Sharmeen Ubaid Chinoye Tanzaat Ki Zadd Me

Sharmeen Ubaid Chinoye Tanzaat Ki Zadd Me

شرمین عبید:تنازعات کی زد میں!

آسکر ایوارڈ یافتہ پاکستانی فلم ساز شرمین عبید چنائے متنازعہ موضوعات پر دستاویزی فلمیں بناکر تو مشہور ہوگئیں لیکن حال ہی میں فیس بک پر”فرینڈ ریکویسٹ“کے معاملے میں متنازعہ ٹویٹس کرکے بری طرح پھنس گئیں۔

بدھ 13 دسمبر 2017

حناجاوید:
آسکر ایوارڈ یافتہ پاکستانی فلم ساز شرمین عبید چنائے ہمیشہ سے ہی اپنے تنازع بیانات اور ڈاکیومنٹڑیز کی وجہ سے خبروں کی زینت رہی ہیں،کبھی ان کی بنائی ہوئی ڈاکیومنٹری”سیونگ فیس“میں مرکزی کردار نبھانے والی عورت کی شرمین کے خلاف بیان سامنے آجاتے ہے،کبھی پانامہ لیکس میں ان کی والدہ صباعبیدہ چنائے کا نام سامنے آجاتا ہے اوراب حال ہی میں ان کے جاری کردہ ٹویٹ نے پورے سوشل میڈیا پر ہلچل مچادی جس کا موضوع ان کی بہن کو آغا خان ہسپتال کے ڈاکٹر کی طرف سے بھیجی جانے والی”فرینڈ ریکویسٹ“تھی شرمین کے مطابق یہ ایک غیر اخلاقی عمل ہے جسے وہ ہراساں کیے جانے کا نام دیتی ہیں۔
39 سالہ شرمین عبید چنائے نے 12 نومبر 1978 کو روشنیوں کے شہر کراچی میں آنکھ کھولی ابتدائی تعلیم کراچی گرامر سکول اور کانونٹ آف جیز اینڈ میری سے حاصل کی جس کے بعد اعلیٰ تعلیم کے لیے امریکہ چلی گئیں،شرمین نے سمتھ کالج سے جرنلزم میں بیچلرز اور پھر سٹینفورڈ یونیورسٹی سے انٹرنیشنل پالیسی سٹڈیز اور کمیونیکیشن میں ڈبل ماسٹر ڈگری پروگرام 2004 میں کامیابی سے مکمل کیا۔

(جاری ہے)

اسی دوران2002 میں جب وہ پاکستان واپس آئیں تو پاکستانی معاشرے کے حوالے سے کئی متنازعہ موضوعات اپنی ڈاکیومنٹریز کے ذریعے زیر بحث لائیں لیکن ان کو بین الاقوامی سطح پر شہرت تب حاصل ہوئی جب انہوں نے پاکستانی معاشرے کا بھیانک روپ دنیا کے سامنے رکھا۔انہوں نے عورتوں پر ہونے والے مظالم پر کئی ڈاکیومنٹریز بنائیں۔2012 میں شرمین نے ”سیونگ فیس“کے نام سے ڈاکیومنٹری بنائی اور آسکر ایوارڈ لینے والی پاکستان کی پہلی خاتون کا اعزاز اپنے نام کیا۔
انہیں اسی سال پاکستان میں ہلال امتیاز سے بھی نوازا گیا۔2016 میں شرمین نے”غیرت کے نام پر قتل “ہونے والی خواتین پر”آگرل اِن داریور“کے نام سے ڈاکیومنٹری بنائی اور ایک مرتبہ پھر آسکر ایوارڈ اپنے نام کرلیا،شرمین کو یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ انہی کے کہنے پر ہی سابق وزیر میاں محمد نواز شریف نے غیرت کے نام پر قتل کی روک تھام کے حوالے سے بنائے گئے قوانین میں ترمیم کروائی،ان سب کامیابیوں کے باوجود پاکستان میں ان کی وجہ سے شہرت آسکرایوارڈ کی بجائے ان کی متنازعہ موضوعات پر بنائی جانے والی ڈاکیومنٹریز اور پاکستانی معاشرے کے حوالے سے ان کے تلخ اور چبھتے ہوئے بیانات بھی ہیں،گزشتہ ڈیڑھ عشرے کے دوران شرمین عبید نے قابل ذکر کام کیا ہے تاہم بعض بڑی تلخ باتیں حقائق بھی ان سے منسوب ہیں۔

رخسانہ بی بی نے بھانڈا پھوڑدیا: فلم ساز شرمین عبید کو لوگوں میں اصل پہچان تب حاصل ہوئی جب 2012 میں ان کی بنائی ہوئی ڈاکیومنٹری”سیونگ فیس“ منظر عام پر آئی جو تیزاب سے جھلسنے والی خواتین پر مبنی تھی لیکن میڈیا اور عوام الناس میں شرمین”واہ واہ“ کی حقدار تب ٹھہریں جب انہیں آسکرایوارڈ سے نوازا گیا جس کے بعد پاکستان میں جہاں ایک خاص طبقہ ان کی اس کامیابی کو قابل ستائش نظروں سے دیکھتا ہے وہیں کچھ ایسے لوگ بھی ہیں جو شرمین کو پاکستان مخالف مغربی ایجنڈے کا علم دار تصور کرتے ہیں شرمین پر الزام ہے کہ شرمین اپنی ڈاکیومنٹریز میں پاکستان کی ایسی منفی تصویر سامنے لاتی ہیں جس سے پاکستان کی تذلیل ہوتی ہیں لیکن شرمین کے حامی اس بات سے اختلاف کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ وہ عورتوں کی چاردیواری میں محصور آواز کو پوری دنیا میں لانا چاہتی ہیں،شرمین کے مخالفین کو اس وقت شہہ ملی جب”سیونگ فیس“ڈاکیومنٹری کی ریلیز کے چند مہینوں کے بعد اس میں مرکزی کردار نبھانے والی رخسانہ بی بی نے شرمین عبید کا بھانڈا پھوڑدیا ڈاکیومنٹری میں دکھایا گیاکہ رخسار بی بی جس کو اس کے شوہر نے تیزاب ڈال کر بُری طرح جلادیا تھا شرمین عبید چنائے کس طرح مظلوم رخسانہ کا علاج ایک غیر ملکی جواد سے کرواتی ہیں اور اسے دوبارہ زندگی جینے کاحوصلہ دیتی ہیں اور ساتھ ہی ساتھ اس کے شوہر کو قانون کی گرفت میں لاتی ہیں۔
شرمین کو ڈاکیومنٹری میں آسکرایوارڈ ملنے کے بعد رخسانہ بی بی ایک بیان منظر عام پر آگیا ایک نجی اخبار کو انٹرویو دیتے ہوئے اس نے کہاشرمین نے مجھ سے وعدہ کیا تھا کہ فلم میں کام کروانے کی عوض وہ میرا علاج کروائیں گی نقد تیس لاکھ دینے کے علاوہ ملتان میں پانچ مرلے کا مکان بھی تعمیر کرواکردیں گی لیکن جیسے ہی انہوں نے دولت اور شہرت حاصل کرلی میرا حال تک نہ پوچھا حتیٰ کہ انہوں نے مجھ سے زبردستی خالی کاغذ پر دستخط کروانے کی کوشش بھی کی لیکن میں نے انکار کردیا،میں تو ایک عام عورت ہوں ہمارے ہاں تو عورتیں ٹوپی والا برقعہ پہن کر باہر نکلتی ہیں لیکن میں نے اپنے علاج کے لئے اپنے شوہر اور گھروالوں سے چھپ کر فلم میں کام کیا اور جب پوری دنیا نے اس فلم کو دیکھا تو میرے شوہر نے مجھے طلاق دے دی اور گھر والوں نے مجھ سے قطع تعلق کرلیا۔
اب میرا دامن خالی ہے میرے بچوں کا کوئی سہارا نہیں رہا،رخسانہ کے اس بیان نے شرمین کو کٹہرئے میں لاکھڑا کیا اور راز کھول دئیے کہ شرمین کس طرح لوگوں کی مجبوری کا فائدہ اُٹھاتی ہیں دوسری طرف شرمین نے رخسانہ کے بیان کی تردید کرتے ہوئے کہا”ہم کسی کو اپنا خطیر معاوضہ دے کر کسی ڈاکیومنٹری میں کام نہیں کرواسکتے یہ سراسر ایک غیر اخلاقی عمل ہے، میں نے بہت سی ڈاکیومنٹری فلمیں بنائی ہیں لیکن کبھی ایسا نہیں ہوا میں نے رخسانہ سے قطعاً ایسا کوئی وعدہ نہیں کیا تھا اگر رخسانہ کے بقول کوئی معاہدہ ہوا تھا تو رخسانہ بی بی اس سے متعلقہ کاغذات لاکر دکھائیں۔

عورتوں کے حقوق کی چیمپئین،شرمین عبید ہی کیوں؟ فروری 2016 میں شرمین عبید نے پھر متنازعہ موضوع کا انتخاب کیا اور” غیرت کے نام پرقتل “ہونے والی خواتین پر”آگرل ان داریور“ کے نام سے ڈاکیومنٹری بناڈالی۔جب یہ ڈاکیومنٹری ریلیز ہوئی تو وہ ایک بار پھر خبروں کی زینت بن گئیں اور آسکر ایوارڈ کی حق دار ٹھہریں ان کی اس بڑھتی ہوئی مقبولیت کو دیکھتے ہوئے پاکستان کے سابق وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف نے ان کو وزیر اعظم ہاؤس مدعو کیا جہاں ان کی ڈاکیومنٹری کی سکریننگ بھی ہوئی،شرمین نے نواز شریف سے گزارش کی کہ وہ غیرت کے نام پر قتل ہونے والی خواتین میں ترمیم کروائیں۔
بعدازاں اس پارلیمنٹ میں”غیرت کے نام پر قتل“ ہونے والی خواتین کے قوانین میں ترمیم کروائیں۔بعدازاں اس پارلیمنٹ میں ”غیرت کے نام پر قتل“ ہونے والی خواتین پر بحث ہوئی اور عورتوں کو تحفظ فراہم کرنے کے لیے بل منظور کیا گیا۔ابھی یہ موضوع زیر بحث ہی تھا کہ افسوس ناک واقعہ پیش آگیا کہ سوشل میڈیا کی متنازعہ شہرت یافند یل بلوچ جس کی تصویریں اور ویڈیوز سوشل میڈیا پر ہی نہیں بلکہ الیکڑانک میڈیا پر بھی زبان زدعام رہیں،اسی دوران قندیل بلوچ کے بھائی وسیم بلوچ نے اپنی بہن قندیل بلوچ کو غیرت کے نام پر قتل کردیا،اس واقعہ کے بعد قندیل بلوچ پاکستان میں ہی نہیں بلکہ دنیا بھر کے میڈیا میں زیرِ بحث آگئیں اور ہر شخص اپنے اپنے انداز میں قندیل اور اس کی زندگی کے تبصرے اور تجزیے کرنے لگا ،ایسے میں شرمین کیسے پیچھے رہ سکتی تھی؟اس لئے قندیل نے بھی بی بی سی کے اشتراک سے” قندیل بلوچ آویری شارٹ سٹوری“کے نام سے تقریبا دو منٹ کی ڈاکیومنٹر ی بنا کر ایک بار پھر دنیا بھر کی توجہ حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئیں یہاں تک کہ امریکی گلوکار میڈونا نے بھی سماجی روابط کی ویب سائٹ پر شرمین کی ڈاکیومنٹری کی خوب تعریف کی لیکن سوال یہ ہے کہ ایسے حساس موضوعات پر تو اور بھی بہت سے لوگ کام کرتے تھے لیکن ان کی آواز کو سننے والا کوئی نہیں ہوتا پھر شرمین عبید چنائے ہی کو عورتوں کے حقوق کی چیمپئین کیوں قرار دیا جاتا ہے؟شاید اس کی وجہ یہ بھی ہے کہ شرمین جیسا اثرورسوخ نہیں رکھتے اور نہ ہی ان کو مغربی ممالک کی خصوصی حمایت حاصل ہے۔

جب شرمین کی والدہ کا نام پانامہ پیپرز میں آیا،،،، سال 2016 جہاں پاکستانی سیاستدانوں کے کرپشن کے الزامات کے حوالے سے بھاری ثابت ہوا وہیں نامور شخصیات اور ان سے جڑے لوگوں کے لئے درِدسِر کا سبب بنا، ہو اکچھ ہوں کہ آسکر ایوارڈ یافتہ شرمین عبید چنائے کی والدہ صبا عبید چنائے جو جانی مانی کاروباری خاتون ہونے کے ساتھ ساتھ سماجی کارکن کی حیثیت سے بھی نمایاں پہچان رکھتی ہیں ان کا نام پانامہ لیکس میں شامل تھا،جب میڈیا میں شرمین اور ان کی والدہ شہرت پر سوالات اٹھنے لگے تو شرمین نے آخرکار جواب دے ہی دیا کہ وہ آئی سی آئی جے کی طرف سے شائع ہونے والی رپورٹ کی مکمل حمایت کرتی ہیں میری والدہ صباعبید کانام پانامہ لیکس میں ضرور شامل ہے لیکن میری ذاتی کوئی آف شور کمپنی نہیں اور نہ ہی کسی کمپنی سے فائدہ اُٹھارہی ہوں شرمین نے اس معاملے پر مزید کوئی بات کرنے سے اجتناب کیا کیونکہ وہ راتوں کمائی ہوئی شہرت کو مٹی میں ملتے نہیں دیکھ سکتی تھی۔

شرمین کی ٹویٹس،آخر معاملہ کیا ہے؟ حال ہی میں شرمین عبید کی ٹوئٹر پر کی جانی والی ٹویٹس نے پورے میڈیا میں ایک نئے بحث چھیڑدی جس کا موضوع یہ تھا“کسی اجنبی خاتون کو فرینڈ ریکویسٹ بھیجا ہراساں کئے جانے کے مترادف ہے؟ان ٹویٹس کا پس منظر کچھ یوں ہے کہ بیس اکتو بر2017 کی رات شرمین کی بہن اپنا طبی معائنہ کروانے کے لئے کراچی کے آغا خان ہسپتال کی ایمرجنسی میں گئیں جہاں ڈاکٹر نے ان کا چیک اپ کرکے گھر آنے کے بعد ان کی بہن نے جب میں نے اپنا فیس بک اکاونٹ کھولاتو وہ پریشان ہوگئیں کہ جس ڈاکٹر نے کچھ دیر پہلے میرا معائنہ کیا تھا وہ کیسے مجھے فرینڈ ریکویسٹ بھیج سکتا ہے حالانکہ میں اسے جانتی بھی نہیں،اب سوال یہ ہے کہ فیس بک جو لوگوں کے سماجی رابطے کا عام ذریعہ ہے اور ہر شخص کو دن میں کئی کئی فرینڈ ریکویسٹ موصول ہوتی ہے اب اس کی مرضی پر منحصر ہے چاہے تو وہ اسے قبول کرے یا انکار کردے،آخر اس میں ایسی کیا خاص بات تھی کہ جس پر شرمین عبید اس قدر آگ بگولہ ہوگئیں اور اگلے روز شرمین نے اس بات کو بڑے غصیلے انداز میں سوشل میڈیا پر شئیر کیا اور لکھا،پاکستان میں کوئی حدود نہیں ہیں،کیسے ایک ڈاکٹر کسی خاتون مریض جس کا چند گھنٹے پہلے اس کا معائنہ کیا ہوں اس کی معلومات اکٹھی کرکے اُسے فرینڈ ریکویسٹ بھیج سکتا ہے؟انہوں نے اپنے ٹویٹ میں یہاں تک کہہ ڈالا”بدقسمتی سے ڈاکٹر نے غلط خاندان اور غلط لڑکی سے پنگا لیا ہے اس میں اس کے خلاف رپورٹ کروں گی۔
ہراساں کرنے کا یہ عمل رکنا چاہیے،شرمین کے اس بیان پر ہسپتال انتظامیہ نے اس ڈاکٹر کو صرف ایک فرینڈ ریکویسٹ بھیجنے کی پاداش میں نوکری سے نکال دیاشرمین کے اس جذباتی بیان نے لوگوں کو مجبور کردیا کہ وہ ان متنازعہ شہرت پر سوال اٹھائیں،تاہم لوگوں نے سوشل میڈیا پر خوب دل کی بھڑاس نکالی کہ سماجی مسائل پر آواز اٹھانے والی شرمین”ہراسمنٹ“ کے اصل مفہوم سے واقف نہیں۔
کہا جاتا ہے شرمین نے اپنی طاقت اور اثرورشوخ کا ناجائز فائدہ اُٹھاتے ہوئے اس ڈاکٹر کو نوکری سے نکلوایا ان کے اس اقدام کی مخالفت میں معروف آرٹسٹ حمزہ علی عباسی بھی میدان میں اُترئے اور اپنے ایک ٹویٹ میں لکھا جب میں مشہور نہیں تھا اس وقت بہت سی خواتین مجھ سے دوستی کرنا چاہتی تھی لہٰذا ان کے خلاف بھی ہراسمنٹ کا مقدمہ دائر کرنا چاہیے حمزہ نے ایک اور ٹویٹ میں شرمین کو آڑے ہاتھوں لیتے ہوئے کچھ اس طرح لکھا شرمین عبید لوگ آپ کی طرف دیکھ رہے ہیں ڈاکٹر کو نوکری سے نکلوانے سے پہلے آپ کو پتہ ہونا چاہیے تھا کہ جنسی طور پر ہراساں کرنے کئے جانے کا مطلب کیا ہے اس مصنف میں بیشتر لوگوں کا کہنا ہے کہ شرمین نے یہ سب لوگوں کی توجہ حاصل کرنے کے لئے کیا ہے سوشل میڈیا پر لوگوں نے ان کو اور ان کی بہن کو”ڈرامہ کوئین“کا خطاب دے ڈالا ذرائع ابلاغ پر خوب لے دے ہونے کے بعد شرمین کو احساس ہوا کہ ان کا کیا ہوا ٹویٹ انہی کے گلے پڑگیا ہے لہٰذا چند دنوں بعد انہوں نے اپنے ٹویٹ کے ذریعے لوگوں سے معذرت کی،میں نے یہ الفاظ غصے میں استعمال کیے جس سے بہت سے لوگوں کا دل دکھا ان کے جذبات کو ٹھس پہنچی جس سے میں اتفاق کرتی ہوں۔
شرمین کے مطابق ان کا مقصد یہ نہیں تھا کہ وہ اپنی طاقت کا غلط استعمال کریں بلکہ وہ اپنے ساتھ ناانصافی کے خلافک آواز اٹھانے میں بھی پیچھے نہیں ہٹتیں،میری بہن کے ساتھ ہونے والا واقعہ اس بات کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ ہمارے ملک میں مریض غیر محفوظ ہیں خاص طورپر وہ خواتین جو ڈاکٹر پر اعتبار کرتی ہیں اور جب یہ اعتبار ٹوٹ جاتا ہے تو یہ خلاف ورزی کہلاتا ہے انہوں نے مزید وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ اس ڈاکٹر نے میری بہن کی تصویروں پر تبصرہ بھی کیا اور پھر ان کو فرینڈ ریکویسٹ بھیجی ، ہم نے ان کے خلاف ہسپتال انتظامیہ کو شکایت درج کروائی جس کی بنیاد پر تحقیقات بھی کی گئیں اور یہ انتہائی قدم اُٹھایا گیا معذرت کے بعد شرمین کے اس بیان سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ وہ تاحال اس بات پر قائم ہیں کہ یہ ڈاکٹر اور مریض کے درمیان اعتبار کی خلاف ورزی ہے حقیقت یہ ہے کہ یہ ایک غیر اخلاقی رویہ ضرور تھاجو ڈاکٹر کی طرف سے برتا گیا ای معالج کی بنیادی ذمہ داری لوگوں کی خدمت کرنا ہے نہ کہ مریضوں کے ساتھ ذاتی روابط قائم کرنا دنیا کے مہذب اور ترقی یافتہ ممالک میں معالج اور مریض کو آپس میں کسی قسم کا رابطہ رکھنے کی اجازت نہیں لیکن وہاں بھی ایسی کوئی نظیر نہیں کہ ڈاکٹر کو محض اس بنا پر نوکری سے نکال دیا جائے کہ اس نے اپنے مریض کو فرینڈریکویسٹ کیوں بھیجی؟یہ سراسر معالج کے ساتھ ناانصافی ہے شرمین عبید کی ٹویٹ سے ایسا معلوم ہوا کہ شاید انہوں نے اس واقعہ کو اپنی انا کا مسئلہ بنالیا تھا اور لوگوں کی ہمدردی حاصل کرنے کے چکر میں ان کی اپنے کئے ہوئے ٹویٹ ہی ان کی ساکھ پر بُری طرح متاثر کردی جسے بحال کرنے میں انہیں خاصی محنت کرنا پڑے گی۔

Browse More Articles of Lollywood