ن لیگ اختلافات کا شکار ، سابق وفاقی وزیر کا پارٹی چھوڑنے کا فیصلہ

لیفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ عبدالقادر بلوچ نے پارٹی سے مستعفی ہونے کا فیصلہ کوئٹہ میں ہونے والے پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ کے حالیہ جلسے میں سابق وزیراعلی بلوچستان ثناء اللہ زہری کو نہ بلائے جانے پر کیا ، ذرائع کا دعویٰ

Sajid Ali ساجد علی ہفتہ 31 اکتوبر 2020 13:22

ن لیگ اختلافات کا شکار ، سابق وفاقی وزیر کا پارٹی چھوڑنے کا فیصلہ
لاہور(اُردو پوائنٹ تازہ ترین اخبار۔31 اکتوبر2020ء) پاکستان مسلم لیگ ن کے اختلاف کھل کر سامنے آگئے ، لیفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ عبدالقادر بلوچ نے مستعفی ہونے کا فیصلہ کرلیا۔ میڈیا ذرائع کے مطابق ن لیگ بلوچستان کے صدر اور سابق وفاقی وزیر لیفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ عبدالقادر بلوچ نے پارٹی سے مستعفی ہونے کا فیصلہ کوئٹہ میں ہونے والے پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ کے حالیہ جلسے میں سابق وزیراعلی بلوچستان ثناء اللہ زہری کو نہ بلائے جانے پر کیا ، اس حوالے سے باضابطہ اعلان ایک پریس کانفرنس میں کیا جائے گا ، بتایا گیا ہے کہ پی ڈی ایم کے سیکریٹری سابق وزیراعظم جنرل شاہد خاقان عباسی نے پارٹی قیادت کی مشاورت کے بعد ثناء اللہ زہری کو جلسے میں بلانے سے انکار کردیا تھا ، اور موقف اختیار کیا کہ ثناء اللہ زہری پچھلے اڑھائی سال سے ملک میں موجود نہیں، اس بناء پر وہ پی ڈی ایم کے جلسے کا حصہ نہیں بن سکتے۔

(جاری ہے)

دوسری طرف فوج مخالف بیانیہ کی وجہ سے پارٹی قیادت کو خدشہ ہے کہ مسلم لیگ ن تین حصوں میں تقسیم ہوجائے گی ، سینئر صحافی و تجزیہ کار چوہدری غلام حسین کہتے ہیں کہ مسلم لیگ ن کی طرف سے اس وقت اداروں کے درمیان بات چیت کی باتیں کرنے والے لوگ سمجھتے ہیں کہ اگر ان کی جماعت سابق وزیراعظم نوازشریف اور ان کی صاحبزادی مریم نواز کا بیانیہ لے کر آگے بڑھی تو مسلم لیگ ن 3 حصوں میں تقسیم ہوجائے گی ، نجی ٹی وی چینل کے ایک پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ مسلم لیگ ن کا خیال ہے کہ اگر موجودہ حکومتی ڈھانچے کو نہ گرایا گیا اور حکومت اپنی مدت پوری کرنے میں کامیاب ہوگئی ، مہنگائی پر قابو پانے کے بعد عوامی حمایت بھی حاصل کرنے میں کامیاب ہوجائے تو اگلے الیکشن میں ان کو ہرانا ناممکن ہوجائے گا ، اور اگر فوج کی موجودہ قیادت کا تسلسل برقرار رہا تو ہمیں سازشوں اور اپنے غیرملکی آقاؤں کی مدد سے بنائے گئے ہر منصوبے میں ناکامی ہوگی ، کیوں کہ پاکستان کے عوام عمران خان کو بے شک برا بھلا کہہ سکتے ہیں لیکن وہ پاکستان،اس کی فوج اور نظریے کے خلاف ایک لفظ سننے کو تیار نہیں ، جس کے بعد ووٹ تو دور کی بات ہے بلکہ انہیں ہر گلی اور محلے میں بہت شدید عومی ردعمل کا سامنا کرنا پڑے گا ، جس کی بناء پر ان کا گھروں سے نکلنا بھی مشکل ہوجائے گا۔

کوئٹہ میں شائع ہونے والی مزید خبریں