65 Ki Jung Aur Mili Tarane

65 Ki Jung Aur Mili Tarane

65ء کی جنگ اور ملی ترانے

6ستمبر 1965ء میں شعراء نے ملی اور رزمیہ گیتوں‘ نظموں اور خصوصاً غزلوں اور غزل نما ترانوں کے ذریعے اپنے جذبہ حب الوطنی کا جو یادگار ثبوت فراہم کیا ہے وہ نہ صرف یہ کہ ایک قومی شعری سرمائے کے طور پر محفوظ ہوچکا ہے بلکہ پوری قوم کے جذبات کی نمائندگی کرنے والے ہمارے شعراء کے قومی و ملی جذبہ کی ایک ایسی مثال کے طور بھی ہمیشہ یاد رہے گا

بدھ 5 ستمبر 2018

شاذیہ سعید
قومی امنگوں کو اجاگر کرنے اور قوم میں جذبہ حریت پیداکرنے کی غرض سے6ستمبر 1965ء میں شعراء نے ملی اور رزمیہ گیتوں‘ نظموں اور خصوصاً غزلوں اور غزل نما ترانوں کے ذریعے اپنے جذبہ حب الوطنی کا جو یادگار ثبوت فراہم کیا ہے وہ نہ صرف یہ کہ ایک قومی شعری سرمائے کے طور پر محفوظ ہوچکا ہے بلکہ پوری قوم کے جذبات کی نمائندگی کرنے والے ہمارے شعراء کے قومی و ملی جذبہ کی ایک ایسی مثال کے طور بھی ہمیشہ یاد رہے گا کہ جس کا کوئی نعم البدل نہیں۔

اس جنگ میں پاکستانی افواج نے جس بے مثال جرأت اور بہادری کا مظاہرہ کیا اسکی مثال نہیں ملتی۔ یہ وہ موقع تھا جب پوری قوم یک جان و یک قالب ہوگئی اورشعرا ء نے اس واقعہ کو شعری پیکر میں ڈھالا، جنگی ترانے فضا میں بکھرے،رزم نامے تخلیق ہوئے، قومی اور ملی عکاسی کی نظمیں لکھی گئیں۔

(جاری ہے)

گیت اور غزل کے روپ میں جذبہ آزادی کا احساس قومی گونج بن کر وطنِ عزیز کی فضاؤں میں بکھر گیا۔

اس 17روز ہ جنگ کے دوران کوئی سندھی ، پنجابی، پٹھان ، بلوچی نہ رہا، سب کے سب قومی وحدت کی ایک لڑی میں پروئے گئے۔ ترانوں کی شکل میں رزمیہ ذخیرہ تو الگ سے شعری باب مکمل کرتا ہے۔ لاہور میں ریڈیو پاکستان نے جنگ ستمبر کے دوران ثقافتی محاذ کا کردار ادا کیا۔ ہر شعبے خاص طور پر اناؤنسمنٹ اور موسیقی کے شعبے نے وہ کام کیا جو سنہری تاریخ کا حصہ ہے۔
صوفی تبسم سمیت کتنے ہی اہل قلم نے لاہور ریڈیو کے کمروں میں بیٹھ کر لمحوں میں تاریخی ملی نغمے لکھے اور گھنٹوں میں انکو ریکارڈ کر کے نشر کر دیا گیا۔ 6ستمبر 1965ء کی جنگ کے دوران ریڈیو پاکستان سے جن مشہور گلوکاروں نے مجاہدین وطن اور افواج پاکستان کے لئے جو ملی نغنے گائے جو ہمیشہ یاد رکھے جائیں گے ان کی تفصیل زیر تحریرہے۔
ملکہ ترنم نور جہاں نے اپنی آواز کا نذرانہ جن ترانوں کی صورت میں پیش کیا ان میں: ’’میرے ڈھول سپاہیا‘‘،’’ اے پتر ہٹاں تے نئی وکدے‘‘، تیرے باجرے دی راکھی‘‘،’’کرنیل نی جرنیل نی‘‘، میرا سوہنا شیر قصور نی‘‘ جسے غلام مصطفیٰ تبسم نے لکھے،’’اے وطن کے سجیلے جوانوں‘‘ جسے جمیل الدین عالی نے تحریر کئے، ’’جاگ اے مجاہد وطن‘‘، ’’امیدفتح رکھو‘‘مظفر وارثی نے لکھے، تنویر نقوی کا ’’رنگ لائے گا شہیدوں کا لہو‘‘ڈاکٹر علامہ محمد اقبالؒ کا ’’ہر لحظہ مومن،فیض احمد فیض کا لکھا ترانہ ’’اے وطن اے وطن تیری للکار پہ‘‘ شامل ہیں۔

مسعود رانا نے حمایت علی شاعر کے لکھے ’’جاگ اٹھا ہے سارا وطن، ’’اے دشمن دین تو نے‘‘ ترانے گائے۔ اس کے علاوہ ولی صاحب کا’’یہ غازیوں کا قافلہ‘‘، جوش ملیح آبادی کا ’’اے وطن ہم ہیں تیری شمع‘‘، آشور کاظمی کا’’ نعرہ حیدری‘‘،بریگیڈئیر ضمیر احمد جعفری کا’’زندہ باد اے وطن کے غازیوں‘‘ اور حبیب جالب کا لکھا ’’کر دے گی قوم زندہ‘‘ ترانے گائے۔
معروف پلے بیک سنگر سلیم رضا65ء کے جنگ کے دوران ’’قرآن پہ عمل کرو‘‘،’’اے وطن میرے وطن‘‘، م’’میرے محبوب وطن‘‘، سیالکوٹ تو زندہ رہے گا‘‘، ’’تو ہے عزیز ملت‘‘، سلام پاک فوج‘‘،’’توحید کے متوالوں‘‘، ’’اے ہوا کے راہیوں‘‘۔’’نگری داتا کی‘‘،’’ساتھیوں سبز پرچن اڑاتے چلو‘‘،’’طارق اک جرنیل ہمارا‘‘،’’ ات وطن اسلام کی امید گا‘‘،’’مشرقی بنگال کے آتش بجانو کو سلام‘‘،’’ سوئے منزل چلے‘‘،’’ میرے لہور شیر دیاں خیراں‘‘،’’ میرے وطن کے رکھوالوں نے کیسا وطن بچایا‘‘ جیسے ترانے گا کر اپنے ملک سے اپنی محببت کا ظہار کیا۔
مہدی حسن نے ‘‘اپنی جاں نذر کروں‘‘، ’’اب فتح مبین ہے‘‘۔’’وطن کی آبرو رکھ لی‘‘۔’’سیالکوٹ کے میدان خاردار کو دیکھ‘‘،’’ اس قوم کو شمشیر کی حاجت نہیں رہتی‘‘،’’ تو نگہبان چمن ہے‘‘، ’’ہم پسندوں کو نہیں جنگ گوارا‘‘،’’پاک شاہینوں سلام‘‘،’’ خطہ لاہور تیرے جان نثاروں کو سلام‘‘،’’اے ارض لاہور ، اے اہل لاہور‘‘،’’ عظیم قوم کے بیٹے‘‘ جیسے لازوال نغمے گائے۔
نسیم بیگم نے’’اے راہ حق کے شہیدوں‘‘،’’اے مدار وطن اونچا ہے تیرا نام‘‘، ’’وطن کی شان میرا ہمراہی‘‘، ’’ ڈھول سجیلے‘‘ جیسے ترانے گائے۔ عنایت حسین بھٹی نے ’’وطن کو تم پر فخر ہے‘‘، ’’ اے مرد مجاہد جاگ ذرا‘‘( 1960ء میں ریلیز ہوا 1965ء میں دوبارہ گایا گیا)، ’’ قدم بڑھاؤ ساتھیوں‘‘( 1960ء میں ریلیز ہوا 1958ء میں دوبارہ گایا گیا) اور ’’زندہ دلوں کا گہوارہ ہے مسرگودھا میرا شہر‘‘ جیسے ترانے گائے۔
نسیمہ شاہین نے ’’ اے وطن بیدار ہیں تیار ہیں‘‘،’’اے وطن زندہ و پائندہ رہے‘‘، ’’تم سلامت رہو غازیان ون‘‘ اور ’’اے میرے نور نظر، جاتا ہے تو با راہ جہد‘‘ ترانے گائے۔ تاج ملتانی کے حصے میں ‘‘ جاگ رہا ہے پاکستان‘‘، اج ہندیاں جنگ دی گل چھیڑیں‘‘،’’ یہ دس کروڑ انسان ملت کے نگہبان‘‘،’’ تو حدیث زندگی کی ا س طرح تفسیر کر‘‘، ’’ملت تمام اپنے جوانوں کے ساتھ ہے‘‘،’’ہم اپنے صاف شقاؤ کو سلام کرتے ہیں‘‘۔
’’ اپنے فضائینہ کا انداز دیکھئے‘‘،’’دل صاف شکن جواں‘‘ اور ’’شاہین صفت یہ تیرا ہوا باز اے فضائے پاک‘‘ جیسے ترانے آئے۔احمد رُشدی نے ’’لالہ جی جان دیو‘‘،’’ نصر من اللہ وفتح قریب‘‘،’’ اے وطن کے جوانوں سلامت رہو‘‘،’’اے شیر بنگال‘‘،’’ہر لحظہ مومن‘‘، ’’آسماں پوگا سحر کے نور سے آئینہ پوش‘‘،’’ہم اگر عرض کریں گے تو شکایت ہوگی‘‘،’’ دوریو باپو بھارت دیش کی ہو گئی جگن ہنسائی‘‘،’’اے ارض وطن تیرے جواں تیرے جوں تیرے دلاور‘‘،’’ میدان میں نکلے شیران حیدر‘‘،’’ یہ فیصلہ ہے ہمارا اب سر میدان‘‘،’’ میری سرحد کو میرا لہو چاہیے‘‘،’’ حسبنا اللہ و نعم الوکیل‘‘،’’لاہور سر بلند ہے لاہور زندہ باد‘‘، فرمان روا بیہار عرب پاک بحریہ‘‘ جیسے ترانوں سے لہو گرمایا۔
عالم لوہار نے ’’جگنی پاکستان دی‘‘،’’ساڈے شیراں پاکستان دی‘‘،’’ جنگ دی جگنی‘‘ جیسے فوک نغنے گائے۔محمد افراہیم کو ’’ ہاتھوں میں قرآن اٹھا کے ہم آج کرتے ہیں علان‘‘، شہناز بیگم کو’’ سبز پرچم کو بنا کے عظمت دین کا نشان‘‘، ریحانہ یاسین کو اے وطن کے پاسباں اے وطن کے نوجواں‘‘، مالا کو ’’ اے میرے وطن کے پاسباں زندہ باد‘‘ اور’’اے میرے پاک وطن تیرے جیالوں کو سلام‘‘ جیسے ترانہ گانے کا موقع ملا۔
مجیب عالم نے ’’اے میرے وطن‘‘، پاکستان کے سارے شہروں زندہ رہو پائندہ رہو‘‘اور اخلاق احمد نے ’’ملت کے پاسبانوں‘‘ جیسے نغمے اپنے نام کئے۔ زرینہ آغا نے ’’مکھ تکیا اے سجنا دا‘‘،’’ماہی چھلیا نی میرا ماہی چھلیا‘‘،’’ علی علی کی صدائیں ہیں‘‘،’’ وطن دا غازی‘‘ جیسے ترانے گائے۔
طاہرہ سید نے ’’میرے ویر سپاہیا‘‘،’’ جگمگ جگمگ چاند ستارے‘‘، ’’اے وطن اے وطن‘‘،’’ مومن لڑدا اے‘‘ ترانے اپنے نام کئے۔ عشرت جہاں کو’’ تم نے جیت لی جنگ‘‘، ’’اے وطن اے وطن‘‘، مشرقی پال کے نوجوانوں غازیوں‘‘،’’ یہ موج نفس کیا ہے‘‘اور ’’ میرے بہادر بھیا سینہ سپر رہنا‘‘ جیسے ترانے گانے کا اتفاق ہوا۔
زاوار حسین کو ’’ دن رات پٹے گا جب دشمن‘‘،اور علی علی امین و ذوالفقار ہم‘‘ کیسے نغمے گانے کا موقع ملا۔منیر حسین نے ’’دشمن اج لڑکھڑایا ‘‘،’’سمندروں کے پانیوں‘‘، نیہال عبداللہ نے ’’ پاکستانی بڑے لڑایا‘‘، حبیب ولی محمد نے ’’لہو جو سرحد پے بہہ چکا‘‘،شاہ مرداں ،شیر یزداں‘‘،’’اے سپاہان وطن حیدری شمشیر ہو تم‘‘اور’’اے نگار وطن تو سلامت رہے‘‘، استاد امانت علی خان نے ‘‘ اے تجھ کو جنت بنائیں گے ہم‘‘، ’’وطن پاک کی عظمت کے سہارے ہو تم‘‘اور اے شہیدان وطن تم پر سلام‘‘، رونا لیلی نے ’’تم کو سلام میرا‘‘اور ’’وطن کی راہ میں جو مرتے ہیں‘‘، اختری قریشی نے ’’ہم معصوم سپاہی‘‘ اور’’میں چھوٹا سا اک لڑکا ہوں‘‘ جبکہ گلوکارہ ناہید نیازی نے ’’ میرے وطن کے شہیدوں کے سربراہ سلام‘‘ اور ’’دیس دی آن بچائی نے‘‘ جیسے ملی و جنگی ترانے گا کر نہ صرف عوام بلکہ افواج کے لہو کر گرمایا اور ان میں جذبہ حب وطنی اجاگر کیا۔
ان میں بعض ترانوں کو صدارتی ایوارڈ سے بھی نوازا گیا۔

Browse More Articles of Lollywood