Adnan Basheer Ki Shaairi Me Se

عدنان بشیر کی شاعری میں سے انتخاب

Adnan Basheer Ki Shaairi Me Se

یہ انتخاب عدنان بشیر کی خوبصورت شاعری میں سے حماد نیازی نے کیا

اکیسویں صدی کے اوائل میں اپنے ادبی سفر کا آغاز کرنے والے نوجوانوں میں عدنان بشیر ایک ایسا نام ہے جس نے انتہائی کام عرصے میں اپنی انفرادیت ثابت کی مجھے یہ بات کہنے میں کوئی عار نہیں کہ میں نے عدنان بشیر کی صحبت میں بہت کچھ سیکھا ہے وہ نہ صرف ایک اچھا شاعر ہے بلکہ ایک انتہائی نفیس ،نستعلیق ،مخلص اور پیارا انسان اور دوست بھی ہے ...بھلے میری اس بات سے بعض لوگوں کو اتفاق نہ ہو مگر میں بڑے وثوق سے کہ سکتا ہوں عدنان بشیر آنے والے دور میں ایک بہت اہم اور نمایاں نام ہوگا ادبی افق پر

یہ شاعری اس تاثر کو غلط ثابت کرتی ہے کہ اردو غزل اپنی موت مر رہی ہے

..

(جاری ہے)

خدائے پاک عدنان بھائی کے علم و فہم میں مزید اضافہ کرے اور انھیں وہ عزت اسکی زندگی میں ہی نصیب کرے جو کئی لوگوں کو نہیں مل پاتی.....


پھر اس کے بعد غلط فہمیاں رہیں تا عمر

بلا کے مار دیے کجکلاہ لوگوں نے



خود اپنے پاؤں پہ کلہاڑیاں چلائی گئیں

خلیفہ مارے ،چنے بادشاہ لوگوں نے



میں کچھ دعاؤں کے خستہ تختے پہ بہہ رہا تھا سمندروں میں

سمندروں میں یہ پہلی بارش تھی اور زمیں ڈوبنے لگی تھی



مجھے کنویں میں گرانے والے مجھے گلے مل کے رو رہے تھے

مرے یہاں پر معاف کرنے کی ریت پرکھوں سے آ رہی تھی



اور ایک دن وہ عصا کو ٹیکے کھڑے کھڑے لڑکھڑا گیا تھا

ہوا جسے اپنے بازوؤں پہ چہار جانب لیے پھری تھی



لکھا شام ابد پر گیت میں نے

ازل سے بج رہے تھے ساز مجھ میں



مرے دل کا الاؤ بجھ رہا ہے

دیا رکھ دے ستارہ ساز مجھ میں



غزالان غزل محتاط رہنا

چھپے بیٹھے ہیں تیر انداز مجھ میں



پانیوں کے خوف میں سہمی چٹانوں سے پرے

وہ صدا گونجی کہ ہر اک موج نے تعمیل کی



جی اٹھی ہابیل کی آنکھوں میں صبح اولیں

مر گئی مغرب میں شام آخریں قابیل کی



ہے چھپی مشرق کی جانب اور نہ مغرب کی طرف

نخل زیتوں میں گندھی وہ روشنی قندیل کی



آخری قطرہ کنویں کے پاؤں سے چمٹا رہا

کرنے والے نے پھر اس میں زندگی ترسیل کی



میں حسن یار سے گھائل ،میں شہر یار میں قید..

میں آنکھیں موند کے نکلوں میں پاؤں باندھ کے آؤں



ان آنسووں کی چمک ہوں میں ان لبوں کا نمک

میان چشم سے نکلوں میں بیچ ناند کے آؤں



پرچم آسماں لپیٹ کے وہ

چل دیا کہکشاں سمیٹ کے وہ



مشعل مہر و ماہ راکھ ہوئی

گر گئے سب دیے پلیٹ کے وہ



اٹھ کے بیٹھے تو کھیت سوکھ گئے

جانے کیا سوچتے تھے لیٹ کے وہ



اب زمینوں کی خیر مانگ عدنان

پٹ کھلے ایک بند گیٹ کے وہ



ماں کی آنکھوں میں آنسو تھے اور پاس ہی بھونکتا تھا کوئی

کیا تماشا دکھایا سگ اندروں نے اکڑ کے مجھے



ہائے ہائے کہ میں کوئی بھی چیز قائم نہیں رکھ سکا

درد قائم ہے ملتی ہیں جلدوں پہ جلدیں ادھڑ کے مجھے



وہ زمینوں کو جب دھڑدھڑاے گا تو کس طرف جائے گا

کیسا دھڑکا لگایا ہے دل نے بدن میں جو دھڑ کے مجھے



جنتوں کی ہواؤں کے نزدیک اک بار کر دے مجھے

اتنا نزدیک سر سبز کر دے کوئی جھونکا پڑ کے مجھے



اولیں ہجر کی افتاد سے پہلے عدنان

ہم بہک جانے کی پاداش میں عریاں کیے گئے



تا ابد یہ گل فیروزہ رنگ

دھوپ اور رات سے میلا ہوگا



ہم پھر اک روز یہیں لا ہونگے

جو بھی اس دشت میں ہے لا ہوگا



دعائیں پوٹلی میں باندھ کر بیٹھا ہوا تھا

سفر اب جانب افلاک ہونے کے لیے تھا



پرندے مدتوں سے اس طرف آئے نہیں تھے

یہ عالم اور عبرت ناک ہونے کے لیے تھا



غلاف صبر میں سہمے پڑے تھے سب صحیفے

زمیں پر آسماں پوشاک ہونے کے لیے تھا



شب گریہ مری آنکھوں پہ میرے ہاتھ بھی تھے

پہ وہ ہنسنا ذرا بیباک ہونے کے لیے تھا



میں جسکو دیکھ کر پھر آسماں کی سمت لوٹا

وہ پیکر بھی سپرد خاک ہونے کے لیے تھا



چمنیوں سے نکلتا مقدس دھواں آسمانوں کی وسعت میں کھونے لگا

وہ زمینوں پہ کھانے بناتی رہی آسمانوں نے اسکا احاطہ کیا



قافلوں نے اذان سفر کے لیے اپنے مالک سے ازن تکلم لیا

اک صدا آسمانوں سے آنے لگی جس سے سارے زمانوں نے وعد ہ کیا



وہ مجھے دیکھ کے اپنے خوابوں کے گھر میں پرندوں کے نغمے سجانے لگی

میں نے اس کے لیے اپنے آنگن کی بیلوں کے پتوں کو پھر سے سنہرا کیا



اس نے دشت محبت پہ ابر کرم کی دعاؤں کہ پہلا صحیفہ لکھا

ریت پر بارشوں کا سمندر لیے میں نے اشکوں کا دریا روانہ کیا



مرے بدن میں پرندے چہک رہے تھے کبھی

یہ اژدھا کسی طائر کو چھوڑتا نئیں ہے



سیاه پہاڑوں سے پھوٹا ہے نور کہ چشمہ

یہ کوہ نور کسی آگ کا دھلا نئیں ہے



غروب ہوتے ہوئے پھول ،باغ ڈھلتا ہوا

اجل کی راہ پہ سارا جہان چلتا ہوا



زمین بچپنے میں لڑکیوں سی شوخ و شنگ تھی

فلک سے آنکھ کیا ملی مزاج ہی بدل گیا



لباس زندگی سے باس آ رہی ہے اجنبی

اتار دو کہ اسکو زنگ کھا چکا یہ گل گیا



چھپے بیٹھے تھے پیچھے کی صفوں میں

سو اب دیوار سے لاگے ہوے ہیں



کسی کے جسم کا ملبوس ہوتے

مگر ہم ٹوٹتے دھاگے ہوے ہیں



پہاڑ سینہ سپر تھے سپاہ باد آئی

پھر اسکے بعد تو سب کو خدا کی یاد آئی



پھر آسماں گلابی دھواں اگلنے لگا

پھر ایک آگ جہنم کو خود پہ لاد آئی



پھر ایک سرخ الاؤ کا ہانکنا ہم کو

پھر ایک چیخ پھر ایک صوت نا مراد آئی



درخت کانٹے لگی جھاڑیوں میں ڈھلنے لگے

پھلوں میں زہر بھرا ٹہنیوں میں کھاد آئی



ہم اپنے زخم کریدا کیے کہ شعر تو ہوں

ہم آہ بھرتے رہے دوستوں سے داد آئی



نیند نے اٹھ کے کہا خواب کے دروازوں سے

آئینے عکس بنا سکتے ہیں آوازوں سے



مہ جبیں بال گرا لیتی ہے پیشانی پہ

چاند محور کو پلٹ جاتا ہے اندازوں سے



اجنبی پھول کھلے صبح کے باغیچے میں

سر خوشی دوڑ گئی گھاس کے غالیچے میں



نیلے ہونٹوں پہ سیاه آنکھوں سے چشمے پھوٹے

بت آدم تری مٹی پہ بھی گھاس آتی ہے



کہیں پہ پھول کھلے ہیں کہیں کپاس کھلی

کوئی اداس کلی پانیوں کے پاس کھلی



بدن کی آگ فروزاں کیے رکھی اس نے

دیے بجھائے گئے جب وہ خوش لباس کھلی



میان جسم سلامت رہیں چراغ و دماغ

نواح خیمہ جاں بخت و رخت رہنے دے



نعلین اتارنے پڑیں گے

کچھ اور ہے یہ آگ تو نئیں ہے



پیڑوں سےنے ملوں کشادہ بازو

راہوں سے چلوں ہٹا ہوا میں



آنکھوں میں حنوط کر لوں یادیں

دل میں ہوں جنہیں رٹا ہوا میں



دیواروں سے گفتگو چلی ہے

اس جسم میں سرخ روشنی ہے



بڑی ہی احتیاط سے،نکل کے شش جہات سے

چلے ہیں لے کے روح کا غبار یار کے لیے



گھڑی گھڑی خزاں گزیدگی بڑھے گی باغ میں

جو ہیں رہیں گے محو انتظار یار کے لیے



یہ چار پائیاں پڑی رہیں گی دھوپ میں

اڑا دو پھر کبوتروں کی ڈار،یار کے لیے



مری زمینوں کو کر گیا اک گناہ بنجر

مرے بدن پہ یہ نیل ایسے پڑے ہوئے ہیں



میں ہاتھ اٹھاؤں گا اور بادل برس پڑیں گے

مگر مرے لوگ ہیں کہ ضد پہ اڑے ہوئے ہیں



دلوں میں رہنے بشارتوں میں اترنے والا

دنوں کو روشن شبوں کو یونہی سیاه رکھے



کپاس کی چھٹیوں سے اٹھے دھواں ہمیشہ

وجود کی پھونکنی میں سانسوں کی راہ رکھے



جہاں سے دیکھیں جھکا پڑ رہا ہے کاسہ چرخ

نشیب خاک میں شاید ہو آسمان بندھا



دھلے ہوئے ہیں اسی سرخ آگ سے ملبوس

اور آب و گل کے مرکب سے استخوان بندھا



زمیں پہ ایک دن وہ فصل گل ہوئی کہ آسماں

افق پہ ہاتھ ٹیک محو انتظار ہوگیا



گزشت و رفت کے زیان و سود سے گریز پا

ترا وہ راندہ ازل ابد کنار ہوگیا



زبان گفتگو کے شور میں کہیں پہ کھو گئی

چراغ روشنی کے خوف کہ شکار ہو گیا



بدن کے غار سے رہائی مانگتانے ہوئے مجھے

یہ بیسویں دعا پہ تیسرا حصار ہو گیا



محبت ایسے ملی ٹوٹ کے کہ تشنہ بدن

وفور شوق کی ارزانیوں سے تنگ بھی تھا



سنہرے خواب تھے ساحل پہ منتظر عدنان

میں گہری نیند سے جاگا تو رنگ رنگ بھی تھا



مری مزدوری اک زندہ صبح کی آزادی

میں زندانوں میں مردہ شامیں لاد رہا



عدنان مری پیشانی زنگ آلود ہوئی

میں گہرے سبز مکانوں میں آباد رہا

(4285) ووٹ وصول ہوئے

Related Articles

Adnan Basheer Ki Shaairi Me Se - Read Urdu Article

Adnan Basheer Ki Shaairi Me Se is a detailed Urdu Poetry Article in which you can read everything about your favorite Poet. Adnan Basheer Ki Shaairi Me Se is available to read in Urdu so that you can easily understand it in your native language.

Adnan Basheer Ki Shaairi Me Se in Urdu has everything you wish to know about your favorite poet. Read what they like and who their inspiration is. You can learn about the personal life of your favorite poet in Adnan Basheer Ki Shaairi Me Se.

Adnan Basheer Ki Shaairi Me Se is a unique and latest article about your favorite poet. If you wish to know the latest happenings in the life of your favorite poet, Adnan Basheer Ki Shaairi Me Se is a must-read for you. Read it out, and you will surely like it.