کرکے اپنے گروہی مفادات اور توسیعی پسندانہ پالیسیوں کو آگے بڑھائینگے ۔

مقررین نے حکومت وقت کی جانب سے طلبہ تنظیموں کی سیاسی سرگرمیوں پر پابندی عائد کرنے کی ناروا پالیسیوں کے مذمت کرتے ہوئے کہا کہ ایسے پالیسیوں کی نافذ کرنے سے یہ عمل واضح ہوتا ہے کہ وہ تعلیمی اداروں میں طلبہ کے سیاسی شعور جدوجہد سے خائف ہیں بی این پی اس ناروا عمل پالیسی کے خلاف اور اس ناروا پالیسی کسی بھی صورت برداشت نہیں کریگی اور اس عمل کے خلاف ہر فورم پر سیاسی جمہوری انداز میں آواز بلند کریگی کیونکہ بی این پی ایک سیاسی جمہوری نمائندہ کی حیثیت سے ہمیشہ طلباء کے بنیادی اور ان کے تعلیم سے متعلق سرگرمیوں کے حوالے سے حکمرانوں کے توجہ مبذول کراتے ہوئے آواز بلند کرتے چلے آرہے ہیں ۔

انہوں نے کہا کہ افسوس کے ساتھ یہ کہنا پڑتاہے کہ اکسیوں صدی جوکہ علم ٹیکنالوجی تعلیم و تربیت کا صدی ہے اس صدی میں بھی طلباء جو کہ کسی تحریک اور معاشرے میں ہر اول دستے کا حیثیت رکھتے ہیں ان سے خائف ہوکر حکمران غیر سیاسی اورغیر منفی اور غیر جمہوری ہتھکنڈے اپناتے ہوئے اپنے کرپشن اور دیگر ناروا پالیسیوں کو چھپانے کیلئے مصروف عمل ہیں ۔اس موقع پر حمیدلانگو، زعفران مینگل ، ملک عبدالرسول شاہوانی ،رئیس دوست جان بلوچ رئیسانی،حیدر لاشاری ، ظہور کرد، رحمت اللہ مینگل ودیگر موجود تھے ۔

کوئٹہ میں شائع ہونے والی مزید خبریں