تمام افسران کے قانون کے مطابق کام کرنے کے پابند ہیں وہ وزیراعلیٰ اور وزراء کے غیر قانونی احکامات پر عمل درآمد نہ کریں ، جسٹس جمال مندوخیل

صوبے میں حکومتی سطح پر پلاننگ کی کمی اور کیا ہوسکتی ہے ،پلاننگ کے بغیر بلڈنگزبنائی جارہی ہیں ، جہاں صرف کمرے کی ضرورت ہوتی ہے وہاں دس کمرے بنائے جاتے ہیں،یہ وسائل کا ضیاع نہیں تو اور کیا ہے، چیف جسٹس بلوچستان ہائیکورٹ

بدھ 11 دسمبر 2019 23:51

.کوئٹہ (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 11 دسمبر2019ء) چیف جسٹس بلوچستان ہائی کورٹ جسٹس جمال مندوخیل نے کہاہے کہ تمام افسران کے قانون کے مطابق کام کرنے کے پابند ہیں وہ وزیراعلیٰ اور وزراء کے غیر قانونی احکامات پر عمل درآمد نہ کریں سیکرٹری ایس اینڈ جی ڈی کو کس قانون کے تحت اس عہدے پر تعینات کیاگیا ہے کل اگر کوئی درخواست اس کے تعیناتی کے خلاف آتی ہے تو توہین عدالت کی کارروائی کرینگے، صوبے میں حکومتی سطح پر پلاننگ کی کمی اور کیا ہوسکتی ہے پلاننگ کے بغیر بلڈنگ بنائی جارہی ہیں جہاں پر صرف کمروں کی ضرورت ہوتی ہے وہاں پر دس کمرے بنائے جاتے ہیں یہ وسائل کا ضیاع نہیں تو اور کیا ہے لوگ کہتے ہیں کہ عدالت آفیسران کو ریلیف دے رہا ہے لیکن حالات ایسے نہ بنائے جائے کہ توہین عدالت کے کارروائی کرنے پڑے یہ ریمارکس بلوچستان ہائی کورٹ کے چیف جسٹس جمال خان مندوخیل اور جسٹس عبداللہ بلوچ پر مشتمل بنچ نے شیخ عالم مندوخیل برخلاف حکومت بلوچستان کی درخواست کی سماعت کے دوران دیں سماعت کے دوران درخواست گذار نے عدالت عالیہ کو بتایا کہ حکومت نے پی ایس ڈی پی بناتے ہوئے سپریم کورٹ اور ہائی کورٹ کی احکامات کی کھلم کھلا خلاف ورزی کی ہے جو کہ توہین عدالت کے زمرے میں آتی ہے حکومت نے بجٹ میں وزیراعلیٰ کے صوابیدی اختیار پر اربوں روپے مختص کیے ہیں جو کہ خلاف قانون ہے۔

(جاری ہے)

پی اینڈ ای نے 29 آر او تعینات کیے ہیں جنہوں نے آج تک سائٹس کا دورہ نہیں کیا اور نہ کوئی اس سلسلے میں رپورٹ جمع کرائی ہے سب کچھ پی اینڈ ڈی کے بلڈنگ کے اندر بنایا جارہاہے۔ سکریڑی اہم ترین عہدوں نان کیڈر لوگوں کو تعینات کیا گیا ہے ایڈیشنل چیف سیکرٹری بلوچستان نے عدالت عالیہ کو بتایا کہ سب کچھ قانون کے مطابق ہورہاہے اس میں مزید بہتری لانے کے لئے کوششیں کررہے ہیں عدالت کو ہمیں داد دینا چاہئے ہم جس قدر اچھا کام کررہے ہیں ۔

جسٹس جمال مندوخیل نے ایڈوکیٹ جنرل کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ سیکرٹری ایس اینڈ جی اے ڈی کوکس قانون کے تحت لگایا گیا ہے ۔کیا اس نان کیڈر افیسر کو حکومت خود ہٹائی گئی یا ہمیں آرڈر کرنا پڑے گا اگر ایس انیڈ جی اے ڈی کی تعیناتی کے حوالے سے ہوئی درخواست گزار آیا تو توہین عدالت کی کارروائی ہوگی، اگر گریڈ 19 کا سکریٹری ایس اینڈ جی اے ڈی اتنا قابل آفیسر ہے تو اسکو حکومت سی ایم ائی ٹی تعینات کرکے انکے خدمات سے استفادہ لیا جائے ایڈوکیٹ جنرل نے عدالت کو بتایا کہ اس کو ہٹانے پر کام ہو رہا ہے بہت جلد تبادلے کے آرڈرز کورٹ کے سامنے جمع کرائیں گے وہ یقین دھانی کراتے ہیںجسٹس جمال مندوخیل نے ایڈیشنل چیف سیکرٹری کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ عدالت عالیہ کے سامنے ایک ایکسین بیان دے چکے ہیں اگر وہ سرکار کے لئے ایک کمرہ بناتے ہیں تو اس پر لاگت 30 لاکھ آتی ہے جبکہ اگر وہ وہی کمرہ اپنے گھر میں بناتے ہیں اس بہتر حالت میں 7 لاکھ روپے کا بن جاتا ہے جب حالت یہ ہو کہ 21 لاکھ روپے زیادہ خرچ کرنے کے باوجود کمرے کی حالت پرائیویٹ طورپر بنائے گئے کمرے کے جیسے نہ ہو تو تب ایسے میں کس کے خلاف کارروائی ہونی چاہئی کنسلٹنٹ کے نام پر بہت سارے لوگوں کی مختلف پروجیکٹس میں خدمات لی گئی ہیں جن کو 6 فیصداسکمیات سے ادا ہوتی ہے اگر ہمارے اپنے لوگ کام کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتے تو چیف انجینئرز کی کس مقصد کے لئے بیٹھے ہوئے ہیں تربت ہائی کورٹ بنانے کے لئے بڑی رقم مختص کی گئی تھی جس کا نقشہ جس کنسلٹنٹ سے ڈیزائن کرایا گیا تھا وہ ہائی کورٹ کے لئے درکارکمروں سے بہت بڑی تھی لیکن جب میں نے اور جسٹس نعیم اختر افغان نے جب اس کا وزٹ کیا کنسٹلنٹ نے ہمیں بریفنگ دی تو اس میں بہت ساری چیزیں غیر ضروری تھی جس کو ہم ختم کیا تو اس سے بلڈنگ کی کاسٹ آدھی گر گئی جب ہم کنسٹلنٹ سے پوچھا کہ آپ غیر ضروری چیزیں کیوں شامل کی تو انہوں نے بتایا کہ محکمہ نے ان کو زیادہ بڑی بلڈنگ بنانے کاکہا تھا ہائی کورٹ سبی بنچ میں 5کمرے آج تک ایسے ہیں جس کو بلڈنگ بنانے تک نہیں کھولا گیا ہے۔

ریذیڈینشنل کالج کے اندر8 فٹ فٹ پاتھ اور غیر ضروری طورپربہت بڑے ڈبل روڈ بنائے گئے ہیں۔ پی ایس ڈی پی میں جاری سکیمات کیلئے کم رقم کیوں مختص کی گئی ہیں ژوب میں ایک ہسپتال میں گزشتہ پانچ سال سے بن رہا ہے لیکن تکمیل اب تک نہیں ہوئی ہے۔ جس کے لیے جو رقم جاری کی گئی ہے وہ انتہائی ناکافی ہیں فاطمہ جناح ہسپتال کوئٹہ میں پروجیکٹ شروع کیا گیا ہے جبکہ صرف پانچ کروڑ روپے صرف دیے گئے ہیں کچلاک بائی پاس جو ایک عوامی نوعیت کا منصوبہ ہے جس پر کئی سالوں سے کام چل رہا ہے لیکن اب تک حکومتی عدم دلچسپی کی وجہ سے تعطیل کا شکار ہے حب بائی پاس کس قانون کے تحت صوبائی حکومت اپنی حصے سے بنا رہی ہے جبکہ اسکی ملکیت این ایچ اے کی ہے۔

آپ کو اگر یہ پیسے لازمی حب میں خرچ کرنے تھا تو حب میں کسی اور عوامی منصوبے پر خرچ کر لیتے شرطیہ طور پر کہتا ہوں کہ کچھ دنوں بعد یہ روڈ دوبارہ ٹوٹ جائے گا۔ کیونکہ ہائی ویز کیلئے درکار میعار برقرار رکھنا سی انیڈ ڈبلیو کیلئے ممکن نہیں ہے نواں کلی بائی پاس ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے لیکن اس جانب کوئی توجہ نہیں دی گئی ہے یہاں پر اسکیمات بنائے جاتے ہیں تو تصاویر بنانے والوں کی ایک بڑی تعداد میدان میں ہوتی ہے۔

لیکن اس کے بعد اسکیم کا افتتاح ہوتا ہے تو کام ادھورا چھوڑ کر کے کوئی اس کا دیکھ بھال کرنے والا نہیں ہوتا۔ چیف جسٹس نے ایڈیشنل چیف سیکرٹری بلوچستان مخاطب کیا کہ کیا آپ کو میری بات سمجھ نہیں آرہی ہے چیف اکانومسٹ نے خود عدالت میں بیان دیاہے کہ پانچ سال تک جاری منصوبوں پر اگر مسلسل کام ہو تو اس کی تکمیل ممکن ہے۔ انہوں نے کہا کہ توہین عدالت کی مثال یوں ہے کہ جس طرح اسلام نے مرد کو طلاق کا اختیار تو دیا ہے لیکن اس کو ساتھ پسندیدہ فعل قرار دیا ہے لوگ ہم سے کہتے ہیں کہ عدالت رعایت کرتی ہے ہم رعایت درگزر کرتے ہیں ورنہ توہین عدالت کی کارروائی کرنا کوئی مشکل کام نہیں ہے ہم نہیں چاہتے دے کہ ہم توہین عدالت کی کارروائی کریںانہوں نے ایڈیشنل چیف سیکریٹری بلوچستان کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ منسٹر اور ایم پی اے کا پی انیڈ ڈی کے معاملات میں کیا کام ہیں ان کو بتا دیں کہ پی انیڈ ڈی کے معاملات میں مداخلت نہ کریں آپ وزیراعلی اور وزیروں کے غیر قانونی احکامات یکسر مسترد کرے عدالت آپ کے ساتھ ہیںاگلی پی ایس ڈی پی کے سلسلے میں حکومت کو سختی سے ہدایت دی جاتی ہے کہ پہلے سے جاری اسکیمات کیلئے پیسہ نہیں رکھا گیا تو پی ایس ڈی پی کو کالعدم قرار دیں گے سب سے زیادہ پیسہ پی ایچ ای کو دیا گیا ہے لیکن اس کے باوجود شہروں میں پانی کا مسئلہ ہے۔

پشین میں چھ کروڑ روپے پی ایچ ای نے واپس کیوں لیا ہے یہاں پر جو ایکسین یا ٹھیکیدار جو بھاگ دوڑ کرتا ہے اس کو پیسے مل جاتے ہیں باقی دیکھتے رہتے ہیں ایسا سسٹم متعارف کرایا جائے جو پی انیڈ ڈی سے ریلیز کے بعد پیسے فنانس سے ڈائریکٹ متعلقہ محکمے میں چلے جائیں پی ایس ڈی پی میں دیگر کے نام 36 ارب روپے رکھے گئے ہیں اس کی وضاحت کی جائے یہ کس مقصد کیلئے رکھے گئے ہیں پی ایس ڈی پی میں شامل تمام اسکیمات جو پلاننگ کمیشن کے گائیڈ لائن کے مطابق نہیں ہوگا وہ خلاف قانون ہے کڈنی سینٹر کہ مین بلاک تکمیل کے لئے فوری طور پر رقم جاری کی جائے جبکہ دیگر کام مراحلہ وار کرایا جائے عدالت عالیہ نے کیس کی سماعت 19 تاریخ تک ملتوی کردی۔

کوئٹہ میں شائع ہونے والی مزید خبریں