ملک میں یہ تاثر عام تھا کہ ہمارے بیورو کریٹ کام نہیں کرتے لیکن انہوں نے ہائوسنگ منصوبے کے لیے جنونی انداز میں کام کیا ہے،ہم نے 50 لاکھ گھروں کی تعمیر کا پروگرام اس لیے بنایا کہ عام آدمی کا اپنا گھر اس کی سب سے بڑی ضرورت ہوتی ہے،پاکستان میں صرف پیسے والے لوگ ہی گھر بنانے کا سوچ سکتے ہیں، ہمارے تنخواہ دار طبقے میں کرپشن کی بڑی وجہ بھی یہ ہے کہ ملازمین کی تتنخواہوں میں گھر کی تعمیر کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا کیونکہ گھر کی تعمیر کیلئے زمین سمیت دیگر اخراجات کی ضرورت ہوتی ہے ،ماضی میں زمین کی قیمتوں اور تعمیراتی اخراجات میں جس طرح اضافہ ہوا ہے اتنا اضافہ ملازمین کی تنخواہوں میں نہیں ہوا،وفاقی وزیر ہائوسنگ طارق شیر چیمہ کا تعلق مسلم لیگ (ق)سے ہے لیکن آج کی ان کی تقریر میں پی ٹی آئی کے جنون کی جھلک نظر آ رہی تھی

وزیر اعظم عمران خان کا کوئٹہ میں نیا پاکستان ہائوسنگ سکیم کے منصوبے کی سنگ بنیاد رکھنے کی تقریب سے خطاب

اتوار 21 اپریل 2019 16:30

کوئٹہ ۔ (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 21 اپریل2019ء) وزیر اعظم عمران خان نے کہا ہے کہ ملک میں یہ تاثر عام تھا کہ ہمارے بیورو کریٹ کام نہیں کرتے لیکن انہوں نے ہائوسنگ منصوبے کے لیے جنونی انداز میں کام کیا ہے،ہم نے 50 لاکھ گھروں کی تعمیر کا پروگرام اس لیے بنایا کیونکہ اس کے دو تین اہم پہلو تھے، عام آدمی کا اپنا گھر اس کی سب سے بڑی ضرورت ہوتی ہے تاکہ اس کے سر پر چھت ہو،اگر پیسہ ہو تو آپ گھر بنا سکتے ہیں اور پاکستان میں صرف پیسے والے لوگ ہی گھر بنانے کا سوچ سکتے ہیں، ہمارے تنخواہ دار طبقے میں کرپشن کی بڑی وجہ بھی یہ ہے کہ ملازمین کی تتنخواہوں میں گھر کی تعمیر کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا کیونکہ گھر کی تعمیر کیلئے زمین سمیت دیگر اخراجات کی ضرورت ہوتی ہے ،ماضی میں زمین کی قیمتوں اور تعمیراتی اخراجات میں جس طرح اضافہ ہوا ہے اتنا اضافہ ملازمین کی تنخواہوں میں نہیں ہوا،پاکستان میں فی کس آمدنی کی تناسب سے گھروں کی تعمیر کیلئے قرضوں کی فراہمی کی شرح 0.2 فیصد ہے ،اس میں اضافے کیلئے قانون میں تبدیلی کر رہے ہیں تاکہ لوگوں کو آسانی سے گھروں کی تعمیر کے لیے قرضہ مل سکے ۔

(جاری ہے)

قومیں ایسے نہیں بنتیں کہ امیر تو امیر تر اورغریب غریب تر ہو تا جائے ،آج مشرقی جرمنی ایک بڑی طاقت بن چکا ہے اور پورا جرمنی ترقی کر چکا ہے، ہم نے بھی پاکستان کو اسی طرح ترقی دینی ہے جس سے ملک کے پسماندہ علاقے اوپر لائے جاسکیں گے۔وفاقی وزیر ہائوسنگ طارق شیر چیمہ کا تعلق مسلم لیگ (ق)سے ہے لیکن آج کی ان کی تقریر میں پی ٹی آئی کے جنون کی جھلک نظر آ رہی تھی۔

ان خیالات کا اظہار انھوںنے اتوار کو کوئٹہ میں نیا پاکستان ہائوسنگ سکیم کے منصوبے کی سنگ بنیاد رکھنے کی تقریب سے خطاب کے دوران کیا۔ وزیر اعظم نے کہا کہ آج میں بلوچستان کے مستقبل سے بات کررہا ہوں ،جو طلبہ اورنوجوان ہیں ۔وزیر اعظم نے کہا کہ پہلے سائوسنگ پر گفتگو اور پھر آپ کیلئے ایک خاص پیغام ہوگا جو آپ کی زندگی میں آپ کے کام آئے گا۔

انہوں نے کہا کہ ہم نے 50 لاکھ گھروں کی تعمیر کا پروگرام اس لیے بنایا کیونکہ اس کے دو تین اہم پہلو تھے، عام آدمی کا اپنا گھر اس کی سب سے بڑی ضرورت ہوتی ہے تاکہ اس کے سر پر چھت ہو،اگر پیسہ ہو تو آپ گھر بنا سکتے ہیں اور پاکستان میں صرف پیسے والے لوگ ہی گھر بنانے کا سوچ سکتے ہیں، ہمارے تنخواہ دار طبقے میں کرپشن کی بڑی وجہ بھی یہ ہے کہ ملازمین کی تتنخواہوں میں گھر کی تعمیر کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا کیونکہ گھر کی تعمیر کیلئے زمین سمیت دیگر اخراجات کی ضرورت ہوتی ہے ،ماضی میں زمین کی قیمتوں اور تعمیراتی اخراجات میں جس طرح اضافہ ہوا ہے اتنا اضافہ ملازمین کی تنخواہوں میں نہیں ہوا۔

وزیر اعظم نے کہا کہ 1935ء میں ایک بریگیڈیئر اور کمشنر ایک ماہ کی تنخواہ سے 72 تولے سونا خرید سکتے تھے، قیام پاکستان کے وقت میرے والد انجینئر تھے اور وہ ایک ماہ کی تنخواہ سے گاڑی خرید سکتے تھے لیکن اس کے برعکس آج تنخواہ دار طبقے کیلئے ایسا کرنا انتہائی مشکل ہوگیا ہے جبکہ مزدور اور غریب طبقے کیلئے اس حوالے سے مزید مشکلات در پیش ہیں۔

انہوں نے کہا کہ جس کے پاس رقم نہ ہو اور غریب آدمی اپنا گھر بنانا چاہے تو اس کو بہت زیادہ مشکلا ت کا سامنا کرنا پڑتا ہے ، اس حوالے سے ہائوسنگ سکیم کی تیاری میں ہم نے بھرپور محنت کی اور بڑی مشکل سے یہاں پہنچے ہیں۔ وزیر اعظم نے کہا کہ پاکستان میں بینکوں کی جانب سے گھروں کی تعمیر کیلئے فراہم کئے جانے والے قرضوں کی شرح انتہائی کم ہے، یورپی ممالک میں کسی بھی ملک کی فی کس آمدنی کے تناسب سے 80 تا 90 فیصد قرضہ فراہم کیا جاتا ہے جبکہ ملائیشیاء میں یہ شرح 30 فیصد اور ہندوستان میں10 فیصد ہے لیکن پاکستان میں فی کس آمدنی کی تناسب سے گھروں کی تعمیر کیلئے قرضوں کی فراہمی کی شرح 0.2 فیصد ہے ،اس میں اضافے کیلئے قانون میں تبدیلی کر رہے ہیں تاکہ لوگوں کو آسانی سے گھروں کی تعمیر کے لیے قرضہ مل سکے ۔

وزیر اعظم نے کہا کہ سٹیٹ بینک آف پاکستان نے دیگر بینکوں کوگھروں کی تعمیر کیلئے قرضوں کی فراہمی بڑھانے کی ہدایت کی ہے جبکہ حکومت نجی شعبے کی شراکتداری سے ہائوسنگ کے منصوبے کو مکمل کرے گی،پانچ سال کے بعد ہوسکتاہے کہ آپ دیکھیں کے 50 لاکھ سے زیادہ گھر بن جائیں ۔ وزیر اعظم نے کہا کہ ناقدین اعتراض کرتے ہیں کہ پاکستان میں تو پیسہ ہی نہیں ہے اس لیے اتنا بڑا منصوبہ کیسے مکمل ہوگا۔

انہوں نے کہاکہ ہائوسنگ منصوبے میں چین ، ملائیشیاء اور برطانیہ کی کمپنیاں سرمایہ کاری کریں گی جس سے پیسے کا مسئلہ حل ہو جائے گا، منصوبے سے طلبہ کو موقع ملے گا کے وہ اپنی تعلیم مکمل کر کے اپنی تعمیراتی کمپنیاں بنائیں اور ہائوسنگ کے شعبے میں اپنا کاروبار کر کے خود کفیل بن سکیں۔ انہوں نے کہاکہ ہائوسنگ کے شعبے سے 40 سے زائد صنعتیں منسلک ہیں اور تعمیراتی سرگرمیوں کے بڑھنے سے ان صنعتوں میں روز گار کی فراہم بڑھ جائے گی۔

وزیر اعظم نے نوجوانوں پر زور دیا کہ وہ سرکاری نوکری ڈھونڈنے کی بجائے اپنا کاروبار کریں کیونکہ جس ملک میں کاروبار ترقی کرے تو وہ ملک ترقی کرتا ہے ۔انہوں نے کہاکہ 40 ، 50 سال قبل جب میں میچ کھیلنے کے لیے کوئٹہ آیا تو اس وقت کا شہر اور آج کا کوئٹہ بڑا مختلف ہے ۔ انہوں نے کہا کہ شہر کا ماسٹر پلان بنانا انتہائی ضروری ہے تاکہ بنیادی سہولیات کی فراہمی کے ساتھ ساتھ ماحولیات کو بھی تحفظ دیا جاسکے ۔

انہوں نے وزیر اعلیٰ بلوچستان کو ہدایت کی کہ وہ شہر کے پھیلائو کو روکنے کیلئے بلند عمارتوں کی تعمیر کا موقع فراہم کریں جس طرح دبئی ، لندن اور نیو یارک وغیرہ میں تعمیرات کی گئی ہیں، اگر شہر زیادہ پھیلے گا تو سہولتوں کی فراہمی میں مسئلہ ہوگا۔وزیراعظم نے کہا کہ ماضی کی حکومتوں اورموجودہ حکومت میں یہ فرق ہے کہ ان کا ماڈل کوئی اور تھا لیکن ہر مسلمان کی طرح ہمارا ماڈل مدینہ کی ریاست ہے جس میں 700 سال تک مسلمانوں کی تہذیب کو عظیم بنایا ۔

وزیر اعظم نے طلبہ اور نوجوانوں پر زور دیا کہ وہ مدینہ کی ریاست کے ماڈل کو سٹڈی کریں تاکہ وہ سمجھ سکیں کہ ایک ایسی قوم جس کی کوئی حیثیت ہی نہیں تھی وہ کیسے ترقی کر گئی، یہ تاریخ کا حصہ ہے کیونکہ دین اس سے علیحدہ ہے ۔ انہوں نے کہا کہ مدینہ کی ریاست میں عرب کا ایک شخص ایسا انقلاب برپا کرتا ہے کہ رومن اور فارس کی بڑی سلطنتیںگر جاتی ہیں،بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح نے بھی مدینہ کی ریاست کے ماڈل کے طور پر کہا تھا کہ پاکستان ایک اسلامی فلاحی ریاست ہوگی کیونکہ ریاست مدینہ میں بھی کمزور طبقات کو ترقی دی گئی اور ہم نے بھی ایسا ہی کرنا ہے ۔

انہوں نے کہاکہ گزشتہ 70سال کے دوران پاکستان تھوڑے سے طبقے کا ملک بن چکا ہے جس میں تعلیم ، صحت سمیت زیادہ تر سہولیات تک رسائی صرف چھوٹے سے امیر طبقے کو حاصل رہی ہے،ملک کی تاریخ میں پہلی مرتبہ طاقتور طبقات پر ہاتھ ڈالا گیا ہے کیونکہ ماضی میں صرف غریب ہی جیل جاتا تھا ، قبل ازیں بڑے بڑے ڈاکو جیلوں کی بجائے اسمبلیوں میں نظر آتے تھے جبکہ ہمارے نبی نے کہا تھا کہ تم سے پہلے بڑی بڑی قومیں صرف اس لیے تباہ ہوگئیں کیونکہ وہاں پر کمزور اور طاقتور کیلئے علحیدہ علحیدہ قانون ہوتے تھے۔

وزیر اعظم نے کہا کہ آج صاف نظر آتا ہے کہ بعض افراد نے قوم کا پیسہ چوری کر کے بڑے بڑے گھر اور گاڑیاں خریدی ہیں لیکن وہ وکلاء کو کروڑوں روپے کی فیسیں دیکر پکڑے نہیں جاتے جبکہ غریب آدمی جن جرائم میں جیلوں میں بند ہیں ان پر 5،6 ماہ کی سزاہوسکتی ہے لیکن وہ چھ چھ سال جیل کاٹتے ہیں،اس نظام کے خلاف ہم نے لڑنا ہے ۔ وزیر اعظم نے کہا کہ یہ ملک اس وقت ترقی کرے گاجب اس کی حکومت میں کمزور طبقے کی تعلیم ، کھانے پینے کی اشیاء کی فراہمی ، صحت کی سہولیات سمیت دیگر سہولیات کی فراہمی کا احساس ہوگا، ہم نے عام آدمی کو انصاف فراہم کرنا ہے ان کے سروں پر چھت دینی ہے اور ملک کے پسماندہ علاقوں کو ترقی دینی ہے ۔

انہوں نے کہا کہ بلوچستان ، اندرون سندھ اور فاٹا (سابقہ)کے علاقے پیچھے رہ گئے ہیں اس لیے ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم ان علاقوں کو ترقی دیں۔انہوں نے کہاکہ دوسری جنگ عظیم کے بعد جرمنی تقسیم ہوگیا اور 50 سال کے بعد جمہوریت نہ ہونے کی وجہ سے مشرقی جرمنی بہت پیچھے رہ گیا جبکہ مغربی جرمنی ترقی کرگیا لیکن 50سال کے بعد دونوں ممالک اکٹھے ہوئے تو مغربی جرمنی نے اپنے پیسے سے مشرقی جرمنی کو ترقی دی ۔

انہوں نے کہا کہ قومیں ایسے نہیں بنتیں کہ امیر تو امیر تر اورغریب غریب تر ہو تا جائے ،آج مشرقی جرمنی ایک بڑی طاقت بن چکا ہے اور پورا جرمنی ترقی کر چکا ہے، ہم نے بھی پاکستان کو اسی طرح ترقی دینی ہے جس سے ملک کے پسماندہ علاقے اوپر لائے جاسکیں گے ۔انہوں نے کہاکہ ماضی میں حکومتیں سوچتی تھیں کے ہمیں حکومت بنانے کیلئے بلوچستان کی ضرورت نہیں اس لیے وہ اس پر توجہ نہیں دیتی تھیں لیکن جب میں نے اقتدار سنبھالا تو بلوچستان سمیت ملک کے دیگر پسماندہ علاقوں کی ترقی کو اپنی ذمہ داری سمجھا کیونکہ مجھے پسماندہ علاقوں اور ملک میں موجود غربت کا پتہ ہے ۔

وزیر اعظم نے کہا کہ بلوچستان کے وزیر اعلیٰ اپنے صوبے کے مسائل کو سمجھتے ہیں اس لیے مسائل کو حل کرنے میں مدد ملے گی ۔ نوجوانوں سے مخاطب ہوتے ہوئے وزیر اعظم نے کہا کہ آپ کو یہ یاد رکھنا ہوگا اور اس مسئلے کو سمجھنا ہوگا کہ آپ کے ملک کو کس بے دردی سے لوٹا گیا۔ یہ باتیں میں اس لیے دہراتا ہوں تاکہ آپ سمجھ سکیں کہ 5 سال کے بعد میں ملک کوبہتر حالت میں چھوڑ کر جا رہا ہوں،ہم قرضوں میں نمایاں کمی لائیں گے کیونکہ ماضی کی حکومتوں نے تو جو کچھ اس ملک کے ساتھ کیا ایسا تو دشمن بھی نہیں کرتا ۔

2008ء میں ہمارا قرضہ 6 ہزار ارب روپے تھا جو 10سال کے دوران 2018ء تک 30 ہزار ارب روپے تک بڑھ گیا۔ وزیر اعظم نے کہا کہ وفاق کے پاس 45 سو ارب روپے کے ٹیکسز اکٹھے ہوتے ہیں جن میں سے دو ہزار ارب روپے قرضوں کی قسطوں پر چلے جاتے ہیں جو قرضے ماضی کی حکومتوں نے لیے تھے، 25 سو ارب روپے صوبوں کا حصہ بناتا ہے جبکہ سیکورٹی پر 17سو ارب روپے کا خرچ ہوتا ہے اس طرح وفاق 7 سو ارب روپے کے خسارے سے مالی سال شروع کرتا ہے ۔

انہوں نے کہاکہ اگر قرضوںکی قسطوں میں دو ہزار ارب روپے نہ دینے پڑیں تو ہمارے پیسے کے مسائل ختم ہو جائیں گے ، قرضے اتر جائیں گے اور ہمارا ملک ترقی کرے گا ۔ وزیر اعظم نے کہا کہ ہمارا ملک تھوڑے وقت کیلئے مشکل سے گزر رہا ہے اور ہم مزید مشکل سے گزریں گے کیونکہ آپریشن سے مریض کو تھوڑی بہت تکلیف تو ہوتی ہے لیکن اس سے وہ ٹھیک ہو جاتا ہے ۔انہوں نے کہا کہ ترقی کیلئے انسان میں برے وقت کا سامنا کرنے کی خصوصیت ہونی چاہیے اور ترقی کرنے والا کوئی بھی ایسا شخص نہیں ہے جس کو مسائل کا سامنا نہ کرنا پڑا ہو۔

انہوں نے کہا کہ جب میں نے کرکٹ کھیلنی شروع کی تو کوئی یہ بات ماننے کو تیار نہیں تھا کہ میں کرکٹر بن سکوں گا، سب کہتے تھے مجھ میں کرکٹر بننے کی صلاحیت ہی موجود نہیں،جب میں نے پہلا میچ کھیلا تو ٹیم سے نکال دیا گیا اور ٹیم میں واپس آنے کیلئے مجھے چار سال لگے ۔ وزیر اعظم نے کہا کہ دنیا میں جس نے بھی کوئی بڑا کام کیا ہے تو اس کیلئے مسلسل جدوجہد کرنی پڑی ہے ،ایک مرتبہ بڑا نام پیدا کر لیا جائے تو پھر اس کو قائم رکھنے کیلئے مزید جدوجہد کرنی پڑتی ہے ۔

وزیراعظم نے کہا کہ جب کینسر ہسپتال کی تعمیر شروع کی گئی تو سب نے مخالفت کی اور لوگ اس بات پر یقین کرنے کو تیار نہیں تھے کہ 70 سے 75 فیصد مریضوں کا مفت علاج کیسے ہو گا، اسی طرح جب دیہات میں یونیورسٹی کا منصوبہ شروع کیا تو اس کی بھی مخالفت کی گئی اور جب میں سیاست میں آیا تو لوگوں نے 15سال تک میرا مذاق اڑایا اور کہا کہ دو جماعتی نظام میں تیسری سیاسی جماعت آ ہی نہیں سکتی نہ یہ الیکشن جیت سکتی ہے۔

انہوں نے کہا کہ جب میں وزیراعظم بنا تو لوگوں نے کہا کہ یہ چلے گا ہی نہیں۔ وزیراعظم نے کہا کہ میں نے کینسر ہسپتال کی تعمیر اور اس کو کامیابی سے چلانے کے لئے 18,18گھنٹے مسلسل کام کیا اور اب 24 سال گزر چکے ہیں دنیا کا واحد کینسر ہسپتال ہے جہاں پر 75 فیصد مریضوں کا مفت علاج کیا جاتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان کو قدرت نے جتنا نوازا ہے اس کا کسی کو اندازہ ہی نہیں، یہاں ترکی، چین، ملائیشیا، یو اے ای اور سعودی عرب سمیت دیگر ممالک سے سرمایہ کار آ رہے ہیں کیونکہ وہ پاکستان میں سرمایہ کاری اور وسائل سے استفادہ کرنا چاہتے ہیں۔

وزیراعظم نے کہا کہ اگر ایک فیکٹری میں ڈاکو کو بٹھا دیا جائے تو وہ نہیں چل سکتی اور جب کسی ملک میں باریاں بدل بدل کر ڈاکو آ جائیں تو وہ کیسے چلے گا۔ انہوں نے کہا کہ ماضی کے حکمرانوں نے ملک کے قرضے کو 6 ہزار ارب روپے سے 30 ہزار ارب روپے تک بڑھایا اور وہ ملک کو مقروض کر کے گئے ہیں لیکن انہوں نے جو بھی کیا ہے اس کی سزا انہیں ملے گی چاہے اس میں کتنی دیر ہی کیوں نہ لگے تا کہ مستقبل میں کوئی بھی حکمران ملک کو لوٹتے ہوئے ڈرے۔

انہوں نے کہا کہ جب حکمران اور ان کے بچے اربوں پتی ہو جاتے ہیں تو قوم مقروض ہو جاتی ہے، ہمارے ملک میں بھی تین خاندانوں نے پیسہ چوری کر کے ملک سے باہر بھیجا ہے اس طرح کون سا ملک چل سکتا ہے۔ وزیراعظم نے کہا کہ ہم مسلسل محنت سے ہر روز کوئی نیا موقع تلاش کر رہے ہیں اور یہ اس لئے بھی گبھرائے ہوئے ہیں کیونکہ وہ جلدی جلدی سے عمران خان کی حکومت گرا کر جیلوں سے بچنا چاہتے ہیں۔

وزیراعظم نے مولانا فضل الرحمن کی مثال دیتے ہوئے کہا کہ بچن میں کرکٹ کھیلتے ہوئے ناقص کارکردگی کا مظاہرہ کرنے والا کھلاڑی وکٹیں اٹھا کر بھاگ جاتا تھا اور کہتا تھا کہ میں نہ خود کھیلوں گا اور نہ ہی کسی کو کھیلنے دوں گا، ان کی مثال بھی اسی طرح ہے، وہ ہر روز کہتے ہیں کہ میں دس لاکھ لوگوں کو اسلام آباد لائوں گا۔ وزیراعظم نے اپنے خطاب کے آخر میں طلبہ اور نوجوان طبقے کے جذبے اور جنون کو سراہا۔

وزیراعظم نے کہا کہ بلوچستان میں ایک لاکھ دس ہزار گھروں کی تعمیر کا ابتدائی منصوبہ شروع کیا گیا ہے جس میں مچھیروں کے لئے زیادہ سے زیادہ گھر بنائیں گے، یہ ہے نیا پاکستان۔ انہوں نے کہا کہ پرانے پاکستان میں نظرانداز کیے گئے طبقات کو نئے پاکستان میں اوپر لایا جائے گا۔ وزیر اعظم کا کہنا تھا کہ وفاقی وزیر ہائوسنگ طارق شیر چیمہ کا تعلق مسلم لیگ (ق)سے ہے لیکن آج کی ان کی تقریر میں پی ٹی آئی کے جنون کی جھلک نظر آ رہی تھی۔ تقریب میں گورنر و وزیراعلیٰ بلوچستان، وفاقی وزیر ہائوسنگ، وفاقی و صوبائی وزراء، اراکین پارلیمان سمیت زندگی کے مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والے افراد اور بالخصوص طلباء اور نوجوانوں نے بھرپور شرکت کی۔

کوئٹہ میں شائع ہونے والی مزید خبریں