پشتونخواملی عوامی پارٹی کے زیر اہتمام پشتون کلچر ڈے پریس کلب میں تقریب

مقررین نے پشتون کلچر ڈے کے موقع پر تمام پشتون غیور ملت کو دلی مبارکباد پیش کی

اتوار 23 ستمبر 2018 20:50

کوئٹہ (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آن لائن۔ 23 ستمبر2018ء) پشتونخواملی عوامی پارٹی کے زیر اہتمام پشتون کلچر ڈے کے حوالے سے مرکزی تقریب پریس کلب کوئٹہ میں پارٹی کے صوبائی صدر سنیٹر عثمان خان کاکڑ کی زیر صدارت منعقد ہوا۔ جس سے سنیٹر عثمان خان کاکڑ ، ڈاکٹر حامد خان اچکزئی، سید عبدالقادر آغا ایڈووکیٹ ، رکن صوبائی اسمبلی نصراللہ خان زیرے ، ممتاز ادیبہ وشاعرہ محترمہ آرزو زیارتوال نے خطاب کیا ۔

جبکہ سٹیج سیکرٹری کے فرائض علی محمد ترین نے سرانجا م دیئے اور تلاوت کی سعادت حافظ جمیل احمد نے حاصل کی۔پشتون کلچر ڈے کے حوالے سے نوجوانوں ، بچوں ، بوڑھوں ، خواتین نے پشتون لباس زیب تن کیئے تھے اور شہر کے مختلف علاقوں ملی اتنڑ کے پروگرام منعقدہوئے ۔ کلچر ڈے کے حوالے سے جنوبی پشتونخوا کے مختلف اضلاع پشین ، چمن ، زیارت ، سنجاوی ، لورالائی ، ژوب ، ہرنائی ، سبی اور موسیٰ خیل میں بھی تقاریب کا انعقاد کیا گیا ۔

(جاری ہے)

کوئٹہ میں منعقدہ تقریب سے مقررین نے پشتون کلچر ڈے کے موقع پر تمام پشتون غیور ملت کو دلی مبارکباد پیش کرتے ہوئے کہا کہ پشتون وہ خوش نصیب اور پر افتخار ملت ہے جس کی تاریخ کم وبیش 5ہزار سال پر محیط ہے اوریہ کہ ایک قوم اس قت قوم کی معیار پر پوری اترتی ہے کہ جو ایک متحدہ جغرافیہ ، اپنی تاریخ اور اپنی زبان رکھتی ہے اور اس تمام اجزاء پر مشتمل پشتون ملت ایک قوم کی حیثیت سے تابندہ اور زندہ ہے ۔

انہوں نے کہا کہ غیور افغان پشتون ملت سبی کے میدانوں سے لیکر چترال کے پہاڑوں اور پھر امو سے لیکر اباسین تک ایک وسیع سرزمین رکھتی ہے اس میں قدرت نے ہمیں بیش بہا قدرتی نعمتوں ، وسائل ، معدنیات ، دریائوں سے نواز ا ہے جو شاید دنیا میںکسی اور قوم کی ہو ۔ پشتون اپنی علمی زبان پشتو رکھتی ہے اور اس میں ایک کام اور ایک کردار کیلئے کئی کئی الفاظ موجود ہے اور ایک ایسا وسیع کلچر کی مالک ہے۔

اور اس میں مختلف خوبصورت رنگا رنگ پھول اس کے اجزا ہے جس میں پشتون لباس ، اس کے دستار ، خواتین کی باوقار لباس اور اس کے ساتھ ساتھ مختلف قسم کے زیورات ، اسی طرح پشتون ملت کے مختلف اولس کے، لُنگی ، پھگڑی اور دستار باندھنے کے طریقے ، پشتون ملی اتنڑ کے مختلف انداز ہے ۔ انہوں نے کہا کہ پشتون ثقافت میں وطن دوستی ، اپنے ملت اور عوام سے وفاداری اور قومی مفاد پر سودا بازی نہ کرنے اور ظالم ومظلوم کی جنگ میں مظلوم کاساتھ دینا ، اپنے ہمسایوں کا خیال رکھنا ، جائیداد میں اپنے بہنوں بیٹیوں کو حصہ دینا بھی پشتون کلچر کا ایک اٹوٹ انگ ہے ۔

اور اسی طرح پشتون کلچر میں قبائلی جھگڑوں میں بالخصوص جب خواتین ، سفید ریش بچے درمیان آجاتے ہیں تو جنگ بندی کا فوری اعلان بھی ہمارے کلچر کا ایک حصہ ہے ۔ پشتون ادب وثقافت میں شاعری کے مختلف طرز کے علاوہ ٹپے ، نعرے ، لنڈی بھی ہمارے ثقافت کا ایک انداز ہے ۔ہماری شادی وبیاہ کی تقاریب ،میلے اور فصلات کی کٹائی کے موقع پر ثقافتی ننداری بھی پشتون کلچر ہے ۔

انہوں نے کہا کہ اس ملک میں غیور افغان پشتون ملت نے روز اول ہی سے اپنی ثقافت ، ادب ، تہذیب کو پالا ہے جبکہ اس کے برعکس اس ریاست اور اس کے اداروں نے ہمیشہ پشتون ثقافت ادب ، شعر وشاعری اور پشتو زبان کو ختم کرنے اور اس کے کیخلاف اخبارات ، ٹی وی چینلز پر اس کی تضحیک روز اول ہی سے ان کی پالیسی کا حصہ رہا ہے ۔ اس ملک میں آج تک پشتون ثقافت ، پشتو زبان کو تسلیم نہیں کیا گیا ہے اور کوشش کی جارہی ہے کہ ہر لحاظ سے پشتون ثقافت ، پشتو زبان ،پشتون ادب اور اسکی تہذیب کو ختم کیا جاسکے ۔

مگر ہمارے غیور ملت نے خود ہی اپنی زبان ، اپنی ثقافت ، ادب ، تہذیب کو اس طرح حفاظت کی ہے کہ وہ ان کی بھرپور کوششوں کے باوجود بھی مٹنے اور ختم ہونے کا نام نہیں لے رہاہے کیونکہ پشتو شاعری اور اس کے پن پارے ، پشتون داستان ،فوکلور، پشتو ضرب المثل اس زبان کی محافظ کے طور پر کام کررہے ہیں۔ انہوں نے تمام غیور پشتون ملت اور بالخصوص نوجوانوں کو یہ اپیل کی کہ وہ ہر حالت میں اپنی زبان کوپڑھیں ، بولے اور لکھے کیونکہ اس جدید دور میں جدید ٹیکنالوجی اور کمپیوٹرکی صدی میں اپنی ثقافت اور زبان کی حفاظت ہمارے نوجوانوں کیلئے ایک بہت بڑا چیلنج ہے ۔

مقررین نے کہا کہ تاریخ میں غیور پشتون افغان ملت نہ کبھی دہشتگرد رہا ہے اور نہ ہے بلکہ یہ دہشتگردی غیروں کی جانب سے مسلط کی گئی ہے اور اس ملک میں دہشتگرداور فرقہ وارانہ تنظیموں کا مرکز ہمیشہ سے پنجاب اور لاہور رہا ہے ۔ انہوں نے افسوس کا اظہار کیا کہ ہمارے ملک کے ریاستی ادارے شعوراً افغان پشتون ملت کو دہشتگرد کے طور پر پیش کررہے ہیں اس کی مثال گزشتہ دنوں کے پنجاب حکومت کے مختلف ٹی وی چیلنجز پر چلنے والے اشتہارات اور ملتان ریلوے سٹیشن پر دہشتگردی سے نمٹنے کیلئے جو ٹریننگ دی گئی اوراس کے خاکو ں میں بھی پشتون ملت کو دہشتگردکے طور پر پیش کیا گیا جس کی ہم پرزور مذمت کرتے ہیں ۔

انہوں نے کہا کہ پشتونخوامیپ کو اس ملک کے دہشگردانہ ،ان کے گڈ اور بیڈ دہشتگردوں کی پالیسی ناقابل قبول ہے ۔ مقررین نے کہا کہ آج پشتون غیور ملت زندہ اور تابندہ ہے مگر افسوس سے کہنا پڑھ رہا ہے کہ ہمارے تقدیر کے فیصلے خضدار اور ملتان کے لوگ کررہے ہیں پشتونخوامیپ بی این پی اور تحریک انصاف کو غیور پشتون ملت کیخلاف توہین آمیز معاہدے کی ہر گز اجازت نہیں دے سکتی انہوں نے بلوچ عوام سے اپیل کی وہ بی این پی کی پشتون دشمن رویے کو بھانپ لے کیونکہ اس سے پشتون اور بلوچ عوام کے مابین مزید نفرتیں ابھر سکتی ہے اس لیئے کہ پشتون افغان غیور ملت نے گزشتہ چالیس سال میں نقصان ہی اٹھایا ہے لہٰذا اب پشتون عوام کیلئے مزید اس قسم کا طرز عمل ناقابل قبول ہے۔

انہوں نے کہا کہ غیور پشتون افغان ملت تاریخی طور پر اپنی سرزمین پر آباد ہے اور موجودہ غیر فطری صوبہ بننے سے پہلے کوئٹہ میونسپل کمیٹی میں تمام کونسلر پشتون تھی1970کے بعد پشتونوں کے تاریخی شہر کوئٹہ میں پشتون عوام کے خلاف Demographicتبدیلی لائی گئی اور آج لوگ واویلا کررہے ہیںجس سے صاف ظاہر ہے کہ کوئٹہ پر 1970کے بعد غیروں نے قبضہ کیا ۔ انہوں نے کہا کہ جہاں تک افغان کڈوال کا تعلق ہے تو ہمیں اس کی تاریخی پس منظر کا ذکر کرنا چاہیے ۔

کہ جنرل ضیاء کے فوجی آمریت کے دور میں آزاد اور جمہوری افغانستان میں جارحیت ومداخلت کی پالیسی شروع کی گئی اور غیور افغان عوام کے تاریخی سرزمین افغانستان میں جنگ کا نہ ختم ہونیوالا سلسلہ آج بھی جاری ہے اور لاکھوں کی تعداد میں غیور افغان ملت کو مجبور کرکے یہاں کڈوال کے طور پر رہنا پڑا اور اس کے عیوض ہمارے ملک کے فوجی آمروں اور جنرل ضیاء اور جنرل مشرف نے امریکہ یورپ کے استعماری ممالک ، عرب اور چین سے کھربوں ڈالر لیئے ۔

انہوں نے کہا کہ اب صورتحال یہ ہے کہ اقوام متحدہ کے تمام ادارے اس بات پر متفق ہے کہ 80فیصد سے زائد افغان کڈوال اپنے وطن کو جاچکے ہیںاور 20فیصد سے کم لوگوں کے بچے یہاں رہ رہے ہیں انہیں شہریت دینا بین الاقوامی قانون کے تحت اور ملکی آئین وقانون کے مطابق حق حاصل ہے ۔ اور پشتونخوامیپ نے آج سے کئی سال پہلے اس کا مطالبہ کیا تھا ۔ انہوں نے کہا کہ اقوام متحدہ انسانی ہمدردی کے نعرے لگانے والے اب کہاں ہیں کہ پشتون عوام کے خلاف ملک بھر میں جو ناروا اقدامات اٹھائے جارہے ہیں اس کا نوٹس لیں ہم اس ریاست ، مرکزی وصوبائی حکومتوں او ر سیاسی پارٹیوںپر واضح کرتے ہیں کہ وہ غیور پشتون افغان ملت کے حوالے سے توہین آمیز بیانات سے اجتناب کریں۔

انہوں نے کہا کہ وفاقی حکومت بلا تاخیر افغان کڈوال عوام کو شہریت دے ۔ انہوں نے کہا کہ 1978سے پہلے تو یہاں کوئی بھی افغان کڈوال موجود نہیں تھے اور جنوبی پشتونخواکی 70ہزار سکوائر کلو میٹر کی سرزمین کو دوسروں کے نام کردیا گیا جس کی ہم روز اول ہی سے مخالف رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ملک کے اسٹیبلشمنٹ ان کے اداروں اور میڈیا کی یہ پالیسی ہے کہ مظلوم پشتون عوام جو خود دہشگردی ، ظلم وجبر و وبربریت کا شکارہے کو دہشتگرد ثابت کرے لہٰذا مزید یہ رویہ اور طرز عمل اور اس کی توہین ناقابل برداشت ہے۔

انہوں نے کہا کہ بی این پی اپنے چہرے سے وہ سیاہ داغ ہر گز نہیں مٹا سکتی کہ جس میں انہوں نے اس صوبے کی جمہوری حکومت کو ختم کرنے کیلئے جاسوسی اداروں کے ایما پر کردار ادا کیا اور اس کے بدلے انہیں انتخابات میں سلیکشن کے ذریعے لایا گیا اور آزاد سنیٹرز سے ملکر سینٹ کے چیئرمین کو لایا گیا ۔ انہوں نے کہا کہ پشتونخوا وطن ہمیں کسی نے خیرات میں نہیں دیا بلکہ ہماری اکابرین کی تاریخی قربانیوں کے نتیجے میں ہمیں پہنچا ہے اور ہمیں اپنی سرزمین اپنے وطن اور غیور پشتون ملت کا وفادار ہونا چاہیے نہ کہ کسی جاسوسی ادارے اور ان کے زرخریدوں کے ایجنٹ بنے ۔

اور اس قسم کے زر خرید لوگ اپنے وطن اور سرزمین کیخلاف کام کررہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ کالا باغ ڈیم غیور پشتون ملت کیلئے تباہ کن ہے اور اس کو پہلے ہی سے پشتون بلوچ اور سندھی عوام نے یکسر مسترد کیا ہے آج ڈیم بنانے والے دراصل پنجاب کے آنیوالے نسل کو بچا رہے ہیں حالانکہ اس کے برعکس جنوبی پشتونخوا میں روز اول ہی سے ڈیمز کی اشد ضرورت ہے کیونکہ جنوبی پشتونخوا ، بلوچستان اور دیگر علاقوں میں قحط اور خشک سالی کا سماء ہے اور سالانہ 12ملین ایکٹر فٹ پانی ضائع ہورہا ہے آج تک یہاں کسی نے ڈیم فنڈنگ کا سوچا نہیں ہے ۔

انہوں نے کہا کہ پشتونخوامیپ نے کبھی بھی انتشار کی پالیسی نہیں اپنائی ہے جبکہ اس ملک کے ریاستی ادارے اور چند لوگ انتشار پھیلانے کی سازشوں میں مصروف ہے اور کالا باغ ڈیم بننے سے جو انتشار اٹھے گااس کو کوئی بھی ختم نہیں سکے گا۔ انہوں نے گزشتہ دنوں چمن ، پشین اور قلعہ سیف اللہ میں ہونیوالے واقعات جس میں لیویز آفیسرز اور اہلکاران سمیت عام شہریوں کے شہادتوں کے واقعات رونماء ہوناجنوبی پشتونخوا میں بھی ایک خاص سازش اور منصوبے کے تحت وزیرستان جیسے حالات پیدا کرنے کی کوشش کی جارہی ہے یہ کیسے ممکن ہے کہ سرعام بازار میں فائرنگ کرکے لیویز اہلکاروں کو مارا جائے اور دہشتگرد باآسانی فرار ہوجائے۔

انہوں نے کہا کہ ہمارے تمام سول انتظامیہ ، کمشنر ، ڈی سی ، اے سی سمیت لیویز اور پولیس کو شعوراً مفلوج کرنے کی کوشش کی جارہی ہے اورلیویز فورس کو ختم کرنے کا ایک بہانہ ڈھونڈا جارہا ہے اور اس طرح تمام اختیارات ایف سی کے حوالے کرنے کی سازش ہے ۔ انہوں نے کہاکہ گزشتہ روز قلعہ سیف اللہ میں واقعے کے بعد سیکورٹی فورسز نے شہر میں مقامی لوگوں کی تلاشیاں شروع کردی جس کا مقصد دہشتگردوں کو فرار کرنا تھا حالانکہ تمام دنیا میں انٹیلی جنس نیٹ ورک کی بنیاد پر آپریشن اور دہشتگردوں کی گرفتاری کی جانی چاہیے نہ کہ عوام کو تنگ کیا جائے۔

انہوں نے کہا کہ قلعہ سیف اللہ میں دہشتگردی کے خلاف نکلنے والے پرامن لوگوںاور جلوس کے شرکاء اور پارٹیوں کے رہنمائوں وکارکنوں کے خلاف ایف آئی آر درج کرنا زخموں پر نمک چھڑکنے کے مترا دف ہے ۔ انہوں نے مطالبہ کیا کہ بلا تاخیر قلعہ سیف اللہ میں درج ہونیوالے ناروا غیر آئینی وغیر قانونی ایف آئی آر واپس لیئے جائیںاور تمام شہدا کے قاتلوں کی گرفتاری کو یقینی بناکر انہیں سزا دیں۔

کوئٹہ میں شائع ہونے والی مزید خبریں