امن و امان کے بغیر ترقی اور خوشحالی ممکن نہیں اور نہ سرمایہ کار یہاں آئیں گے،جنرل (ر) عبدالقادربلوچ

صوبے کی قومی شاہراہوں پر امن وا مان کے قیام کو یقینی بنانے کیلئے ہر10کلو میٹر پر چیک پوسٹ بنائی جائیں ،صدر پاکستان مسلم لیگ(ن) بلوچستان

منگل 23 اپریل 2019 18:24

کو ئٹہ (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 23 اپریل2019ء) پاکستان مسلم لیگ(ن) بلوچستان کے صدر جنرل (ر) عبدالقادربلوچ نے کہا ہے کہ صوبے کی قومی شاہراہوں پر امن وا مان کے قیام کو یقینی بنانے کیلئے ہر10کلو میٹر پر چیک پوسٹ بنائی جائیں امن و امان کے بغیر ترقی اور خوشحالی ممکن نہیں اور نہ سرمایہ کار یہاں آئیں گے وزیراعظم وزراء کے قلمدان تبدیل کرنے کی بجائے حقیقی عوامی مسائل پر توجہ دیں ملک میں صدارتی نظام اور18ویں ترمیم کو ختم کرنا کسی کیلئے قابل قبول نہیں ہوگا حکومت نے عوام کے مسائل کی طرف توجہ نہ دی تو بہت جلد عوام سڑکوں پرہونگے ۔

یہ بات انہوں نے منگل کو کوئٹہ پریس کلب میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہی۔ اس موقع پر پارٹی کے صوبائی جنرل سیکرٹری جمال شاہ کاکڑ، سیکرٹری اطلاعات یونس بلوچ ، ایڈیشنل جنرل سیکرٹری نصیر خان اچکزئی ،چیف کوارڈی نیٹر گوہر خان مینگل ،نائب صدرحاجی اللہ دادبڑیچ ، حیدرخان اچکزئی ،پیٹرک ایس ایم اوردیگر بھی موجود تھے۔

(جاری ہے)

جنرل عبدالقادربلوچ نے کہاکہ بلوچستان میں اسوقت ایک اہم مسئلہ قومی شاہراہوں پر ہونے والی دہشت گردی کی کارروائیاں ہیں جو کافی عرصے سے ہورہی ہیں گزشتہ دنوں بھی اورماڑہ کے قریب 4سے 5بسوں کو روک کر لوگوں کو اتارنے کے بعد شناختی کارڈ چیک کرکے شہید کیا گیااس سے پہلے بھی صوبے کی مختلف قومی شاہراہوں پر اس قسم کی وارداتیں ہوچکی ہیںایسی وارداتوں کے بعد بلوچستان کے عوام اور باہر سے آنے والے خود کو غیر محفوظ سمجھتے ہیں ایک جانب سی پیک کی باتیں ہورہی ہیں جو یقینا ترقی اورخوشحالی کا ایک منصوبہ ہے جبکہ بہت سے لوگ بلوچستان میں سرمایہ کاری بھی کرنا چاہتے ہیں بلوچستان معدنی وسائل کے حوالے سے ملک کا امیر ترین صوبہ ہے یہاں پر زیرزمین اربوں ڈالر کے معدنی وسائل موجود ہیں جن پرکام کرنے کی ضرورت ہے تیل و گیس کی تلاش ،سی پیک سمیت دیگر منصوبوں پر کام کرنے سے نہ صرف صوبہ بلکہ ملک ترقی کی راہ پر گامزن ہوسکتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ صوبے میں امن و امان کے قیام کیلئے سیکورٹی فورسز ،قانون نافذ کرنے والے اداروں اورعوام نے بے شمارقربانیاں دی ہیں یہ انکی قربانیوں کا نتیجہ ہے کہ آج صوبے میں امن وامان کی صورتحال چند سال قبل کے مقابلے میں انتہائی بہتر ہے چند سال قبل تک اندرون صوبہ بہت سے علاقوں میں قومی پرچم تک لہرانا مشکل تھا دوسرے صوبوں کے لوگ تو درکنار اپنے صوبے کے لوگ اندرون صوبہ سفرکرنے سے گریز کرتے تھے اب بھی اگرچہ اکا دکا وارداتیں ہورہی ہیں تاہم انہیں کنٹرول کرنے کی ضرورت ہے اس حوالے سے صوبے کی قومی شاہراہوں کو محفوظ بنانے کی ضرورت ہے اس حوالے سے میرے پاس ایک تجویز بھی ہے جو میں وزیراعظم سمیت ملک کی اعلیٰ سیاسی و عسکری قیادت کو بھجواچکا ہوں وہ تجویز یہ ہے کہ صوبے کی تمام قومی شاہراہوں پرہر دس کلو میٹر پر ایک چیک پوسٹ یا پکٹ بنائی جائی یہاں پر ہرپوسٹ پر 15اہلکار تعینات ہوں جن کے پاس جدید ہتھیار ،کمیونیکشن کا نظام ،گاڑیاں اوردیگر سہولیات ہوں اگر ان دو پوسٹوں کے درمیان کوئی واردات ہوبھی جاتی ہے تو جدیدکمیونیکیشن کے ذرائع استعمال کرکے اطلاع دی جاسکتی ہے اوربیک وقت قریبی پوسٹوں سے چالیس سے پچاس اہلکار جائے واردات پر پہنچ کر دہشتگردوں کے خلاف کارروائی کرسکیں گے اس سے قومی شاہراہیں محفوظ ہوجائیں گی۔

انہوں نے کہا کہ ہماری پانچ بڑی قومی شاہراہیں جن پر مجموعی طورپر400چیک پوسٹیں بناکر 4ہزار اہلکارتعینات کئے جاسکتے ہیں اس منصوبے پر ایک بار 4ارب روپے کے قریب خرچہ آئے گا جسکے بعد سالانہ ڈیڑھ ارب روپے سے زیادہ اخراجات نہیں ہونگے اوریہ صوبے کو محفوظ بنانے کیلئے کوئی بہت بڑی رقم نہیں ہوگی ۔انہوں نے کہا کہ اگر اس تجویز پر حکومت نے پیش رفت نہ کی تو مسلم لیگ(ن) تحریک چلانے پر مجبور ہوگی۔

انہوں نے کہا کہ وزیراعظم عمران خان وزراء کے قلمدان تبدیل کرنے کی بجائے عوام کے حقیقی مسائل مہنگائی ،بے روزگاری ،تعلیم اورصحت کے منصوبوں پر توجہ دے اقتدار میں آنے سے قبل وہ آئی ایم ایف ،تعلیم صحت،بے روزگاری اورپٹرولیم کی مصنوعات کے حوالے سے جو باتیں کرتے تھے آج وہ کہاں ہیں ہماری جماعت کے صدرمیاں شہباز شریف نے قومی اسمبلی میں اپنے پہلے ہی خطاب میں حکمرانوں کو میثاق معیشت کی تجویز دی جس سے عوام کے مسائل حل ہوسکتے تھے مگر حکمرانوں نے اس جانب توجہ نہ دی ۔

انہوں نے کہا کہ ہم کرپشن کے سخت ترین مخالف ہیں لیکن عمران خان کرپشن کی باتیں کرنے کی بجائے نیب اورمتعلقہ اداروں کو اپنا کام کرنے دیں ۔انہوں نے کہا کہ ملک میں 18ویں ترمیم ختم کرنا کوئی آسان کام نہیں اس کیلئے دو تہائی اکثریت کی ضرورت ہوگی تاہم ملک میں صدارتی نظام کی باتیں کی جارہی ہیں جو دراصل وزیراعظم غیر منتخب افراد کو وفاقی وزیراورمشیربناکر اسکا آغاز کرچکے ہیں دراصل صدارتی نظام میں بھی غیرمنتخب افراد کو وزارتیں دی جاتی ہیں صدارتی نظام سے چھوٹے صوبوں کی حق تلفی ہوگی مزید تجربے کرنے کی بجائے عوامی مسائل حل کئے جائیں۔

کوئٹہ میں شائع ہونے والی مزید خبریں