خلیل کے اہل خانہ واقعہ کی تفتیش کیلئے بنائی گئی مشترکہ تحقیقاتی ٹیم کی کارکردگی سے مطمئن نہیں ہیں، احتشام امیر الدین

ساہیوال واقعہ میں سی ٹی ڈی کے سب انسپکٹر کی مدعیت میں درج پہلی ایف آئی آر کو خارج کیا جائے ،واقعہ میں بچ جانیوالے بچے کا بیان انتہائی اہم ہے جسے کسی صورت مسترد نہیں کیا جاسکتا، اگر اسی طرح تفتیش جاری رہی تو متاثرہ خاندان کو کس طرح انصاف مل سکے گا، سانحہ ساہیوال کے متاثرہ خاندان کے وکیل کی نجی ٹی وی سے گفتگو

بدھ 6 فروری 2019 20:26

ساہیوال (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 06 فروری2019ء) سانحہ ساہیوال میں متاثرہ خاندان کے وکیل احتشام امیر الدین نے کہا ہے کہ جاں بحق خلیل کے اہل خانہ واقعہ کی تفتیش کیلئے بنائی گئی مشترکہ تحقیقاتی ٹیم کی کارکردگی سے مطمئن نہیں ہیں،ساہیوال واقعہ میں سی ٹی ڈی کے سب انسپکٹر کی مدعیت میں درج پہلی ایف آئی آر کو خارج کیا جائے ،واقعہ میں بچ جانیوالے بچے کا بیان انتہائی اہم ہے جسے کسی صورت مسترد نہیں کیا جاسکتا، اگر اسی طرح تفتیش جاری رہی تو متاثرہ خاندان کو کس طرح انصاف مل سکے گا۔

نجی ٹی وی سے گفتگو کرتے ہوئے متاثرہ خاندان کے وکیل احتشام امیر الدین نے کہا کہ خلیل کے اہل خانہ کا مطالبہ تھا کہ ساہیوال واقعہ میں سی ٹی ڈی کے سب انسپکٹر کی مدعیت میں درج ہونیوالی پہلی ایف آئی آر کو خارج کیا جائے جس میں کہا گیا تھا کہ خلیل، ان اہلیہ، بیٹی اور دوست ذیشان دہشت گردوں کی فائرنگ سے جاں بحق ہوئے اور ان کی گاڑی سے اسلحہ اور خود کش جیکٹس برآمد ہوئیں۔

(جاری ہے)

انہوں نے کہا کہ بدقسمتی سے آج جب متاثرہ خاندان جے آئی ٹی کے سامنے پیش ہوا تو ان کے اس مطالبہ کو مسترد کردیا گیا اور اسی وجہ سے ان کا تفتیش پر اعتماد ختم ہوگیا، لہٰذا خاندان کے کسی فرد نے بھی اپنا بیان ریکارڈ نہیں کروایا۔ انہوںنے کہا کہ سب سے پہلے تو جے آئی ٹی کو جائے وقوع سے شواہد جمع کرنے چاہئیں تھے اور پھر ایک اہم بات کہ واقعہ میں بچ جانیوالے بچے کا بیان انتہائی اہم ہے جسے کسی صورت بھی مسترد نہیں کیا جاسکتا۔

احتشام امیر الدین نے کہا کہ واقعہ کے بعد بچے نے ہسپتال پہنچ کر جو ویڈیو بیان ریکارڈ کروایا وہ اس کیس میں بہت اہمیت رکھتا ہے اور قانون کی رو سے اگر بچہ 10 سال کا ہو تو اس کے بیان کو شامل تفتیش کیا جاسکتا ہے۔انہوں نے کہا کہ میں آپ کو 100 ایسے کیسز کی مثالیں دے سکتا ہوں جہاں بچوں کی گواہیوں پر ملزمان کو سزائیں ہوئیں۔ایک سوال کہ اب تک کی تفتیش میں کیا یہ بات حتمی طور پر معلوم ہوسکی کہ واقعے میں کل کتنے سی ٹی ڈی اہلکار شامل تھی پر انہوں نے کہاکہ یہی اعتراض ہمیں جے آئی ٹی سے ہے کہ کیا یہ بھی معلوم نہیں کیا جاسکتا کہ ا س وقت کون کون سے اہلکار ڈیوٹی پر تھے تاکہ ان سے تفتیش کی جاسکے۔

انہوں نے کہا کہ جب ہمیں ابھی تک پولیس اہلکاروں کا پتہ ہی نہیں لگا سکے تو آگے انصاف کے تقاضے کیسے پورے ہوں گے۔احتشام امیر الدین نے کہا کہ خلیل کے اہل خانہ پہلی ایف آئی آر کو خارج کروانے کیلئے اب ہائیکورٹ سے رجوع کرنا چاہتے ہیں، لیکن ایک بڑا مسئلہ یہ ہے کہ انہیں اس پہلی ایف آئی آر کی نقل فراہم نہیں کی جارہی جو سی ٹی ڈی کی طرف سے درج کی گئی تھی۔

انہوں نے کہا کہ اہل خانہ کے بار بار اصرار پر جب انہیں ایف آئی آر کی نقل فراہم کی گئی تو وہ نہ صرف پہلی ایف آئی آر سے مختلف تھی، بلکہ اس میں گاڑی کا نمبر بھی غلط لکھا گیا تھا۔انہوں نے بتایا کہ تیسری بار جب پنجاب حکومت کے ترجمان شہباز گل نے ایف آئی آر کی کاپی دی تو بھی اس میں گاڑی کا ایک نیا نمبر درج تھا جو ہاتھ سے لکھی گئی ایف آئی آر سے مختلف تھا۔ انہوں نے سوال کیا کہ آخر کس وجہ سے اس ایف آئی آر کو خارج نہیں کیا جارہا اور اگر اسی طرح تفتیش جاری رہی تو متاثرہ خاندان کو کس طرح انصاف مل سکے گا۔

ساہیوال میں شائع ہونے والی مزید خبریں