بلوچستان کے ساحل و وسائل یہاں کے عوام کی ملکیت ہیں،سابق سینیٹر میر کبیر احمد محمدشہی

بلوچ قوم ریکوڈک پر اسلام آباد اور اسکی کٹھ پتلی صوبائی حکومت کی جانب سے کی جانے والی خفیہ سودے بازی کو کسی صورت قبول نہیں کرے گی ،مرکزی سینئر نائب صدر نیشنل پارٹی

اتوار 23 جنوری 2022 00:26

کوئٹہ(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 22 جنوری2022ء) نیشنل پارٹی کے مرکزی سینئر نائب صدر و سابق سینیٹر میر کبیر احمد محمدشہی نے کہا ہے کہ بلوچ قوم ریکوڈک پر اسلام آباد اور اسکی کٹھ پتلی صوبائی حکومت کی جانب سے کی جانے والی خفیہ سودے بازی کو کسی صورت قبول نہیں کرے گی اور میں نے آج پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ کے اجلاس میں بھی یہ مدعا رکھا کہ ریکوڈک کی فروخت کی سازش روکنے میں تمام جماعتیں نیشنل پارٹی کا ساتھ دیں۔

انہوں نے کہا کہ بلوچستان کے ساحل و وسائل یہاں کے عوام کی ملکیت ہیں اور ان سے متعلق فیصلہ بھی بلوچستان کے مفادات کو مدنظر رکھ کر اور شفاف طریقے سے عوام کو اعتماد میں لے کر ہونا چاہیئے تاہم پاکستان کی حکمران اشرافیہ کی یہ روایت رہی ہے کہ انہوں نے ہمیشہ بلوچستان کو محکوم اور محروم رکھ کر یہاں کے وسائل کی لوٹ مار کی ہے 1952 سے سوئی سے نکلنے والی گیس نے پورے ملک کی صنعتوں کو چلایا اور لوگوں کے چولہوں کو جلایا مگر بلوچستان بشمول ڈیرہ بگٹی آج ستر سال گزرنے کے بعد بھی نہ صرف گیس کی سہولت سے محروم ہے بلکہ اس سے ہونے والی آمدن سے بھی اسلام آباد نصف صدی سے زیادہ عرصہ اپنا پیٹ بھرتا رہا ہے جبکہ بلوچستان کے حصہ میں صرف فوج کشی اور استحصال آیا اور اب انکی نظریں ریکوڈک پر لگی ہوئی ہیں۔

(جاری ہے)

یہ پہلی بار نہیں بلکہ کئی دہائیوں سے اسلام آباد کے منافع خور اپنی مقامی کٹھ پتلیوں کے زریعے عالمی سرمایہ دار کمپنیوں کے ساتھ مل کر ریکوڈک کا سودا کرنے کی کوششوں میں لگے ہوئی ہیں اور اسی وجہ سے بیرونی کمپنی کی مرضی کے معدنی قوانین بناکر نہ صرف بین الاقوامی ٹریبیونل بلکہ پورے دنیا کے سامنے ملک کی جگ ہنسائی کروائی گئی اسی ضلع چاغی میں سیندک منصوبہ استحصال کی ایک جامع مثال ہے کہ جہاں دو دہائیوں میں اسلام آباد اور چینی کمپنی دیمک کی طرح سارا سونا اور تانبا چاٹ گئے جبکہ بلوچستان کو زکوات کے برابر حصہ بھی نہیں مل سکا اور مذکورہ علاقہ آج تک بنیادی سہولیات سے بھی محروم ہے۔

گوادر پورٹ کے نام پر سی پیک سے ملک میں 64 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری لائی گئی مگر گوادر آج بھی پینے کے پانی سے محروم ہے اور الٹا مقامی ماہیگیروں کے منہ کا نوالہ چھیننے کے لیے بلوچستان کا سمندر غیرقانونی شکار اور آبی حیات کی نسل کشی کے لیے غیر ملکی اور بین الصوبائی ٹرالر مافیا کے حوالے کردیا گیا ہے۔ اٹھارہویں ترمیم سے پہلے بھی معدنیات صوبائی سبجیکٹ تھے مگر اسلام آباد نے ہمیشہ اپنی مقامی کٹھ پتلیوں کو آگے لاکر صوبائی معاملات میں مداخلت کی ہے اور اسکی قیمت سیندک کی لوٹ مار اور ریکوڈک تنازعہ کی صورت میں بلوچستان کو ادا کرنی پڑی ہے اب ایک بار پھر سے سیندک کی طرز پر ریکوڈک کی فروخت کی تیاری ہورہی ہے۔

معدنیات کے معاہدے کو عوام سے خفیہ رکھنا اور اس پر ان کیمرہ اجلاس اور خفیہ راز و نیاز کا کوئی جواز نہیں بلکہ یہ مشکوک طرز عمل کسی سازش کی طرف اشارہ کرتی ہے۔ ہم مقتدر قوتوں کو کسی صورت یہ اجازت نہیں دینگے کے انتخابات میں دھاندلی کرکے کٹھ پتلی حکومتیں قائم کریں اور پھر انکے زریعے بلوچستان کے وسائل کا سودا کرایا جائے بلوچ عوام انکا طریقہ واردات سمجھ چکے ہیں اور اسے مسترد بھی کرچکے ہیں۔

انہوں نے مزید کہا کہ نیشنل پارٹی اس سلسلے میں تحریک کا آغاز کرچکی ہے اور پی ڈی ایم اجلاس میں بھی ہم نے یہ مدعا رکھا ہے کہ ریکوڈک کی فروخت روکنے میں تمام جماعتیں ہمارا ساتھ دیں۔ ہم واضح طور پر بتانا چاہتے ہیں کہ نیشل پارٹی بلوچ مفادات کے برخلاف کوئی معاہدہ قبول نہیں کریگی اور عوامی طاقت سے وسائل کی لوٹ مار کی سازشوں کو ناکام بنائیگی۔

کوئٹہ میں شائع ہونے والی مزید خبریں