Parveen Shakir Ka Naatia Kalam

پروین شاکر کا نعتیہ کلام

Parveen Shakir Ka Naatia Kalam

تحریر: نصرت زہرا حسین

پروین شاکر کی ادبی خدمات لازوال اہمیت کی حامل ہیں ان کی مختصر مگر پر اثر زندگی میں ان کے چار مجموعہ ہائے کلام طبع ہوئے جن کے نام بالترتیب اس طرح سے ہیں ۔خوشبو انیس سو ستتر 1977,صدبرگ 1980 انیس سو اسی ,خود کلامی انیس سو پچاسی 1985،اور انکارانیس سو نوے 1990 میں طبع ہوئے۔

ماہ تمام جو ان کی کلیات کا مجموعہ ہے ان کی زندگی میں شائع ہونے والا آخری مجموعہ تھا۔

ان کی بے وقت موت کے بعد جو مجموعہ شائع ہوا اس کانام کف آئینہ ہے۔جو 1996میں طبع ہوا۔لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ ان کے کسی بھی مجموعے میں کوئی نعت موجود نہیں ہے۔جن نعتوں پر آج ہم بات کریں گے وہ ہم تک پاکستان ٹیلی ویڑن پر نشر ہونے والے مشاعروں کے ذریعے پہنچیں ہیں۔

پروین شاکر کی شاعری ایک عام قاری کے لئے رنگ،خوشبو اور محبت کی شاعری ہے لیکن جب آپ ان کی نعتیں پڑھتے ہیں تو اندازہ ہوتا ہے کہ اپنے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ان کی وابستگی اور عشق کمال کی حدوں کو پہنچا ہوا ہے۔

(جاری ہے)

ان۔کی ناگہانی موت کے بعد اس بات کو اور بھی شدت سے محسوس کیا جانے لگا کہ ان کے ہمہ جہت فن کے نظر انداز گوشوں کو سامنے لایا جائے۔

ان کے اولین مجموعے خوشبو سے لے کر کف آئینہ تک تمام کلام سچے موتیوں کی طرح ہے جس میں آفاقی سچائیاں بکھری ہوئی ہیں،دنیا میں جہاں جہاں اردو بولی اور سمجھی جاتی ہے ان کے کلام کو سرمہء چشم بناکر رکھا جاتا ہےان کی کتابوں کی طلب یکساں رہتی ہے عوام اور خواص میں ان سے محبت اور احترام کا جو رشتہ ہے وہ کبھی ماند نہیں پڑتا۔

ذرا دیکھیے ان کی نعتوں میں کیسا سوزو گداز اور عشق نبی صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم جھلک رہا ہے۔۔

سوادِ شہر مدینہ کے روبرو ہونا/ ضروری ہوگیا آنکھوں کا باوضو ہونا/ سیاہ بختیء جاں گر یہی رہا تو کہاں/ دیار سبز میں اس دل کا سرخرو ہونا/ سماعتوں کےلئے ساعت شگفت گلاب/ہوائے شہر مدینہ سے گفتگو ہونا/ملی ہے آب اسے آنسوؤں کی بارش سے / کہاں نصیب تھا اس گل کے تازہ رو ہونا/کھلا ہے نام پی کیسے طبیب کے لیکن / یہ زخم وہ ہے جو مانگے نہیں رفو ہونا/مری جڑیں اسی مٹی میں ہوں مگر چاہوں / خیال طیبہ سے ہی روح کی نمو ہونا/ عجب طرح کسی صحرا نشیں کی یاد آئی/ اہم رہا نہیں دنیا کا رنگ و بو ہونا/کوئی اشارہ کہ پھر آفتاب لوٹ آئے/ جبیں کا خواب وہی نور چار سو ہونا/گناہگار ہوں میں اور چشم پوش ہے تو/ بہت ہے تیری نظر کا کبھو کبھو ہونا! چونکہ پروین کی شاعری روح جمالیات ہے اس لئے ان کی نعتوں میں شمائل نبوی کو ایک خاص انداز سے بیان کیا گیا ہے،منزل کا جمال کیسا ہوگا/ روشن ہے جہاں کا راستہ تک/ اس چہرے کا عکس کس نے دیکھا/ حیران رہا ہے آئینہ تک/ اس خاک میں کون سو رہا ہے / جو ہوگئی مشک بو ہوا تک!۔

. ایک اور نعت دیکھیے۔

نسیم ہوتی ہوئی آئی ہے مدینے سے
چمک رہے ہیں گل روح پر نگینے سے

ابھر رہی ہے سکوت حرا سے اک آواز
اتر رہی ہے سحر قصرِ شب کے زینے سے

تیری نگاہ تو ہو میری روح پر اک دن
نظر تو آتے ہیں جنگل میں کچھ دفینے سے

کسی سبب سے ہی خورشید لوٹ کر آیا

وہ حکم خاص تھااور خاص ہی قرینے سے

میرے ستارے کو طیبہ سے کچھ اشارہ ہوا
سو بادباں سے غرض ہے نا اب سفینے سے

سنا ہے جب سے شفاعت کو آپ آئیں گے
تو جیسے بوجھ سا اک ہٹ گیا ہے سینے سے

مدینہ ہے تو نجف بھی ہے کربلا بھی ہے/ تمام لعل و گہر ہیں اسی خزینے سے !پروین شاکر کی یہ تین نعتیں جو ہمیں دستیاب ہوئیں وہ ہم نے ان کے فن اور شخصیت سے محبت رکھنے والے پرستاروں کے لئے ایک سوغات کے طور پر آپ سے بانٹیں اور ان کا اشتراک کیا۔

بلاشبہ شعور و بصیرت روح نعت ہیں اور فکرو لطافت کی معراج کہے جاسکتے ہیں۔پروین نے اپنی نعتوں میں جس بلندی سے اپنے آقا و مولا نبی اکرم سے محبت اور ربط کا اظہار کیا ہے یوں لگتا ہے جیسے وہ نبی آخر الزماں حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے براہ راست گفتگو کررہی ہیں۔یہ شعر دیکھیے جو اپنے اندر معنی آفرینی کا جہان لئے ہمیں دعوت فکر دے رہا ہے۔

۔

عجب طرح کسی صحرا نشیں کی یاد ائی/اہم رہا نہیں دنیا کا رنگ و بو ہونا!💚 یہ شعر شاعر کی داخلی کیفیات کی عکاسی کرتا ہے جب وہ دنیا کے درد و الام سے بے حال ہوکر اپنے اصل مقام کی جانب لوٹ جانا چاہتی ہیں اور اپنے رسول پاک سے ربط و توسل انہیں دنیا کی پر نعمت ملنے کے باوجود سب سے زیادہ محبوب ہے اور وہ ان کی ذات پاک میں پناہ و اماں ڈھونڈتی ہیں۔

دلچسپ بات تو یہ ہے کہ پروین کی شاعری خود ایک شجر سایہ دار کی طرح ہے زمین پر جب بھی چھاؤں تلاشی جائے گی پروین کی شاعری کو ناگزیر حوالے کے طور پر پیش کیا جائے گا۔البتہ اب تک ہمیں ان کی کسی حمد تک رسائی نہیں ہوسکی تاہم ماہرین پروینیات ان کے فن پر جب ایسے کسی زاوئیے سے تحقیق کریں گے تو یقینا اس ضمن کئی نئی باتیں سامنے آئیں گی۔۔

کیسے ہو رسائی اس نگاہ تک
محبوب رکھے جسے خدا تک

کس طرح رکھوں قدم جہاں پر
آہستہ خرام ہو صبا تک

اس خاک میں کون سو رہا ہے
جو ہو گئی مشک بو ہوا تک

اس شہر کی کیا مثال جس کی
رکھ دی گئی خاک میں شفا تک

منزل کا جمال کیسا ہوگا
روشن ہے جہاں کا راستہ تک

اس چہرے کا عکس کس نے دیکھا
حیران رہا ہے آئینہ تک

یہ اس کی رضا وہ جب بلائے
اپنی تو رسائی ہے دعا تک

امیدِ جواب کیوں نہ رکھوں
کیا کارِ فقیر ہے صدا تک۔

معراج کی شب نظر سے لے کر۔

جل جاتا ہے روح کا دیا تک!

سچائی کا ایک قافلہ ہے
طائف کے سفر سے کربلا تک


( نوٹ : احباب نوٹ فرمالیں کہ یہ مضمون پارہ پارہ میں موجود نہیں ہیں یہ میں نے حال ہی میں لکھے ہیں).نصرت زہرا

(1003) ووٹ وصول ہوئے

Related Articles

Parveen Shakir Ka Naatia Kalam - Read Urdu Article

Parveen Shakir Ka Naatia Kalam is a detailed Urdu Poetry Article in which you can read everything about your favorite Poet. Parveen Shakir Ka Naatia Kalam is available to read in Urdu so that you can easily understand it in your native language.

Parveen Shakir Ka Naatia Kalam in Urdu has everything you wish to know about your favorite poet. Read what they like and who their inspiration is. You can learn about the personal life of your favorite poet in Parveen Shakir Ka Naatia Kalam.

Parveen Shakir Ka Naatia Kalam is a unique and latest article about your favorite poet. If you wish to know the latest happenings in the life of your favorite poet, Parveen Shakir Ka Naatia Kalam is a must-read for you. Read it out, and you will surely like it.