Gaaye Gi Duniya Geet Mere

Gaaye Gi Duniya Geet Mere

گائے گی دنیا گیت میرے

ملکہ ترنم نور جہاں 21ستمبر 1928 کو بلھے شاہ کے شہر قصور میں پیدا ہوئیں۔ ان کا نام والدین نے اللہ وسائی رکھا، ان کے گھرانے کا تعلق موسیقی کی دنیا سے ہی تھا

منگل 25 دسمبر 2018

خالد یزدانی
ملکہ ترنم نور جہاں 21ستمبر 1928 کو بلھے شاہ کے شہر قصور میں پیدا ہوئیں۔ ان کا نام والدین نے اللہ وسائی رکھا، ان کے گھرانے کا تعلق موسیقی کی دنیا سے ہی تھا، لہذا اوائل عمری ہی میں ’’اللہ وسائی‘‘ کو موسیقی کی تربیت دینے کے لئے استاد کی خدمات حاصل کی گئیں ، ان دنوں اللہ وسائی کو گانے سے زیادہ اداکاری کا شوق تھا۔

یہ وہ دور تھا جب برصغیر میں نوٹنکی یعنی تھیٹر کا رواج تھا اور میلوں میں ایسے تھیٹر لگائے جاتے تھے جن میں فنکار اپنی آواز اور اداکاری کے جوہر دکھایا کرتے تھے۔اور عوام بھی بڑے شوق سے تھیٹر دیکھنے جایا کرتے تھے ۔ موسیقی کی تربیت بابا غلام محمد سے حاصل کی یہ بات قابل ذکر ہے کہ اللہ وسائی نے بہت جلد موسیقی کے اسرار رموز پر عبور حاصل کر لیا تھا ۔

(جاری ہے)

کم عمری ہی میں ان کو سٹیج پر اداکاری اور گلوکاری کا موقع مل گیا ،جبکہ ان کی بہنیں بھی اسی شعبے سے وابستہ تھیں، اس دوران وہ اپنی بہنوں کے ساتھ قسمت آزمائی کے لئے کلکتہ آگئیں اور 1935ء میں بننے والی اور فلم پنجاب میل میں گلوکاری اور اداکاری کے جوہر دکھائے۔ اس میں انہوں نے جو پہلا گیت گایا اسکے بول تھے۔
’’سوہنا دیساں وچوں دیس پنجاب‘‘
تھا۔
اس دوران اس وقت کی معروف مغنیہ مختار بیگم نے بھی اس کمسن بچی کی خداداد صلاحیتوں کا اندازہ لگا کر اپنے شوہر آغاحشرکاشمیری (جو بر صغیر میں تھیٹر کی دنیا کی مشہور شخصیت تھے )کو کہہ کر تھیٹر میں ملازمت دلوا دی اور اس کا نام اللہ وسائی سے ’’بے بی نور جہاں‘‘ رکھ دیا گیا۔ اسی دوران بے بی نور جہاں کی بہنوں بھی کو ایک اور تھیٹر کمپنی میں ملازمت مل گئی تھی ۔
اس دوران بے بی نور جہاں نے کئی فلموں میں بچپن کے کردار بخوبی نبھائے جبکہ 1936ء میں فلم ’’پنڈ دی کڑی‘‘ اور مصر کا ستار میں گلوکاری اور اداکاری کے جوہر بھی دکھانے کا موقع ملا ۔ 1937ء میں ہیر سیال میں بھی بے بی نور جہاں نے ایک کردار کیا تھا۔ کچھ عرصہ کلکتہ میں رہنے کے بعد نور جہاں لاہور آگئیں، جہاں اس وقت کے مشہور موسیقار ماسٹر غلام حیدر کی دھنوں پر نور جہاں نے اپنی آواز کا جادو جگایا، جس سے فلمی دنیا میں اس کی شہرت ہونے لگی، اس دوران پہلی بار پنچولی سٹوڈیوز میں فلم گل بکاؤلی کے لئے ایک گانا ریکارڈ کروایا
’’شالا جوانیاں مانیں‘‘
اور 1942ء میں ہندوستان میں بننے والی فلم ــخاندان‘‘ میں نور جہاں نے اداکار پران کے مدمقابل کردار ادا کیا اور اس فلم کی کامیابی سے نور جہاں کی بطور اداکارہ کی پہچان ہوئی۔
سال 1943ء میں فلم ’’دہائی‘‘ کے لئے بطور پلے بیک سنگر گیت ریکارڈ کروایا۔
فلم خاندان کی کامیابی سے نور جہاں کی پہچان بطور اداکار و گلوکار ہو گئی تھی، لہذا اس فلم کی کامیابی کے بعد وہ لاہور سے بمبئی آگئیں، جہاں نور جہاں کی ملاقات ہدایتکار سید شوکت حسین رضوی سے ہوئی اور پھر یہ ملاقات شادی پر ہی ختم ہوئی اور یہ اس موقع پر نور جہاں کے خاندان نے بھی اس شادی کی بھر پور مخالفت کی تھی اور سید شوکت حسین رضوی کے دوست کی حیثیت سے اردو کے مشہور افسانہ نگار سعادت حسن منٹو بھی اس شادی کے مخالف تھے۔
اس دوران 1945ء میں نور جہاں نے فلم ’’بڑی ماں‘‘ میں مرکزی کردار ادا کیا تھا جبکہ آج بھارت کی معروف گلوکارہ لتا منگیشکر اور آشا بھوسلے نے اس فلم میں بچپن کے کردار نبھائے تھے۔ برصغیر کی تقسیم سے قبل فلم ’’مرزا صاحباں‘‘ آخری فلم تھی۔ اس لحاظ سے دیکھا جائے تو 1932ء سے لے کر 1947ء تک اوائل تک نور جہاں نے متعدد فلموں میں ایک سو ستائس کے قریب گانے ریکارڈ کروائے اور 69 فلموں میں اداکاری کے جوہر بھی دکھائے۔
اس دوران بارہ خاموش فلموں میں بھی اداکاری کی تھی۔ 1947ء میں قیام پاکستان کے بعد نور جہاں شوکت حسین رضوی کے ساتھ پہلے کراچی آئیں پھر دونوں نے لاہور ہی کو اپنا مسکن بنا لیا۔ اس دوران سید شوکت حسین رضوی نے ملتان روڈ پر سٹوڈیوز کی تزئین و آرائش کی اور اسے شاہ نور سٹوڈیوز کا نام دیا۔ 1951ء میں نور جہاں کی پنجابی فلم ’’چن وے‘‘ نمائش کے لئے پیش کی گئی جو بطور ہیروئن پاکستان میں ان کی پہلی فلم تھی۔
ہدایات بھی انہوں نے دی تھیں۔ 1952ء میں نور جہاں کی فلم ’’دوپٹہ‘‘‘ ریلیز ہوئی جس کے ہدایت کا سبطین فضل تھے جبکہ فلم کی موسیقی فیروز نظامی نے ترتیب دی تھی۔ یہ فلم باکس آفس پر سپرہٹ ثابت ہوئی اس میں نور جہاں کے مد مقابل اداکار نے کام کیا تھا۔ فلم کے گیت جو نور جہاں نے گائے تھے بھی سب کی زبان پر زد عام تھے۔ خاص طور پر یہ گیت
سب جگ سوئے ہم جا گیں
دنیا سے کریں باتیں
چاندنی راتیں
اس کا آج بھی نور جہاں کے مقبول ترین گانوں میں شمار ہوتا ہے۔
53۔ 1952ء کے دوران نور جہاں اور سید شوکت حسین رضوی میں اختلافات پیدا ہوئے جو وقت کے ساتھ بڑھتے ہی چلے گئے۔ ان اختلافات میں زیادہ حصہ دار کون تھا اس سے قطع نظر ان دونوں میں صلح کی تمام تر کوششوں کے باوجود علیحدگی ہو گئی۔ سید شوکت حسین سے نور جہاں کے بطن سے ایک بیٹی ظل ہما اور دو بیٹے اکبر حسین رضوی اور اصغر حسین رضوی پیدا ہوئے۔ جہاں تک نور جہاں کی ازدواجی زندگی کا تعلق ہے تو اس کی دوسری شادی اداکار اعجاز درانی سے ہوئی جس کے بعد انھوں نے زیادہ تر توجہ گھرداری پر مرکوز کر لی جبکہ بطور اداکارہ ’’مرزا غالب‘‘ میں بھی ان کی اداکاری کو سراہا گیا تھا یہ فلم اداکاری کے حوالے سے ان کی آخری فلم تھی ۔
اس دوران بطور اداکارہ انہوں نے متعدد اردو شعرا کی غزلوں کو بھی خاص طور پر جس طرح ملکہ پکھراج نے حفیظ جالندھری کے کلام ’’ابھی تو میں جوان ہوں‘‘
گا کر لازوال شہرت حاصل کی تھی ملکہ ترنم نور جہاں نے فیض احمد فیض کے کلام
’’مجھ سے پہلی سی محبت میرے محبوب نہ مانگ‘‘
بھی گا کر داد سمیٹی، اسی طرح علامہ اقبالؒ کے کلام
’’ہر لحظہ مومن کی…‘‘
بھی ایسا دل سے پڑھا کہ آج بھی وہ سنائی دے تو سننے والے بے ساختہ نور جہاں کی گائیگی کی تعریف کرتے ہیں ۔

فلم ساز و اداکار اعجاز سے شادی کے بعد اگرچہ ملکہ ترنم نور جہاں کا بطور گلوکارہ فنی سفر جاری رہا لیکن ان کی اعجاز درانی سے شادی بھی کچھ عرصہ بعد ہی اختلافات کی نذر ہو گئی تھی ۔
جنگ ستمبر 1965ء میں جب بھارتی فوج نے پاکستان کے دل لاہور سمیت سرحدوں پر حملہ کیا تو افواج پاکستان نے ڈٹ کر ان کا مقابلہ اور پاکستانی عوام نے بھی اپنے شیر دل جوانوں کا حوصلہ بڑھایا اس موقع پر ریڈیو پاکستان نے ثقافتی محاذ کو سنبھالا اور کئی شاعروں رئیس امروہوی ، محمود شام، طفیل ہو شیار پوری، مسرور انور ،شورش کاشمیری ،رشید انور جیسے شعرا کرام کے لکھے جنگی ترانوں کو ملکہ ترنم نور جہاں اور مہدی حسن، شوکت علی، منیر حسین جیسے گلاکاروں نے گا کر امر کر دیا۔
ان دنوں خاص طور پر ملکہ ترنم نور جہاں جنگ ستمبر میں ریڈیو پاکستان لاہور ہی میں زیادہ وقت گزارنے لگیں تھیں اس دوران انھوں نے صوفی تبسم کے ترانوں
’’میریا ڈھول سپاہیا تینوں رب دیاں رکھاں‘‘
’’میرا ماہی چھیل چھبیلا، جرنیل نی کرنیل نی‘‘
اور پھر ’’میرا سوہنا شہر قصور‘‘ بھی ایسا دل سے گایا اور اس جذبے سے گایا کہ سارا پاکستان ان کے نغموں سے گونجنے اور دشمن کی افواج کے حوصلے پست کرنے میںممد و معاون ثابت ہوا جس کا اعترافسب نے کیا۔
بلکہ ان دنوں فنکاروں نے سرحد پر جاکر اپنے فوجیوں کا حوصلہ بھی بڑھایا ۔
ایک دور ایسا بھی آیا جب ملکہ ترنم نور جہاں کے گائے گیتوں کے بغیر فلم بنانے کا تصور مشکل تھا جبکہ پنجابی فلموں میں تو ان کی آواز لازم و ملزوم ہو کر رہ گئی تھی۔ فلم خریدنے والے پہلے پوچھتے تھے کہ اس فلم کے اداکار کون کون ہیں اور ملکہ ترنم نور جہاں نے فلم میں کتنے گیت گائے۔

ملکہ ترنم نور جہاں نے اپنی فنی زندگی میں کم از کم دس ہزار کے قریب گیت گائے۔
ستر کی دہائی میں ایک فلم ’’کیدو‘‘ کا سکرپٹ والد محترم (یزدانی جالندھری) لکھ رہے تھے، اس فلم کے ہدایتکار کے طور پر ایم سلیم کا نام فائنل ہوا جبکہ سکرپٹ لکھنے کے دوران موسیقی کا کام بھی جاری تھا فلم چھومنتر اور دل لگی کے موسیقار ماسٹر رفیق علی نے دو گانوں کی دھنیں ترتیب دیں اور پہلا گانا ’’باری سٹوڈیوز‘‘ میں ملکہ ترنم نور جہاں کی آواز میں ریکارڈ ہوا۔
اس گانے کی ریکارڈنگ کے دوران ملکہ ترنم نور جہاں نے دوبار گانا گنگنایا اور پھر ’’فائنل ٹیک‘‘ ریکارڈ ہو گئی۔ میری ان سے پہلی ملاقات تھی، بعدازاں فلمی دنیا میں مختلف مواقعوں پر ان سے ملنے اور گفتگو کے مواقع بھی ملے اور صحافت کے دوران ان پر گانوں کا ٹیکس نہ دینے پر انکم ٹیکس کی طرف سے مقدمہ بھی ہوا جو آخر میں جی پی او کے سامنے پرانے سٹیٹ بنک کی بلڈنگ میں فیصلہ ہونا تھا ملکہ ترنم نور جہاں بھی پیش ہوئی تھیں۔
راقم کی ڈیوٹی ’’نوائے وقت‘‘ کے کلچرل رپورٹر کے طور پر میری تھی لہٰذا اس کیس کو ایک رکنی بنچ کے جج نے سنا اور فیصلہ محفوظ کر لیا۔ میں نے عدالت کے عملہ کے ایک ذمہ دار سے پوچھا کہ یہ فیصلہ کب آئے گا تو اس کا جواب تھا یہ جج صاحب کی مرضی پر ہے۔ وہ آج شام کر دیں کل، پرسوں یا ایک ماہ بعد۔ وہ موبائل کا دور نہیں تھا میں نے اپنے آفس کا نمبر اسے لکھوایا کہ اگر ممکن ہو تو مجھے اطلاع کر دیں تاکہ خبر ’’مس‘‘ نہ ہو۔
بہرحال جہاں تک مجھے یاد ہے اس فیصلے کا کیا ہوا، معلوم نہ ہوا۔
اسی طرح ایک ثقافتی تنظیم نے اداکارہ صبیحہ خانم کو خراج تحسین کے طور پر ایک شاندار تقریب کا پروگرام ترتیب دینے کے لئے ایک ہوٹل میں چند احباب کو مدعو کیا جس میں ملکہ ترنم اور صبیحہ خانم اکٹھی تشریف لائیں اور اس تقریب کے لئے بلاکسی معاوضے کے اپنی خدمات پیش کیں۔ یہ صبیحہ خانم سے ان کی محبت کا ثبوت ہے۔
اسی طرح جب یہ افواہ گرم ہوئی کہ وہ گلے کے آپریشن کے سلسلے میں امریکہ جا رہی ہیں تو میں نے ان سے رابطہ کیا تو انہوں نے خبروں کی پرزور تردید کی اور کہا میں صرف اپنی بیٹی سے ملنے جا رہی ہوں ان افواہوں میں کوئی حقیقت نہیں، آپ کا شکریہ کہ آپ نے فون کرکے مجھ سے پوچھ لیا۔
ملکہ ترنم نور جہاں نے اپنی زندگی میں دس ہزار سے زائد گانے ریکارڈ کروائے اور قابل ذکر بات یہ ہے کہ اپنے ابتدائی دور میں یعنی قیام پاکستان کے بعد بننے والی ایک فلم میں گانے کا معاوضہ چھ ہزار روپے لیا تھا ۔
2000ء میں ملکہ ترنم نور جہاں کچھ علیل رہنے لگی تھیں اور اپنی ایک صاحبزادی جو کراچی میں مقیم ہیں کے پاس چلی گئیں اور 23دسمبر 2000ء کو 73 سال کی عمر میں وہیں وفات پا گئیں۔ ان کو کراچی کے مقامی قبرستان میں سپرد خاک کر دیا گیا۔ملکہ ترنم نور جہاں کو اس جہان فانی سے گئے ستر سال ہو گئے ہیں لیکن ان کا فن گلوکاری کی صورت میں موجود ہے آج بھی فضائوں میں جب ان کے گائے گیت گونجتے ہیں تو سب ان کو داد تحسین دیتے ہیں اور وہ تو خود اپنی زندگی میں گا گئی ہیں
’’گائے کی دنیا گیت میرے‘‘
جبکہ گوگل نے ملکہ ترنم نور جہاں کی سالگرہ کے حوالے سے ’’ڈوڈل‘‘ کی صورت خراج تحسین پیش کیا۔
اور کیوں نہ کیا جائے فن کار کی سریلی آواز جہاں جہاں جاتی ہے سننے والوں کو اپنا گرویدہ بنا لیتی ہے۔

Browse More Articles of Lollywood