سوات آپریشن میں گرفتار کئے گئے شدت پسندوں کی عدالتوں سے رہائی پر عوامی تشویش بجا ہے ،موجودہ قوانین میں تبدیلی لائے بغیر شدت پسندوں کے خلاف عدالتوں میں جرم ثابت کرنا بہت مشکل ہے،ملاکنڈ ڈویژن میں پاکستانی فوج کے کمانڈر میجر جنرل غلام قمر کاانٹرویو

بدھ 12 دسمبر 2012 23:28

خوازہ خیلہ/لندن(اُردو پوائنٹ اخبار تازہ ترین۔آئی این پی۔12دسمبر۔ 2012ء) ملاکنڈ ڈویژن میں پاکستانی فوج کے کمانڈر میجر جنرل غلام قمر نے کہا ہے کہ موجودہ قوانین میں تبدیلی لائے بغیر سوات میں فوجی آپریشن کے دوران گرفتار کیے جانے والے شدت پسندوں کے خلاف عدالتوں میں جرم ثابت کرنا بہت مشکل ہے۔ بدھ کووادی سوات کے ضلع خوازہ خیلہ میں اپنے دفتر میں برطانوی نشریاتی ادارے کودیئے گئے ایک انٹرویو میں انہوں نے کہا کہ پاکستان میں آج تک جتنے بھی انسداد دہشت گردی کے قوانین بنے ہیں، ان میں بہت سی خامیاں ہیں ان قوانین میں بہت سی تبدیلیاں لانے کی ضرورت ہے کیونکہ جس طریقے سے دہشت گردی کے خلاف آپریشنز ہوئے ان میں تمام اس طریقے سے ثبوت فراہم نہیں کیے جا سکتے اور نہ ہی ان قوانین پر عمل کیا جا سکتا ہے جو ابھی ہیں۔

(جاری ہے)

انہوں نے کہا کہ سوات میں آپریشن کے دوران گرفتار شدہ شدت پسندوں کی عدالتوں سے رہائی پر عوامی تشویش بالکل بجا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ اس صورتحال سے کسی حد تک نمٹنے کے لیے ایک عارضی قانون لایا گیا ہے جس کے ذریعیگرفتار شدت پسندوں کو حراست میں رکھا جا سکتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ دہشت گردی کے مقدمات کے لیے مزید قانونی تبدیلیاں بھی لائی جا رہی ہیں۔

اس سوال پر کہ سوات آپریشن کے دوران گرفتار کیے گئے شدت پسندوں کے خلاف عدالتوں میں جرم ثابت کیوں نہیں ہو رہے؟ انہوں نے کہا کہ ہماری حتی الوسع یہ کوشش ہوتی ہے کہ عدالت کے سامنے ملزم کو تمام شواہد اور ثبوتوں کے ساتھ پیش کیا جائے۔ لیکن اس کے بعد عدالت کا کام ہوتا ہے، یہ اس کی صوابدید ہوتی ہے۔ جو عدالت حکم دے گی وہ سب کے لیے ماننا لازم ہے۔انہوں نے کہا کہ گواہوں کی عدم دستیابی کے باعث جو شدت پسند رہا ہو رہے ہیں ان کی کڑی نگرانی کی جا رہی ہے۔ قانون نافذ کرنے والے اداروں کے علاوہ مقامی عمائدین بھی ان افراد پر کڑی نظر رکھے ہوئے ہیں اس لیے ان کی طرف سے شدت پسندی میں دوبارہ ملوث ہونے کا امکان نہیں ہے۔

متعلقہ عنوان :

سوات میں شائع ہونے والی مزید خبریں