نئی امریکی پالیسی افغانستان و پاکستان دونوں پر لاگو ہوگی،مشیر امریکی قومی سلامتی

آئندہ چند ہفتوں کے اختتام پر ہمارے پاس افغانستان، پاکستان اور بالعموم خطے کے مسائل کے حل کے لیے کہیں زیادہ موثر حکمت عملی موجود ہوگی،انتظامیہ ہزاروں کی تعداد میں اضافی فوجیوں کو افغانستان روانہ کرنے کی پیشکش پر غور کررہی ہے ،صدر ڈونلڈ ٹرمپ اپنے غیر ملکی دورے سے واپس آنے کے بعد اس کا فیصلہ کریں گے جنرل ایچ آر میک ماسٹر کی وائٹ ہائو س میں نیوز بریفنگ

پیر 15 مئی 2017 13:41

نئی امریکی پالیسی افغانستان و پاکستان دونوں پر لاگو ہوگی،مشیر امریکی قومی سلامتی
واشنگٹن(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آئی این پی۔ 15 مئی2017ء) امریکی قومی سلامتی کے مشیر جنرل ایچ آر میک ماسٹر نے کہا ہے کہ ٹرمپ انتظامیہ ایک ایسی پالیسی پر کام کررہی ہے جس کا اطلاق پاکستان اور افغانستان دونوں پر کیا جاسکے اور جلد ہی اس پالیسی کا اعلان کردیا جائے گا۔غیر ملکی میڈیا کے مطابق وائٹ ہائو س میں نیوز بریفنگ کے دوران جنرل میک ماسٹر کا کہنا تھا کہ آئندہ چند ہفتوں کے اختتام پر ہمارے پاس افغانستان، پاکستان اور بالعموم خطے کے مسائل کے حل کے لیے کہیں زیادہ موثر حکمت عملی موجود ہوگی۔

مشیر قومی سلامتی کے مطابق انتظامیہ ہزاروں کی تعداد میں اضافی فوجیوں کو افغانستان روانہ کرنے کی پیشکش پر غور کررہی ہے اور صدر ڈونلڈ ٹرمپ اپنے غیر ملکی دورے سے واپس آنے کے بعد اس کا فیصلہ کریں گے۔

(جاری ہے)

خیال رہے کہ افغانستان میں امریکی فورسز کے کمانڈر جنرل جون نکلسن نے رواں سال کے آغاز میں کانگریس کی سماعت کے دوران مزید چند ہزار امریکی فوجیوں کی درخواست کی تھی، اس وقت افغانستان میں موجود امریکی فوجیوں کی تعداد 8 ہزار 400 ہے جبکہ ساڑھے 4 ہزار نیٹو اور دیگر اتحادی ممالک کے فوجی بھی افغانستان میں تعینات ہیں۔

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے سیکریٹری دفاع جیمز میٹس کو عراق اور شام میں فوجیوں کی تعداد طے کرنے کا اختیار تفویض کیا ہے تاہم افغانستان کے حوالے سے فیصلے وائٹ ہاس سے ہی ہوتے ہیں جبکہ جنرل میک ماسٹر اس اعلی مشیران سلامتی کی ٹیم کی سربراہی کررہے ہیں جو پاک افغان خطے کے لیے پالیسی تیار کرے گی۔جنرل میک ماسٹر کے مطابق اس پالیسی کا اطلاق پورے جنوبی ایشیائی خطے پر بھی ہوسکے گا۔

خیال رہے کہ گذشتہ ہفتے جنرل میک ماسٹر نے چند سفارشات امریکی صدر کو روانہ کی تھیں جس میں یہ تجویز بھی شامل تھی کہ افغانستان میں 5 ہزار فوجی روانہ کیے جائیں جبکہ امریکا کے نیٹو اتحادی ممالک سے بھی مزید فوجیوں کو بھیجنے کا مطالبہ کیا جائے۔اس بارے میں مزید تفصیلات فراہم کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ امریکا کو اپنے اتحادیوں کے ساتھ مل کر افغانستان کے حوالے سے مزید آپشنز سامنے لانے کے لیے وقت درکار ہے۔

امکان ظاہر کیا جارہا ہے کہ امریکی صدر سعودی عرب میں منعقد ہونے والے 20 اسلامی ممالک کے اجلاس میں شرکت کے دوران مسلم ممالک سے انسداد دہشت گردی کی امریکی پالیسیوں پر بات کریں گے۔امریکی میڈیا کے مطابق ڈونلڈ ٹرمپ سعودی عرب کے ساتھ 100 ارب ڈالر کے اسلحہ کے معاہدے کو حتمی شکل دینے میں مصروف ہیں اور اپنے دورے سعودی عرب کے دوران اس معاہدے کا بھی اعلان کرسکتے ہیں۔

امریکی صدر اسرائیل کا دورہ بھی کریں گے جبکہ روم میں ہونے والے نیٹو اجلاس میں اپنے اتحادیوں کو نئی افغان پالیسی سے آگاہ کرسکتے ہیں۔اس سوال کے جواب میں کہ کیا امریکی صدر کے دورے سب سے پہلے امریکا مہم کے نعرے میں ہونے والی تبدیلی کو ظاہر کرتے ہیں، جنرل میک ماسٹر نے کہا کہ سب سے پہلے امریکا کا مطلب کبھی یہ نہیں رہا کہ امریکا قیادت نہیں کرے گا۔

انہوں نے مزید کہا کہ ٹرمپ اپنے دورہ سعودی عرب میں امن کے فروغ ،داعش، القاعدہ، ایران،اور شام کے حوالے سے اہم اقدامات پر بھی بات چیت کریں گے۔جنرل میک ماسٹر کا کہنا تھا کہ امریکی صدر امید کرتے ہیں کہ مسلم اتحادی ممالک بنیاد پرست اسلامی نظریے کے خلاف مثر کارروائی کریں گے۔جب ان سے پوچھا گیا کہ ٹرمپ ریاض اور برسلز میں کن معاملات پر اظہار خیال کریں گے تو امریکی مشیر سلامتی نے کہا کہ وہ افغانستان میں بنیادی مقاصد کے حصول کے لیے متحد رہنے کی ضرورت پر زور دیں گے جس کا ایک پہلو یہ ہے کہ انتہاپسندوں کو اپنی سرزمین سے دہشت گرد حملوں کی اجازت نہ دی جائے۔

سوات میں شائع ہونے والی مزید خبریں