Jung September Aur Fankar

Jung September Aur Fankar

جنگ ستمبر اور فنکار

6 ستمبر 1965ء کا دن پوری پاکستانی قوم کیلئے انتہائی اہمیت کا حامل ہے اس دن پاکستان کی بہادر مسلح افواج نے پاکستان کی غیور عوام کے ساتھ مل کر اپنے سے کئی گنا طاقتور دشمن فوج کے حملے کو ناکام بنا کر اس کے عزائم کو خاک میں ملا دیا۔

منگل 4 ستمبر 2018

سیف اللہ سپرا
6ستمبر 1965ء کا دن پوری پاکستانی قوم کیلئے انتہائی اہمیت کا حامل ہے اس دن پاکستان کی بہادر مسلح افواج نے پاکستان کی غیور عوام کے ساتھ مل کر اپنے سے کئی گنا طاقتور دشمن فوج کے حملے کو ناکام بنا کر اس کے عزائم کو خاک میں ملا دیا۔ اس دن پاکستان کی افواج اور عوام متحد تھے اور پاکستان کا ہر شہری وطن کے دفاع کیلئے اپنے جان و مال کی قربانی کے لئے تیار تھا۔

فوج کا مورال بلند کرنے کیلئے زندگی کے ہر شعبے کے لوگ بارڈر پر پہنچ گئے ان لوگوں میں فنکار پیش پیش تھے۔ اس جنگ میں فنکاروں خصوصاً گلو کاروں کا کردار قابل تحسین تھا۔ انہوں نے جنگی ترانے گا کر پاک فوج کے جوانوں کے لہو کو گرما یا۔ ان گلو کاروں میں ملکہ ترنم نور جہاں، مہدی حسن، شوکت علی سرفہرست ہیں ۔

(جاری ہے)


ملکہ، ترنم نور جہاں نے 1965ء کی جنگ میں جو ملی نغمے گائے وہ اپنی مثال آپ ہیں یہ ملی نغمے بہت مقبول ہوئے اور ان نغموں نے پاک فوج کے جوش و جذبے میں بے پناہ اضافہ کیا نور جہاں کے مقبول ملی نغموں میں اے وطن کے سجیلے جوانو، رنگ لائے گا شہیدوں کا لہو، میریا ڈھول سپاہیا تینوں رب دیاں رکھاں، میرا ماہی چھیل چھبیلا کرنیل نی جرنیل نی، اے پتر ہٹاں تے نئیں وکدے شامل ہیں۔

ریڈیو پاکستان پر ان کے نغموں کی ریکارڈنگ زیادہ تر اعظم خان جو اس وقت ریڈیو کے پروڈیوسر تھے، نے کی انہوں نے ملکہ ترنم نور جہاں کے بارے میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ میں نے 1965ء کی جنگ کے دوران ریڈیو پر ملکہ ترنم نور جہاں کے گیارہ گانے ریکارڈ کئے۔6 ستمبر کو جنگ شروع ہوئی8 ستمبر کو سٹیشن ڈائریکٹر شمس الدین بٹ کو ملکہ ترنم نور جہاں نے فون کیا اور کہا کہ میں نور جہاں بول رہی ہوں۔
شمس الدین بٹ نے سمجھا کہ کوئی عورت مذاق کر رہی ہے چنانچہ انہوں نے فون بند کردیا پھر حسن لطیف جو ملکہ ترنم کے گھر میں اس وقت موجود تھے نے شمس الدین بٹ سے کہا کہ بٹ صاحب ملکہ ترنم نور جہاں آپ کو فون کر رہی ہیں آپ سن لیں دراصل وہ جنگ کے حوالے سے ملی نغمے ریکارڈ کرانا چاہتی ہیں چنانچہ شمس الدین بٹ نے ملکہ ترنم نور جہاں کو ریڈیو پر بلا لیا اور اس کے ساتھ مجھے کہا کہ میڈم آ رہی ہیں آپ گیٹ پر چلے چائیں میڈم ایک گھنٹے کے بعد آئیں میں انہیں لے کر شمس الدین بٹ کے کمرے میں پہنچ گیا، وہاں پر ناصر کاظمی صوفی غلام مصطفیٰ تبسم اور ایوب رومانی بھی موجود تھے ان تمام افراد کی میٹنگ ہوئی جس میں فیصلہ ہوا کہ روزانہ ایک گانا ریکارڈ ہوگا اور اسی دن نشتر ہوگا، اس گانے کی پروڈکشن کی ذمہ داری مجھے سونپی گئی میرے لئے یہ ایک بہت بڑا چیلنج تھا میں نے صوفی غلام مصطفی تبسم سے کہا کہ آج کیلئے آپ نغمہ لکھ کر دیں انہوں نے پہلا نغمہ:
’’ میریا ڈھول سپاہیا تینوں رب دیاں رکھا‘‘
لکھ کردیا اور کہا کہ اس کی کمپوزیشن کریں میں نے سلیم اقبال سے کہا کہ اس نغمے کی طرز بنائیں انہوں نے طرز بنائی اور گانا ریکارڈ ہو گیا رات ساڑھے دس بجے یہ گانا آن ایئرچلا گیا اس گانے کا بہت ریسپانس ملا خاص طور پر بارڈر پر ہمارے جو بھائی لڑ رہے تھے انہوں نے بہت پسند کیا اس گانے کے نشر ہونے پر بعض لوگوں نے کہا سپاہی پر گانا بنا ہے اب فوجی افسر پر بھی گانا بننا چاہئے جس پر صوفی صاحب نے یہ گانا لکھا:
’’ میرا ماہی چھیل چھبیلا ہائے نی کرنیل نی جرنیل نی‘‘
جنگ کے دوران جب فوجی جوان شہید اور زخمی ہو کر سی ایم ایچ ہستال پہنچے تو پھر صوفی غلام مصطفی تبسم نے یہ نغمہ لکھا۔

ایہہ پتر ہٹاں تے نہئں وکدے
توں لبھدی پھریں بازار کڑے
چوتھا گانا ملکہ ترنم کی آواز میں تنویر نقوی کا ریکارڈ کیا گیا اس کے بول تھے:
’’ رنگ لائے گا شہیدوں کا لہو‘‘
پانچواں گانا رئیس امروہوی نے لکھا جس کے بول تھے:
’’امید فتح رکھو اور علم اٹھائے چلو‘‘
چھٹے روز، کوئی گانا نہ لکھا گیا تو میڈم نے کہا کہ علامہ اقبال کی نظم، ہر لحظہ مومن کی نئی شان نئی آن، قہاری و غفار و قدوسی و جبر و ریکارڈ کر لیتے ہیں۔

ساتویں روز پشتو کے معروف شاعر سمندر خان سمندر نے علامہ اقبال کی مذکورہ نظم کا پشتو میں منظوم ترجمہ کیا جو میڈم کی آواز میں ریکارڈ ہوا قصور کے بارڈر پر بھی جنگ ہو رہی تھی چنانچہ آٹھویں روز صوفی غلام مصطفی تبسم نے گانا لکھا میرا سوہنا شہر قصور نی ، نویں روز صوفی غلام مصطفی تبسم نے تین فورسز کیلئے گانا بنایا، جس کے بول تھے۔
یہ ہوائوں کے مسافر یہ سمندروں کے راہی
تیرے سربکف مجاہد تیرے صف شکن سپاہی
دسواں گانا طالب جالندھری نے لکھا جس کے بول تھے:
تیرے باجرے دی راکھی اڑایا میں ناں بیہندی وے
گیارہواں گانا جمیل الدین عالی نے لکھا ملکہ ترنم نور جہاں کی آواز میں ریکارڈ ہوا اس کے بول تھے:
اے وطن کے سجیلے جوانو
میرے نغمے تمہارے لئے ہیں
اعظم خان نے کہا کہ ملکہ ترنم نور جہاں بہت بڑی گلو کارہ تھیں ان کی کمی کبھی پوری نہیں ہوگی۔
اللہ ان کی مغفرت کرے۔
شہنشاہ غزل مہدی حسن کے گائے ہوئے ملی نغمے بھی جنگ ستمبر کے دوران بہت مقبول ہوئے ان ملی نغموں میں یہ وطن تمہارا ہے، ہم حیدر ہیں، اپنی جاں نذر کروں، اب فتح مبین ہے، اس قوم کو شمشیر کی حاجت نہیں رہتی، پاک شاہنیوسلام، خطۂ لاہور تیرے جاں نثاروں کو سلام، جیوے سوہنی دھرتی، سوہنی دھرتی اللہ رکھے، عظیم قوم کے بیٹے ، تیری جرأ ت کو سلام، وطن کی آبرو رکھ لی، وطن کے پاسبانوں شامل ہیں۔

گلو کار شوکت نے بھی بہت سے ملی نغمے اور جنگی ترانے گائے جن میں ساتھیو، مجاہدو جاگ اٹھا ہے سارا وطن، اور اے دشمن دیں تونے کس قوم کو للکارا شامل ہیں۔ گلو کار شوکت نے جنگ ستمبر کے حوالے سے نمائندہ نوائے وقت سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اس دن پاکستان کے عوام اور مسلح افواج ایک تھے اور سب نے مل کر اپنے سے کئی گنا زیادہ طاقتور دشمن کا حملہ پسپا کر دیا اس موقع پر فنکار بھی پیچھے نہیں رہے خصوصاً گلو کاروں نے جنگی ترانے گا کر فوجی جوانوں کے لہو کو گرمایا اور مجھے بھی یہ اعزاز حاصل ہے کہ میں نے بھی جنگی ترانے گائے انہوں نے کہا کہ یہ دن بڑی دھوم دھام سے منانا چاہئے کیونکہ ہماری عزت، آن شان اس پاکستان کی بدولت ہے۔
پاکستان ہے تو ہم ہیں، اللہ تعالیٰ تا قیامت اس ملک کو سلامت رکھے۔
الحمرا آرٹس کونسل کے چیئرمین اور ورسٹائل اداکار توقیر ناصر نے جنگ ستمبر کے حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ 6ستمبر کا دن بہت اہم اور اسے شایان شان طریقے سے منانا چاہئے۔1965ء میں جب بھارت نے حملہ کیا تو وہ میرے بچپن کے دن تھے میں نے جب بہادر فوج کے کارنامے سنے تو مجھے آرمی کی یونیفارم سے پیار ہو گیا اور میں نے فوج میں جانے کا فیصلہ کر لیا۔
دو دفعہ ٹیسٹ دیا مگر کامیاب نہ ہو سکا۔ جرنلزم میں ماسٹر کیا کچھ دیر صحافت کی پھر اداکاری شروع کردی۔ مجھے فوج میں سلیکٹ نہ ہونے کا افسوس ضرور ہے مگر ایک لحاظ سے مطمئن ہوں کہ میری سوچ آج بھی ایک سولجر والی ہے اگرچہ میرے پاس فوج کا یونیفارم نہیں مگر میں کام ایک سولجر کی حیثیت سے کر رہا ہوں جب میں نے اداکاری شروع کی تو اس وقت اداکار بھی سولجر کی طرح ہی کام کرتے تھے مثال کے طور پر میں نے اپنے ابتدائی کیریئر میں الحمرا میں ہی ایک سٹیج ڈرامہ میں اداکاری کی تو اس کیلئے مجھے علامہ اقبال کی مشہور نظم ’’شکوہ جواب شکوہ‘‘ زبانی یاد کرنا پڑی اور میں اس سٹیج ڈرامے میں یہ نظم زبانی سناتا جسے لوگ اتنی دلچسپی سے سنتے کہ پورے ہال میں سناٹا چھا جاتا اور سب لوگ ہمہ تن گوش ہو کر میری آواز میں علامہ اقبال کی یہ مشہور نظم سنتے اگر ہم علامہ اقبال کے کلام کو ڈرامے کا حصہ بناتے ہیں تو یہ عوام کیلئے بہت بڑا پیغام ہے ہم سٹیج ڈرامے کو اپنی اقدار سے منسلک کرنا چاہتے ہیں ہمیں اپنے ہیروز پر فخر ہونا چاہئے۔
وہ ہیروز افواج سے ہوں یا ثقافت اور دیگر شعبوں سے ہمیں میڈان پاکستان پر فخر ہونا چاہئے ہم کلچرل لوگ ہیں ہمارے خلاف بے بنیاد پراپیگنڈہ کرکے ہمیں دہشت گرد بنایا جا رہا ہے ہم تھیڑ سے امن کا پیغام نہ صرف اپنے ملک میں بلکہ پوری دنیا میں پہنچائیں گے اور دنیا کو بتائیں گے کہ ہم دہشت گرد نہیں بلکہ امن پسند لوگ ہیں۔

Browse More Articles of Lollywood