Ghulam Muhammad Qasir

غلام محمد قاصر

Ghulam Muhammad Qasir

غلام محمد قاصر کے ہاں فطرت کے سارے استعارے اپنی پوری نزاکت اور کوملتا کے ساتھ آتے ہیں اور یہ سب ایسے بے ساختہ اور معصوم انداز سے ہوتا ہے کہ قاری کو احساس بھی نہیں ہوتا

تحریر: گلناز کوثر
اردو شاعری کے خوش رنگ چمن میں ہر طرح کے پھول کھلے ہیں ۔۔۔۔ خوشبوئوں میں نہائے اور شوخ رنگوں سے مہکتے، ملول اداس حسن کو دامن میں سمیٹے بے چین آنکھوں سے دیکھتے، دل کھینچ لینے والے حرفوں کے جادوگر، نئے جہانوں کی سیر کراتے، خشک لمحات میں زندگی کی تڑپ اور رنگوں کی چمک بھرتے، محبتوں کے سفیر، اداسیوں کے اسیر شعرا ۔

۔۔۔ اور ان میں کبھی کبھی دور کسی گوشے میں مہکتا ہوا کوئی پھول، بہتی آوازوں کے ریلے میں رہتے ہوئے ان سب سے جدا ایک آواز ایسے بھی ہوتے ہیں جو جب آپ کے شعری ذوق یا تجربہ فن کو چھو لیں آپ کی ذات کو دو حصوں میں تقسیم کرنے پر قادر ہوتے ہیں یعنی ایک حصہ: جب آپ اس خوش رنگ مہکتے ہوئے تجربے سے نہیں گزرے تھے، اور دوسرا حصہ: اس کے بعد کی وارفتگی۔

(جاری ہے)

۔۔۔ یہ پھول خوشبو سے آپ کے رشتے کو مستحکم کرنے اور یہ آوازیں آپ کا ہاتھ پکڑے جہان شعر میں لے جانے والی ہوا کرتی ہیں۔ ایسے ہی چند ناموں میں ایک نام غلام محمد قاصر کا بھی ہے۔
دھیمی، درد مند اور اپنے فطری بہائو میں بہتی ہوئی شاعری لیے یہ شاعر جب آپ کے ذوق سخن سے کلام کرتا ہے تو ایک بار جیسے وقت ہی کی نہیں خود آپ کی دھڑکن بھی تھم جاتی ہے۔



خار چمن تھے شبنم شبنم، پھول بھی سارے گیلے تھے
شاخ سے ٹوٹ کے گرنے والے پتے پھر بھی پیلے تھے

تم یونہی ناراض ہوئے ہو ورنہ مے خانے کا پتہ
ہم نے ہر اس شخص سے پوچھا جس کے نین نشیلے تھے

غزل گو شعرا میں ہمیں مختلف رجحانات دیکھنے کو ملتے ہیں ۔۔۔ کچھ روایت کے دامن پر پھول کاڑھتے، کچھ جدت کے چمن کے خوشہ چیں ، کچھ فطرت کے رنگوں سے تصویریں بناتے، کچھ زبان کے میدان کے بے مثال کھلاڑی، کچھ قافیہ اور ردیف کی مشکل پہیلیوں اور گرہوں کو سہولت سے سلجھاتے ۔

۔۔ لیکن قاصر کے ہاں یہ سب خصوصیات ایک ساتھ موجود ہیں۔۔۔۔ گویا روایت کا شہد آگیں ذائقہ بھی اور جدت کی نیرنگیاں بھی۔ اس کے ہاں ہر طرح کے قاری کے لیے دلچسپی کے سامان ہیں، نہ مٹنے والے تاثر انگیز رنگ اور کبھی معدوم نہ ہونے والی خوشبو۔

مدت گزری دور سے میں نے ایک سفینہ دیکھا تھا
اب تک خواب میں آ کر شب بھر دریا مجھ کو ڈستا ہے

شام ابد تک ٹکرانے کا اذن نہیں ہے دونوں کا
چاند اسی پر گرم سفر ہے جو سورج کا رستہ ہے

تیز نہیں گر آنچ بدن کی، جم جائو گے رستے میں
اس بستی کو جانے والی پگڈنڈی یخ بستہ ہے

قاصر کے ہاں فطرت کے سارے استعارے اپنی پوری نزاکت اور کوملتا کے ساتھ آتے ہیں اور یہ سب ایسے بے ساختہ اور معصوم انداز سے ہوتا ہے کہ قاری کو احساس بھی نہیں ہوتا اور وہ بادلوں، ہوائوں، دریائوں اور سمندروں کے ساتھ ساتھ بہتا جاتا ہے، رات کے فسوں پر حیرت زدہ ہوتا ہے اور صبح کے نور میں نہاتا ہے۔



سورج کی سنہری گٹھڑی میں
کچھ خوابیدہ سی لالی تھی

پت جھڑ کے ہراول دستے میں
پھولوں سے لدی اک ڈالی تھی

اُس گائوں نے چھائوں سے تنگ آ کر
کل دھوپ کی پڑیا کھا لی تھی

لیکن جگنو کا استعارہ ان کی شاعری میں کئی بار آتا ہے اور ہر بار ایک نئے انداز اور زاویے سے اپنی ٹمٹماتی ہوئی ننھی سی روشنی میں کئی جہان چھپا کر لاتا ہے۔



ظلمت میں جگنوئوں کے پروں کی کتاب پڑھ
لکھا ہے اب سحر کے پیمبر بھی آئیں گے

گل کو برہنہ دیکھ کے جھونکا نسیم کا
جگنو بجھا رہا تھا کہ تتلی چمک گئی

الجھ نہ مہر سے تو اے مری شب تاریک
وہ جگنوئوں کے پروں میں شعاعیں بھر دے گا

سنور رہے تھے، ستارے بھٹک گئے جگنو
زمیں سے بات نہ کی آسمان والوں نے

فطرت کے مناظر سے نکل کر جب قاصر اپنے ارد گرد نظر دوڑاتے ہیں تو ہر حساس انسان کی طرح ان کا ذہن بھی بہت سے سوال بنتا ہے اور ہلکی سی شکایت سر اٹھاتی ہے۔



گلیوں کی اداسی پوچھتی ہے، گھر کا سناٹا کہتا ہے
اس شہر کا ہر رہنے والا کیوں دوسرے شہر میں رہتا ہے

بارود کے بدلے ہاتھوں میں آ جائے کتاب تو اچھا ہو
اے کاش ہماری آنکھوں کا اکیسواں خواب تو اچھا ہو

ہر سال کی آخری شاموں میں دو چار ورق اڑ جاتے ہیں
اب اور نہ بکھرے، رشتوں کی بوسیدہ کتاب تو اچھا ہو

ہر بچہ آنکھیں کھولتے ہی کرتا ہے سوال محبت کا
دنیا کے کسی گوشے سے اسے مل جائے جواب تو اچھا ہو

قاصر اپنے ارد گرد غربت کی لوٹ پوٹ ہوتی گٹھڑیوں کو بھی کھولتے ہیں ۔

۔۔ حالات کی چکی میں پستے ہوئے لوگ، مجبوری اور لاچاری کے پیکر ان کے دل میں جیسے گھر کر لیتے ہیں۔۔۔۔

آزمائش میں ہے وہ گھڑی عید کی چاند نے جس کے آنے کی تائید کی
اک پھٹے پیرہن پر پسینے کی تہہ، ایک گھر خوشبوئوں میں نہاتا رہا

آیا ہے اک راہ نما کے استقبال کو اک بچہ
پیٹ ہے خالی، آنکھ میں حسرت، ہاتھوں میں گلدستہ ہے

قاصر کی شاعری میں عجیب کیفیت ہے، شام کے سناٹوں میں جلتے چراغوں کی خوشبو، صحرائوں میں دور تک پھیلی ریت کی ویرانی، چاندنی رات کا اسرار اور کسی درد سے بھرے دل سے نکلی ہوئی ہلکی سی صدا۔

ان کی شاعری بلند آہنگ نہیں بلکہ دھیمے لہجے کی سرگوشی ہے جو کبھی کبھی تھوڑی بلند ہو بھی جاتی ہے لیکن جلد ہی لہجے کی گھلاوٹ اور حلاوت اسے واپس اپنی سطح پر لے آتی ہے۔۔۔۔
سارباں محو تھا سن سن کے سکوت صحرا
چیخ محمل سے اٹھی ریت کے کہرام کے ساتھ

چند شامیں جو لٹکتی رہیں دیوار کے ساتھ
وقت کہتا ہے انہیں شامل تقویم نہ کر

جاگتا ہوں تو بکھر جاتا ہوں کرنوں کی طرح
اتنے سورج مری نیندوں میں سمٹ آئے ہیں

گلی میں ہوائوں کی سرگوشیاں ہیں
گھروں میں مگر سب صنوبر اکیلے

پرندے کیوں پس دیوار آ کر چہچہاتے ہیں
اسے معلوم ہوگا پیڑ جو آنگن میں رکھتا ہے

یہ کیسے ہو سکتا تھا کہ زندگی کے چہرے کی سلوٹوں سے راز چننے والی نگاہ اور بادلوں، ہوائوں، پھولوں کی سرگوشیوں کے ساتھ دھڑکتا دل محبت جیسے جذبے سے کترا کر گزر جائے ۔

۔۔۔ یہ واردات قاصر کے ہاں بھی موجود ہے لیکن بڑی ہی نرمی سے دل کے ساز پر گیت بجتے ہیں، موسم بدلتے ہیں ۔۔۔ محبت کے رنگ نکھرتے ہیں کہیں ایک خوبصورت ادا بن کر اور کہیں شکوہ بن کر۔۔۔۔۔

میری پلکوں پہ جلے ہیں جو ترے نام کے ساتھ
ان چراغوں کا تعلق ہی نہیں شام کے ساتھ

محبت اے محبت ایک جذبے کی مسافت ہے
مرے آوارہ سجدے سے تری چوکھٹ کے پتھر تک

چاند ہے کہ سورج ہے فیصلہ نہیں ہوتا
نیلگوں دوپٹے سے روشنی سی چھنتی ہے

یہ کوئی تخت و تاج نہیں ہے کہ چھوڑ دوں
سانسوں کا انحصار ہے تیرے خیال پر

پہلے اک سائے سے خوشبو کو نکلتے دیکھوں
پھر وہ خوشبو تری آواز میں ڈھل جاتی ہے

اس نے اک ایسی کہانی میں مجھے کاسٹ کیا
جس میں میرے لیے کردار نہیں ہے کوئی

ہم صبح سے چراغ جلاتے چلے گئے
اُس شام تک جو شام ملاقات بھی نہ تھی

اور
کروں گا کیا جو محبت میں ہو گیا ناکام
مجھے تو اور کوئی کام بھی نہیں آتا

قاصر کے لیے شاعری اور زندگی دونوں ایک ہی چیز تھیں ۔

۔۔۔ تمام عمر انہی حیرت کدوں میں بسر کی ۔۔۔۔ اور جاتے جاتے ہمارے لیے سیپیوں میں بند کیسے کیسے موتی چھوڑ گئے۔۔۔۔

ہر عہد نے زندہ غزلوں کے کتنے ہی جہاں آباد کیے
پر تجھ کو دیکھ کے سوچتا ہوں اک شعر ابھی تک رہتا ہے

عجیب بات ہے ایسی توانا آواز اور ایسا کومل لہجہ اور ایسا بے مثال شاعر ادب کے آسمان پر جگمگاتے ستاروں میں اپنے شایان شان جگہ نہیں بنا پایا ۔

۔۔۔۔ وہ کیا حالات تھے یا ہیں کہ یہ روشنی اردو ادب کے مرکزی دھارے تک اس طرح نہیں پہنچی جیسا کہ اس کا حق تھا حالانکہ ہزارہ یونیورسٹی کے ایم اے اردو کے نصاب میں انہیں شامل کیا گیا ہے لیکن جب ہم بہت سے اہم شعرا کا ذکر کرتے ہیں نہ جانے کیوں اس نام کو بھول جاتے ہیں یا نظرانداز کر جاتے ہیں ۔۔۔۔ ہرچند اس من موجی، من موہنے شاعر کو اس کی ضرورت نہیں تھی، ہم نے ایسا کر کے خود کو ہی ایک اہم ذائقے سے محروم رکھا ہے۔۔۔۔

صحرائے تمنا میں جس کے جینے کا جواز ہی جھونکے ہوں
اُس ریت کے ذروں نے مل کر اک نام کیا تحریر تو کیا

لکھتا ہوں تو پوروں سے دل تک اک چاندنی سی چھا جاتی ہے
قاصر وہ ہلال حرف کبھی ہو پائے نہ ماہ منیر تو کیا

(5553) ووٹ وصول ہوئے

Related Articles

Ghulam Muhammad Qasir - Read Urdu Article

Ghulam Muhammad Qasir is a detailed Urdu Poetry Article in which you can read everything about your favorite Poet. Ghulam Muhammad Qasir is available to read in Urdu so that you can easily understand it in your native language.

Ghulam Muhammad Qasir in Urdu has everything you wish to know about your favorite poet. Read what they like and who their inspiration is. You can learn about the personal life of your favorite poet in Ghulam Muhammad Qasir.

Ghulam Muhammad Qasir is a unique and latest article about your favorite poet. If you wish to know the latest happenings in the life of your favorite poet, Ghulam Muhammad Qasir is a must-read for you. Read it out, and you will surely like it.