Tum Log Yahan Baithy Ho, Urdu Nazam By Ahmad Hamesh

Tum Log Yahan Baithy Ho is a famous Urdu Nazam written by a famous poet, Ahmad Hamesh. Tum Log Yahan Baithy Ho comes under the Social category of Urdu Nazam. You can read Tum Log Yahan Baithy Ho on this page of UrduPoint.

تم لوگ یہاں بیٹھے ہو

احمد ہمیش

تم لوگ یہاں بیٹھے ہو

تم لوگ یہاں اس لیے بیٹھے ہو کہ

جو تم میں سے یہاں نہیں ہے

اسے وہاں سے اٹھا دیا گیا ہے

تم میں سے کوئی پرتگال نہیں گیا

لیکن تمہارے درمیان میز اور کرسیاں ہیں

جو دنیا تم کو دکھانے کے لئے کافی ہے

اس سے بڑھ کر بھی کوئی دکھ ہوگا

جتنا سوچو گے بھولتے جاؤ گے

مسلہ

موسیقی یا عورتیں اور آب و ہوا بچے

اخبار یا غذاؤں کے نام

یہاں تک کہ نیند آ جاتی ہے

یا وہ ایک بوڑھا جس کے پاؤں

میدانوں میں چلتے چلتے ختم ہوئے

اس کی فصل اس کے پرانے چہرہ کو

گالی دے اس پر پھینک دی گئی

ناریل کا بنا ہوا حقہ بھی اور اس میں جو جلا ہوا پانی ہوتا ہے وہ بھی تم لوگ

اس کمرے میں آ گئے

تمہارے سامنے میز پر ایش ٹرے میں ابھی ابھی جبکہ ملک کی گھڑیوں میں رات کے ۹ بج رہے ہیں

ایک سگریٹ کا جلتا ہوا فلٹر ختم ہو رہا ہے

میں تم سب کے بارے میں بہت کچھ کہنا چاہتا ہوں کچھ بہت ضروری بھید ہیں

لیکن اگر کہہ دوں تو بہت برا ہوگا

تمہاری گردنیں مجھے انسانی شکل میں دکھائی نہیں دیتیں

یہ گردنیں جسم کا فلٹر ہیں

جسم تفصیلات میں جل گئے اب فلٹر جل رہے ہیں

یہ میں نہیں بتاؤں گا کہ تمہیں کس نے جلا جلا کے پیا

مذہب نے اس جسم میں تمہارے اس کمرے میں جیسے ان گنت کمرے بنائے اور ہر کمرہ آگ

جلائے رکھنے کی ترکیب بتائی

میں تم میں سے ایک تھا تمہارے درمیان مصیبت میں خدا کا نام سنا تھا

کروڑوں بھکاریوں کے دلوں کو سمیٹ کر روٹی کا ایک سوکھا ٹکڑا مانگنے کے لئے اسے پکارا

کتابوں میں سچائی کے دو لفظ پڑھنے کے لئے مٹی کے تیل کی ڈھیریاں چا رپائیوں پر الٹ دیں

میری غریبی کے یادگار گدڑے اور بستر جل گئے

زمین پر اتنے کنکر پتھر اینٹیں بجری اور بالو کے ذرے بھی نہیں ہو گے

جتنی میری رٹی ہوئی دعائیں

کہ عورتوں اور جانوروں سے چھٹکارا مل جائے

بات یہ کہ میں کھل کر رونا چاہتا تھا

اتنا کہ تمہاری آبادیوں میں بازاروں کے ہجوم بھی نہیں ہو گے اور لڑکوں کی گالیاں جو ننگے پاگلوں کے پیچھے دوڑتی ہیں

سنو میں اسے اپنے ڈھنگ سے چاہتا تھا

اتنا کہ ایک عرب نیکیوں سے بھرے ہوئے اسپتال بھی کافی نہیں

ارے میں جو خدا مانگتا ہوں وہ تم دیتے نہیں

آگ جلانے کی ترکیب تو میں نہیں جانتا

میں تم سے کہتا ہوں مجھے جلاؤ یا میری نباتات جلاؤ میں جلوں گا اور جلوں گا

کام کروں گا اور کام کروں گا

سنو کام کرنے کے لئے ایک ایسی زندگی چاہئے کہ میں تم سب کو بلا وجہ مرنے سے روک سکوں

زندگی کا کام کبھی رکتا نہیں

ہر چند کہ

بری بھیڑ کے زمانہ میں اچھی کتابیں لکھنے پڑھنے کے مضبوط سامان نایاب ہو جاتے ہیں

دولت بڑے اسٹائل سے اشتہاری سکون بانٹتی ہے

مائیکرو فون یا باپ اور یونیورسٹیوں میں جب پروفیسر اعزاز کی سولیوں پر خوش گوار دکھائی دیتے ہیں

دوائیں یا مائیں بہنیں

تب بڑا غلط اندھیرا ہوتا ہے غلط بیٹے اور بھائی

جنہیں بنا قیمت لئے اگر تم چھو لو تو کاغذ تمہیں پکڑ لیں گے

کاغذ تمہیں مار ڈالیں گے

یہی کاغذ جن سے تمہارے لیے دھوکے اور مستقبل بناتے ہیں

چلو اس بھیڑ سے نکلو

زندگی کا کام کبھی رکتا نہیں

پاس آؤ

میں تمہاری جیبوں کے جھوٹ سے آج تک ڈرا نہیں ہوں

ان میں رکھے ہوئے پیسے نکال لوں گا

پیسے مت چھپاؤ پاس آؤ

یہ میں جانتا ہوں کہ تمہاری بیویاں تمہاری موت کے ایجنٹ ہیں

تمہارے بیٹے اور بھائی مجھ سے نفرت کرتے ہیں

میں تمہارے گھروں کے ڈرے ہوئے بند دروازوں پر دستک دیتا ہوں اور تم اور تمہارے لوگ

اندر سے چلاتے ہیں کہ تم نہیں ہو

میں تمہیں مرنے سے کیوں روکوں ہر چند کہ روک سکتا ہوں

موت کسی کو مارنے کے لیے آسمان سے نہیں اترتی

موت اس لیے ہے کہ تم نے اسے آسمان مان لیا

زمین تمہیں جاگنے کے لیے دی گئی تم نے اسے مایوس کیا

موت زمین کی مایوسی پر آج تک خوش ہے

اور تمہارے خوابوں میں چلنے کی آزادی ہے

تمباکو افیم اور بھنگ کے پودے آج تک خوش ہیں کہ وہ تمہاری مری ہوئی ماؤں کی مامتا ہیں

تمہاری بہت سی بیماریاں تمہارے جسم میں بڑے آرام سے ہیں

اور دوا خانوں میں بہت سی دوائیں بھی بڑے آرام سے ہیں

میں تمہیں مرنے سے کیسے روکوں

ہاں تم مجھے جینے سے روکتے ہو

میں تم سے کہتا ہوں کہ تمہارے چھوڑے ہوئے میدانوں کی ہواؤں کے جھونکے جب تمہاری کھڑکیوں میں آ رہے ہوں تو

کھڑکیاں مت بند کرو

بات یہ ہے کہ تمہارا جمع کیا ہوا اثاثہ تمہارے جسم کے ایک معمولی روئیں تک کو نہیں چمکا سکتا

تمہارے جمع کیے ہوئے غلط اندھیروں پر جب سورج چمکتا ہے

تو تم اس سے اکتاتے ہو

تم مجھے بولنے سے روکتے ہو

میں کہتا ہوں تمہارے یہ مکان تمہاری آنے والی قبروں سے مختلف نہیں

تم بین الاقوامی بچھوؤں سے زیادہ چالاک نہیں

تم دنیا کی بڑی کتابوں سے زیادہ گمبھیر نہیں ہو

جب تک میں تم سے اپنے سفر کا سارا سامان چھین نہیں لوں گا تم سے اختلاف کروں گا

تمہیں مرنے سے روکوں گا

احمد ہمیش

© UrduPoint.com

All Rights Reserved

(2009) ووٹ وصول ہوئے

You can read Tum Log Yahan Baithy Ho written by Ahmad Hamesh at UrduPoint. Tum Log Yahan Baithy Ho is one of the masterpieces written by Ahmad Hamesh. You can also find the complete poetry collection of Ahmad Hamesh by clicking on the button 'Read Complete Poetry Collection of Ahmad Hamesh' above.

Tum Log Yahan Baithy Ho is a widely read Urdu Nazam. If you like Tum Log Yahan Baithy Ho, you will also like to read other famous Urdu Nazam.

You can also read Social Poetry, If you want to read more poems. We hope you will like the vast collection of poetry at UrduPoint; remember to share it with others.