کوئٹہ، بلوچستان میں کوئلے کی کانوں میں کام کرنے والے مزدورں کی زندگیوں کو آسان بنانے کے لئے سرگرم ہیں،پروفیسر ڈاکٹر رابعہ ظفر

بدھ 20 مارچ 2019 00:09

کوئٹہ(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آن لائن۔ 19 مارچ2019ء) پروفیسر ڈاکٹر رابعہ ظفر نے کہا ہے کہ بلوچستان میں کوئلے کی کانوں میں کام کرنے والے مزدورں کی زندگیوں کو آسان بنانے کے لئے سرگرم ہیںایمپیرئیل کالج لندن سے ارتھ سائنسز انجینئرنگ میں ڈگری حاصل کرنے والی وہ پاکستان کی پہلی خاتون ہیں جو اب سردار بہادر خان وومن یونیورسٹی کوئٹہ میں انوائرنمینٹل سائنس ڈیپارٹمنٹ میں چیئر پرسن کے عہدے پر فائز ہیں وہ کہتی ہیں کہ جب وہ 2017 میں ڈگری حاصل کر کے پاکستان آئیں تو انھیں جس چیز نے ان کانوں میں کام کرنے والوں کی مشکلات کا احساس دلایا وہ ادھر پیش آنے والے حادثات میں ہلاکتیں تھیں بلوچستان میں جدید صنعتیں نہ ہونے کے برابر ہیں ایسے میں کوئلے کی کان کنی یہاں کی سب سے بڑی صنعت ہے مائنز ڈیپارٹمنٹ کے مطابق کوئلے کی کانوں کی تعداد چار ہزار سے زیادہ ہے جس سے بلا واسطہ ایک لاکھ سے زیادہ کان کن وابستہ ہیں ان کانوں میں ہونے والے حادثات کے باعث ہر سال بڑی تعداد میں کان کن ہلاک اور زخمی ہوتے ہیں ان حادثات کو دیکھا جائے تو سنہ 2018 بلوچستان میں کان کنوں کے لئے سب سے مہلک ثابت ہوا پاکستان سینٹرل مائنز لیبر فیڈریشن کے سیکریٹری جنرل لالہ سلطان کے مطابق 2018 میں بلوچستان میں مجموعی طور پر 93 کان کن ہلاک ہوئے سرکاری اعداد و شمار کے مطابق 2010 سے اگست 2018 تک بلوچستان کی کوئلے کی کانوں میں 423 سے زائد کان کن ہلاک ہوئے ہیں لالہ سلطان اس کی سب سے بڑی وجہ حفاظتی انتظامات کے فقدان کو قرار دیتے ہیں ڈاکٹر رابعہ کا کہنا ہے کہ جب انھوں نے ان کانوں کا جائزہ لیا تو انھوں نے ان میں کام کرنے والے لوگوں کی آنکھوں میں زندگی کی رونق نہیں دیکھی میں نے کچھ کول مائنرز کو کھانا کھاتے ہوئے دیکھا تو ان کا کھانا بھی کوئلے کے گرد و غبار سے اٹا ہوا تھا یوں لگتا ہے کہ جیسے زندگی یہاں پر ہے ہی نہیں ان کا مزید کہنا تھا کہ یہاں کی صورت حال کے جائزے کے دوران یہ بات بھی سامنے آئی کہ کان کنوں کو اپنی صحت اور تحفظ کا احساس نہیں ہے یا وہ صحت اور تحفظ کے اصولوں سے واقف نہیں اور اگر وہ واقف ہیں تو ان اصولوں کو اپنانے سے گریزاں ہیں رابعہ نے کہا کہ انھوں نے کول مائننگ کے سیکٹر کو صحت اور تحفظ کے حوالے سے ٹارگٹ کیا اور ان کان کنوں کو ٹریننگ دینے کا سلسلہ شروع کیا ان کا کہنا تھا کہ مختلف کانوں سے کان کنوں کا انتخاب کر کے ان کو 10 دنوں کی ٹریننگ دی گئی اور ان کو سیفٹی کِٹ بھی فراہم کی گئی تاکہ مزدوروں کو یہ پتا چل سکے کہ ان کا تحفظ کیوں ضروری ہے یہ نہ صرف ان کے خاندانوں کے لئے ضروری ہے بلکہ اس کول مائننگ سیکٹر کے لئے بھی رابعہ کا کہنا ہے کہ اگر ایک کان کن کی جان جاتی ہے یا وہ معذوری کا شکار ہوتا ہے تو اس سے مائننگ سیکٹر بھی متاثر ہوتا ہے انھوں نے کہا کہ مائننگ سیکٹر اور اس کے قوانین میں بہت ساری خامیاں ہیں اس لئے ان قوانین پر نظرِ ثانی کی ضرورت ہے ڈاکٹر رابعہ کے مطابق ہم ابھی تک بنیادی مسائل کو ہی حل نہیں کر سکے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ ہم پرانے مسائل کو جدید نظر سے نہیں دیکھ رہے رابعہ چاہتی ہیں کہ کانوں میں گیسز کی مقدار کا جائزہ لینے کے لئے ایک کنٹرول سسٹم ہو اگر کاربن ڈائی آکسائیڈ یا میتھین کی مقدار زیادہ ہوتی ہے تو کنٹرول سسٹم اس کو مانیٹر کرے اس کے لئے فورا الارم کا انتظام ہو، تاکہ کان کن دھماکہ ہونے سے پہلے کان کو خالی کر سکیں وہ ان کان کنوں کے لئے فکر مند ہیں جو کہ اندھیرے میں کام کرتے ہوئے نظر ہی نہیں آتے ڈویژنل انسپیکٹر مائنز محمد عاطف نے بتایا کہ کان کنوں کی تحفظ اور سلامتی پر تربیت کے لئے ڈاکٹر رابعہ ظفر نے جو پروگرام شروع کیا ہے وہ کان کنوں کے لئے بہت زیادہ سود مند ہے ان کا کہنا تھا کہ اس تربیتی پروگرام میں ان تمام پہلوں کو شامل کیا گیا ہے جو تحفظ کے لئے ضروری ہوتے ہیں محمد عاطف نے مزید کہا کہ اس پروگرام سے کان کنوں میں یہ شعور اجاگر ہوتا ہے کہ خطرے کی صورت میں بچا کے لئے کس طرح کا رد عمل درکار ہوتا ہے انسپکٹر مائنز نے بتایا کہ حادثے کے دوران ریسکیو کے بارے میں بھی کان کنوں کو تربیت دی گئی تاکہ وہ کام کرتے ہوئے اپنے آپ کے علاوہ ساتھی مزدوروں کو بچانے کے لئے بھی حکمت عملی سے واقف ہوں ان کے مطابق حکومتِ بلوچستان اور مائنز ڈیپارٹمنٹ کوئلے کی کانوں میں کام کرنے والے افراد کے تحفظ کے لئے مختلف اقدامات کر رہے ہیں جس میں قوانین میں بہتری کے ساتھ ساتھ مائنز انسپکٹروں کی تعداد کو بڑھانا بھی شامل ہے ۔

کوئٹہ میں شائع ہونے والی مزید خبریں