ہمارے ٹی وی ڈراموں میں کردار وں کو مقبول بنانے کے لئے اس قدر بناوٹی ،غیر حقیقی اور پُر کشش انداز میں پیش کیا جاتا ہے کہ اکثر خواتین ان کی تقلید شروع کردیتی ہیں ۔
زارا مصطفی
بلاشبہ پر فارمنگ آرٹ ابلاغ کے اظہار کا نہایت موزوں اور موٴثر ذریعہ سمجھا جاتا ہے ۔شاید یہی وجہ ہے کہ گزرتے وقت کے ساتھ ساتھ میڈیا میں طرز معاشرت اور عورتوں کے حوالے سے متنوع موضوعات زیرِ بحث آنے لگے ہیں جو معاشرے میں مختلف تبدیلیوں کا باعث بن رہے ہیں اور جہاں دیگر شعبہ ہائے زندگی تر قی پار ہے ہیں ،وہیں میڈیا کے بڑھتے ہوئے رجحانات کی بدولت خواتین میں شعور اور آگہی بھی بڑھ رہی ہے ۔
چونکہ اب میڈیا کے پھیلاؤ کے باعث معلومات کے حصول کے نت نئے ذرائع موجود ہیں بلکہ اگر یہ کہاجائے کہ لوگوں کو زمانہ جاہلیت سے نکال کر روشن خیالی کی ڈگر پر ڈالنے کا سہرا میڈیا کے سر جاتا ہے تو بے جانہ ہوگا مگر اس کا دوسرا پہلو بھی ہے جس سے نظریں نہیں چرائی جاسکتیں یعنی میڈیا کی بدولت ایک طرف توخواتین اپنے حقوق سے متعلق پہلے سے زیادہ با خبر اور باشعور نظر آتی ہیں مگر دوسری طرف آج کی عورت کسی حد تک من مانی اور عدم برداشت جیسے مسائل کا شکار بھی ہورہی ہے ۔
(جاری ہے)
اگر آج کی عورت حالات سے لڑتے ہوئے مشکلات کا سامنا کر رہی ہے تو اس میں یہ خود اعتمادی بھی موجود ہے کہ وہ مجبور اور لاچار نہیں ہے ․․․․اس حوالے سے یہاں ٹی وی ڈرامے کا ذکر بھی ضروری ہے جس کے منفی اور مثبت پہلو بھی کہیں نہ کہیں ہمارے مجموعی رویوں پر اثر انداز ہورہے ہیں ۔ٹی وی ڈراموں کے موضوعات اور انہیں پیش کرنے کے انداز کی بات کی جائے تو یہ حقیقت ہے کہ آج تفریح کے نام پر معاشرتی برائیوں کو پُر کشش انداز میں پیش کرکے معاشرے کا آئینہ تو دکھا یا جارہا ہے مگر اکثر اصلاحی پہلوؤں کو زیادہ پُر اثر نہیں بنایاجاتا لیکن اگر روشن خیالی سے حقائق کو پر کھا جائے تو جہاں ایک طرف خواتین ٹی وی ڈراموں کے غیر حقیقی اور بناوٹی کرداروں سے گمراہ ہورہی ہیں وہیں بہت سی خواتین ایسی بھی ہیں جو ان ڈراموں سے روشن خیالی اور مصلحت پسندی کی طرف گامزن نظر آتی ہیں جس سے ثابت ہوا کہ میڈیا مثبت کردار بھی اداکررہا ہے ۔
یعنی خواتین کے مثبت اور منفی معاشرتی رویوں میں تبدیلی کی ایک بڑی وجہ ٹی وی ڈراموں کے اثرات ہیں جو مختلف انداز میں معاشرتی تبدیلیوں کا باعث بن رہے ہیں ۔یہ حقیقت ہے کہ پہلے مخصوص موضوعات پر ڈرامے بنائے جاتے تھے جن کا مقصد آگہی دینا ہی نہیں بلکہ معاشرے کی اصلاح کرنا بھی تھا ۔چنانچہ ان ڈراموں کا دورانیہ زیادہ طویل نہیں تھا عموماََ 13یا14 قسطوں میں ڈرامہ ختم ہوجاتا تھا مگر اب طویل دورانیے کے ڈرامے دکھائے جاتے ہیں جن میں کسی بھی معاشرتی مسئلے کے منفی پہلوؤں کو بہت تفصیل سے اجاگرکیاجاتا ہے اور یوں سنسنی پھیلائی جاتی ہے کہ زیادہ سے زیادہ لوگوں کو متوجہ کرکے ریٹنگ بڑھائی جاسکے ۔
اس کے علاوہ بھارتی ٹی وی چینلز کی طرح ” ڈیلی سوپ “ کا رجحان بھی بڑھ رہا ہے جو عموماََ کم بجٹ پر مبنی ہونے کے ساتھ ساتھ اشہارات کے ذریعے زیادہ منافع حاصل کرنے کا ذریعہ ہوتے ہیں ۔ڈیلی سوپ میں زیادہ سے زیادہ لوگوں کی توجہ حاصل کرنے کے لئے عام طور پر متنازعہ موضوعات زیرِ بحث لائے جاتے ہیں اور اکثر ضابطہ اخلاق کو بھی نظر انداز کردیاجاتا ہے جبکہ ابتداء سے ہی پاکستانی ڈراموں کا معیار ، موضوعات اور سب سے بڑھ کر انہیں پیش کرنے کا انداز پڑوسی ملک میں بھی سراہاجاتا رہا ہے ۔
پاکستانی ٹی وی ڈراموں کے مثبت اور منفی معاشرتی اثرات کا جائزہ لیتے ہوئے ․․․میڈیا سٹڈیز کی ماہر کلثوم حیدر میڈیا کے بدلتے ہوئے رجحانات کے حوالے سے کہتی ہیں ” ایک وقت تھا جب محض ایک ہی ٹی وی چینل ہوا کرتا تھا اور لوگ مخصوص اوقات میں اپنے من پسند پروگرام اور ڈرامے دیکھاکرتے تھے اور تو اور ٹی وی کی نشریات کے اوقات بھی محدود تھے اس لئے جس وقت جو بھی ٹی وی پروگرام آن اےئر آتا ،خواتین اسے ہی دیکھتیں ،ٹی وی ڈرامہ بھی پرائم ٹائم پر رات کو 8سے9بجے ہی دِکھایاجاتا ۔
اس طرح ٹی وی پرروزانہ رات کو ایک دن میں ایک ہی ڈرامہ دِکھایاجاتا تھا ۔اس کے برعکس آج ہمارے پاس سینکڑوں تفریحی ٹی وی چینلز موجود ہیں جن پر دنیا بھر سے مو ادنشر کیاجارہا ہے ۔دن کے جس حصے میں جب بھی ٹی وی آن کریں خواتین کی دلچسپی کے مطابق ہر طرح کے ٹی وی ڈرامے آن اےئر ہوتے ہیں اور ان میں خواتین کی گھریلو ،سماجی اور دینی حوالوں سے تربیت کا پہلو بھی مِد نظر رکھاجاتا ہے جس سے وہ اپنے حقوق سے باخبر ہورہی ہیں ۔
یہی وجہ ہے کہ آج کی عورت ماضی کے مقابلے میں زیادہ باشعور ہے اور ہر شعبے میں مردوں کے شانہ بشانہ خدمات سر انجام دے رہی ہے ․․․اب خواتین میڈیسن اور ایجوکیشن میں ہی نہیں بلکہ انجنےئر نگ اور دفاعی شعبوں میں بھی نمایاں نظر آرہی ہے ۔یہی وجہ ہے کہ اب خواتین محض سڑک پر کار ہی نہیں دوڑاتین بلکہ کھلی فضاؤں میں جہاز اڑانے کی صلاحیت بھی رکھتی ہیں ۔
یقینا خواتین میں شعور اور آگہی بڑھنے سے خود اعتماد ی میں بھی اضافہ ہورہا ہے اس لئے آج کی عورت کو زمانہ جاہلیت کی طرح چاردیواری میں مقید رکھنا ممکن نہیں رہا ۔چنانچہ اگر ٹی وی کی بات کی جائے تو معاشرتی موضوعات پر بننے والے ڈراموں میں خواتین کرداروں کی اس قدر مضبوط تصویر کشی کی جاتی ہے کہ وہ معاشرے کی عام خواتین کے لئے قابل تقلید بن جاتی ہیں ۔
یہی وجہ ہے کہ اب وہ بچوں کی تربیت اور خانگی امور کے حوالے سے بھی نئے رجحانات سے خاصی ہم آہنگ دکھائی دیتی ہیں ۔“اس کے برعکس ماہر سماجیات شیریں سعید کہتی ہیں ”آج کل ٹی وی ڈراموں کے موضوعات اور انہیں لوگوں کوسامنے پیش کرنے کا انداز بہت اہم ہے ویسے بھی کسی معاشرے کی ترقی وتنزلی میں میڈیا کا کردار نظر انداز نہیں کیاجاسکتا ۔گزرتے وقت کے ساتھ ساتھ طرزِ معاشرت میں تبدیلی کوئی اچنبھے کی بات نہیں مگر جوں جوں خواتین میں آگہی بڑھ رہے ہے ،توں تو ں مجموعی طور پر معاشرے میں کچھ منفی رویے بھی اجا گر ہورہے ہیں جنہیں نظر انداز کرنے کی بجائے اصلاح کی ضرورت ہے ۔
آج دیکھتے ہیں کہ خواتین پہلے سے زیادہ آزاد اور خودمختار تو ہیں مگر ان کی ذاتی زندگی مختلف مسائل سے دوچار ہے مثلا طلاق کی بڑھتی ہوئی شرح اور عدم برداشت آج کی عورت کے سب سے اہم معاشرتی مسائل بن چکے ہیں ۔اکثر ڈراموں میں بعض کرداروں کو مقبول اور منفرد دکھانے کے لئے اس قدر غیر حقیقی اور بناوٹی شکل میں پیش کیاجاتا ہے کہ خواتین انہی کرداروں کی تقلید شروع کردیتی ہیں مثلا اگر ڈرامے میں کسی خاتون کو جدت پسند دکھایاجارہا ہوتو اسے مصنوعی پن سے لیس ایک ایسا نمونہ بنا کر پیش کیاجاتا ہے کہ اکثر خواتین اس سے متاثر ہوکر اسی کی طرح پہننے اوڑھنے کا انداز اپنا لیتی ہیں لیکن چونکہ اس قسم کی زیادہ تر خواتین کا تعلق متوسط طبقے سے ہوتا ہے جو محدود آمدنی میں یہ سب افورڈ نہیں کر سکتیں چنانچہ اپنی خواہشات کی تکمیل کے لئے وہ شوہروں کو رشوت اور بد عنوانی پر مجبوری کرتی ہیں ۔
دوسری طرف یہ بھی دیکھا گیا ہے ان ڈراموں میں اکثر خواتین کرداروں کو بے بسی اور مظلومیت کی تصویر بنا کر ہروقت روتے دھوتے دکھایاجاتا ہے ۔بعض ڈراموں میں کرداروں کا معیارزندگی بہت شاہانہ دکھایاجاتا ہے جو حقیقت سے کوسون دور ہوتا ہے ایسے میں اگر یہ کردار منفی بھی ہوں تو خواتین ان کی چمک دمک سے متاثر ہونے کے ساتھ ساتھ ان کے اطوار بھی اپنا لیتی ہیں ۔
“ماہر نفسیات عائشہ سلیمان کی رائے ہے ”آج ہمارے پاس پہلے کی نسبت زیادہ ٹی وی چینلز ہیں جن پر ہر طبقے اور ہر علاقے سے تعلق رکھنے والی خواتین کے معاشرتی مسائل سے متعلق ڈرامے پیش کئے جاتے ہیں جن کا مقصد بظاہر خواتین کو باشعور کرنا ہے تا کہ وہ اپنے حالات کو سمجھتے ہوئے بہترین حکمت عملی سے ان مسائل کا حل نکالیں اور تعلیم یاوسائل کی کمی کے باعث خواتین کا ایک مخصوص طبقہ اپنے حقوق سے لا علم نہ رہ جائے ۔
ویسے بھی آج معاشرے کی عورت خواہ تعلیم یافتہ ہویا غیر تعلیم یافتہ اور خواہ کسی بھی طبقے کی نمائندگی کرتی ہو ․․․․وہ جانتی ہے کہ حالات کیسے بھی ہوں ،ان سے نبر د آزماہونا اہم ہے ۔وہ یہ بھی جانتی ہے کہ اپنے حق کے لئے آواز کیسے اٹھانی ہے اور اگر کوئی مشکل آن پڑے تو کون سادروازہ کھٹکھٹانا ہے ؟اس میں بھی شک نہیں کہ معاشرتی رویوں کو مکمل طور پر تبدیلی کرنے میں ابھی کچھ وقت اور لگے گا تا ہم اب عورت کی آزادی اور خود مختاری کے سفر کی ابتداہوچکی ہے جس میں میڈیا کا کردار نظر انداز نہیں کیاجاسکتا ۔
“ماہر نفسیات فاطمہ عبداللہ کہتی ہیں ” اس میں شک نہیں کہ بیشترٹی وی ڈراموں کے موضوعات معاشرتی مسائل کی عکا سی کرتے دکھائی دیتے ہیں جس سے عام خواتین کے روز مرہ مسائل پر روشنی ڈالی جاتی ہے مگر یہاں قابل غور بات یہ ہے کہ ان مسائل کو کس انداز میں پیش کیا جائے کہ برائی سے کشش محسوس نہ ہو ،تا کہ کم تعلیم یافتہ اور سطحی سوچ کی حامل کم عمر لڑکیاں ان کی پیروی نہ کرنے لگیں مثلا اگر کوئی ڈرامہ کسی کالج یا سکول کی لڑکی کو والدین کسے جھوٹ بولتے ،بد تمیزی کرتے دکھائے اور ساتھ ہی یہ بھی دکھا یا جائے کہ وہ سکول یا کالج کے اوقات میں کسی لڑکے سے چھپ چھپ کر ملتی ہے اور ہر مرتبہ کوئی نیا بہانہ بنا کر والدین کی نظروں میں دھول جھونکنے میں کامیاب ہوجاتی ہے تو اس صورتحال کو اس قدر متاثر کن اور دلچسپ رنگ دے دیاجاتا ہے کہ وہ اس عمر کی دیگر لڑکیوں کے کے پُرکشش بن جاتی ہے اور انہیں غیر اخلاقی سر گرمیوں میں ملوث ہونے کے نت نئے آئیڈیازمل جاتے ہیں ۔
اسی طرح اگر کسی ڈرامے میں ساس بہو ایک دوسرے کے خلاف سازشیں کرتی دکھائی جائیں تو بہت سی کم تعلیم یافتہ خواتین انہی کی تقلید شروع کر دیتی ہیں اور اپنی اچھی بھلی زندگی کو جہنم بنالیتی ہیں ۔“ اس حقیقت سے بھی انکار ممکن نہیں کہ ہر ڈرامہ معاشرتی انقلاب کے لئے نہیں بنایا جاتا بلکہ پیشکاروں کے اپنے مفادات بھی ہوتے ہیں چنانچہ ایسے چند لوگوں کی وجہ سے میڈیا کے کردار اور اثرات کو مجموعی طور پر منفی قرار دینا سراسر غلط ہے کیونکہ ہر معاملے کے دو پہلوہوتے ہیں اس لئے اگر کسی تشہیری مواد سے منفی تاثر نمایاں ہورہا ہو جس کے باعث معاشرتی بگاڑکا اندیشہ ہوتو اس پر پابندی لگائی جاسکتی ہے یاگھر میں منفی اور متنازعہ موضوعات کے حامل ڈرامے دیکھتے ہوئے اس کے روشن پہلوؤں پر بھی نظر رکھیں ۔
ویسے بھی یہ تو ہونہیں سکتا کہ کسی بھی ڈرامے کے اختتام پر برائی کی حوصلہ افزائی کی جائے ہاں یہ ممکن ہے کہ اسے پیش کرنے کا انداز موزوں نہ ہو اس لئے غور کرنا چاہیے کہ ڈرامے کا اصل موضوع اور مقصد کیا ہے ؟پیمرا کی بھی ذمہ داری ہے کہ کوئی بھی ڈرامہ ان اےئر ہونے سے پہلے یہ اطمینان کیاجائے کہ اس مواد کی تشہیر سے معاشرے میں کسی منفی رویے کی نشوونما کاامکان تو نہیں ؟فلم کی طرح اگر ڈراموں کے لئے سنسر بورڈ بنادیا جائے تو بھی ان کے منفی معاشرتی اثرات سے کسی حد تک بچا جاسکتا ہے !!