Breaking Di Baireraz

Breaking Di Baireraz

بریکنگ دی بیر ئیرز

72 سالوں میں پہلی بار شناخت ملی

جمعہ 4 جنوری 2019

 وقار اشرف
2018ء اپنے ساتھ کئی تلخ وشیریں یادیں لے کر رُخصت ہورہا ہے اور 2019ء کا سورج کئی اُمیدیں لیکر طلوع ہونے جارہا ہے ۔یہ سال تیسری صنف یعنی ٹرانس جینڈر کمیونٹی کیلئے کسی حد تک بہتر رہا ہے کیونکہ 72سالوں میں پہلی بار ان کے حقوق کے حوالے سے قانون سازی ہوئی ہے ورنہ تو معاشرتی وجود کا حصّہ ہونے کے باوجود انہیں ان کا جائز حق دینا تو دور کی بات ہے انہیں قبول بھی نہیں کیا جارہا تھا،ان کیساتھ ایسا سلوک روا رکھا جاتارہاہے جیسے یہ جیتے جاگتے انسان نہیں بلکہ کسی اور سیارے سے زمین پر غلطی سے اُتر آنیوالی مخلوق ہے ۔

ہماری تنگ نظری اور رجعت پسندی نے انہیں قومی شناختی کارڈ کے اجراء سے بھی محروم رکھا ہوا تھا۔
2018ء اس کمیونٹی کیلئے مجموعی طور پر کیسا رہا؟یہ جاننے کیلئے ہم نے ٹرانس جینڈر کمیونٹی کے حقوق کیلئے سر گرم ایکٹی وسٹ جنت علی کیساتھ ایک نشست میں تفصیلی گفتگو کی۔

(جاری ہے)

جنت علی 17ملکوں میں پاکستان کی نمائندگی کرکے کمیونٹی کے حقوق کیلئے آواز بلند کر چکی ہیں ،13ملکوں میں پر فارم بھی کیا ہے ۔

وہ ”ساتھی فاؤنڈیشن “کے پلیٹ فارم پر کمیونٹی کے حقوق کی جدوجہد کررہی ہیں جو ٹرانس جینڈر ز کا پاکستان میں سب سے پہلا ادارہ ہے ۔
جنت علی نے گفتگو کا آغاز کرتے ہوئے بتایا کہ مجموعی طور پر یہ سال کمیونٹی کیلئے اچھا رہا ہے ،اس سال کے دوران سب سے بڑی بات تو یہ ہے کہ ہمیں شناخت ملی ،ٹرانس جینڈررائٹس بل پارلیمنٹ سے منظور ہو کر باقاعدہ قانون بن چکا ہے جو 72سالوں میں سب سے بڑی کامیابی ہے ،آغاز میں لوگ ہماری جدوجہد کا مذاق اُڑاتے تھے کہ جو کام ہم برسوں سے نہیں کرسکے ،وہ کل کے بچے کیا کریں گے ؟ان لوگوں کے طنزیہ جملے ہمیں آج بھی یاد ہیں ۔

جب ہم اس بل پر کام کررہے تھے تو کئی اداروں نے ہمارے خلاف ایک کمپین چلائی ،ہمیں دھمکیاں بھی دی گئیں کیونکہ کچھ مذہبی عناصر بھی اس میں شامل ہو گئے تھے ،2018ء کا تھیم ”بریکنگ دی بیرےئرز“تھا ،واقعی اس سال کے دوران ایسی ایسی چیزیں ہوئیں جو پچھلے 72سالوں میں نہیں ہوئیں ۔سوشل ویلفےئر ڈ یپارٹمنٹ کے تحت پہلا ٹرانس جینڈر کمیونٹی سینٹر بنے گا جس میں صرف ٹرانس جینڈر ہوں گے ،وہ بلڈنگ کسی فرد کی نہیں بلکہ کمیونٹی کی ملکیت ہوگی ،زندگی کے مختلف شُعبوں میں ہماری رسائی ہوئی ہے ،کوک اسٹوڈیو کی تاریخ میں پہلی بار ٹرانس جینڈر گلوکار نجمہ گوگی اور لکی خان مین سٹریم میں عاطف اسلم اور عابدہ پروین وغیرہ کے ساتھ آئیں ،اسی طرح ملک کی پہلی ٹرانس جینڈر اینکر مارویہ ملک بھی سامنے آئیں اور خود کو منوایا ،قائداعظم یونیورسٹی کی وزیٹنگ فیکلٹی میں پہلی ٹرانس جینڈر شامل ہوئیں جن کا نام عائشہ مغل ہے ۔
ہم ایک ٹرانس جینڈر بینڈ بھی لانچ کرنے جارہے ہیں جس کی ریکارڈ نگز مکمل ہوچکی ہیں تاہم بینڈ کانام ابھی فائنل نہیں ہوا ۔اس سال کے دوران ٹرانس جینڈر بیسڈ اور ٹرانس جینڈر لیڈسر گرمیاں بڑھی ہیں جسے میں بڑی کامیابی سمجھتی ہوں ۔
2018ء ٹرانس جینڈر کمیونٹی میں سیاسی شعور کی بیداری کے حوالے سے بھی اہم رہا ہے ،مُلکی تاریخ میں پہلی بار بڑی تعداد میں ٹرانس جینڈر امیدواروں نے عام انتخابات میں بھر پور حصّہ لیا ،اسی طرح پہلی بار ایک بڑی تعداد میں کمیونٹی کے لوگوں نے ووٹ بھی کاسٹ کیا ،سکولوں میں پہلی بار جینڈر اوےئر ینس کے حوالے سے باقاعدہ مُہم چلائی گئی ،میں خود کئی جگہوں پر گئی ہوں ۔
ہم نے ٹرانس جینڈر کی تعریف میں ٹرانس جینڈر ویمن کے ساتھ ساتھ ٹرانس جینڈر مین کی اصطلاح بھی متعارف کروائی ہے جو پہلے نہیں تھی اور اسے قانون میں بھی شامل کیا گیا ہے ۔
2018ء کے دوران ٹرانس جینڈر کمیونٹی کے کئی ارکان نے ٹی وی ڈراموں میں بھی اداکاری کی ۔نغمہ گوگی اور لکی خان نے کوک اسٹوڈیو میں شرکت کیساتھ ساتھ ڈرامہ ”آخری سٹیشن “میں اداکاری کے جوہر بھی دکھائے ،اس سے پہلے ڈرامہ سیریل ”مورمحل“میں بھی سرمد کھوسٹ کو کہہ کر 20ٹرانس جینڈر فنکاروں کو موقع دلوایا تھا ۔

اس سال کے دوران میں نے سی سی ایم (کنٹری کوآرڈینیٹر میکانزم )کا الیکشن بھی ”ساتھی فاؤنڈیشن “کے پلیٹ فارم سے جیتا ،اسی طرح قومی سطح پر کمیونٹی کے لئے ہیلتھ پالیسیز متعارف کروائی گئیں ۔ایچ آئی وی اور ٹی بی کے حوالے سے کمیونٹی کو بہت زیادہ اوےئر نیس بھی دی گئی ہے ۔
2018ء کے دوران ٹرانس جینڈر ز کے خلاف تشدد کے بہت زیادہ واقعات سامنے آئے بالخصوص خیبر پختونخواہ اور پشاور میں زیادہ واقعات رپورٹ ہوئے ہیں ۔
اس حوالے سے جنت علی نے بتایا کہ بے شک ایسے واقعات میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے لیکن میرے خیال میں اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ اب کمیونٹی خاموش نہیں رہتی اور کوئی واقعہ رونما ہوتا ہے تو وہ باقاعدہ پورٹ ہوجاتا ہے جس کی وجہ سے لگتا ہے کہ شاید اس سال کے دوران ٹرانس جینڈر ز کے خلاف زیادہ تشدد کے واقعات سامنے آئے ہیں ۔عاشی جان ،نیلی رانا اور محسن ایسے واقعات کے حوالے سے بہت زیادہ سر گرم رہی ہیں ۔

پہلی بار اسے واقعات کی روک تھام کے لئے ایک ٹاسک فورس بنی ہے اور کمیونٹی کے خلاف وائیلنس کا کوئی کیس سامنے آتے ہی یہ ٹاسک فورس فوری طور پر سر گرم ہوجاتی ہے اور ہر ممکن حد تک جاتی ہے ۔
وائیلنس کے خلاف لوگوں کو آواز اُٹھانے کیلئے قائل کرنا ہمارے لئے ایک بڑا چیلنج تھا کیونکہ کمیونٹی کے لوگ بدمعاشوں کے ڈر سے آواز اُٹھاتے ہوئے ڈرتے تھے کہ کہیں وہ مزید نقصان نہ پہنچائیں ۔

وائیلنس کے واقعات کا ایک نقصان یہ ہوا ہے کہ کئی اداروں نے ٹرانس جینڈر کے نام پر آگے آکر معاملات کو خراب کیا اور ٹرانس جینڈرز کے نام پر اپنی دوکانداری چمکائی ہے ،ان لوگوں کی چونکہ حکومتی ایوانوں تک بھی رسائی ہے اس لئے انہیں ہمارے نام پر فنڈز بھی مل جاتے ہیں ۔
2018ء کی کامیابیوں کے ساتھ ساتھ کمیونٹی کے افراد کو کئی مسائل کا بھی سامنا کرنا پڑا ۔
ٹرانس جینڈر حقوق کے حوالے سے کئی نئے ادارے بنے لیکن حکومت کی طرف سے رجسٹر یشن کا عمل بہت مشکل کردیا گیا ہے۔جس کی وجہ سے نئے اداروں کو رجسٹر کروانے میں مشکل کا سامنا کرنا پڑا ہے ۔ہم کوئی پراجیکٹ شروع کرتے ہیں اور جب کمیونٹی کی باقاعدہ انوالومنٹ شروع ہوتی ہے تو پراجیکٹ ختم ہوجاتا ہے اس کے لئے میں نے کمیونٹی ماڈل کا سوچا جس کے تحت ایک سپورٹ سسٹم بنے گا۔

اس سال کے دوران ٹرانس جینڈرز کا پہلا سکول بھی لاہور میں شروع ہوا جس میں رسمی تعلیم کے ساتھ ساتھ پروفیشنل کو رسز بھی کروائے جاتے ہیں ۔ماڈلنگ میں بھی ہمارے لوگوں نے خود کو منوایا ہے ۔اس سال کے دوران ٹرانس جینڈر ز کئی میوزک ویڈیو ز میں بھی نظر آئے ہیں ،نیلی رانا کا بھی گانا آرہا ہے جس کا ٹائٹل ”فقیرا“ہے ،ٹرانس جینڈرز کا ریڈیو چینل بھی چل رہا ہے ۔
اس سال کے دوران پہلی بار ٹرانس جینڈر کمشنر کا عہدہ بھی تخلیق ہوا ہے ،اگر چہ فی الحال اس پر خاتون سعیدہ وقار ہاشمی کی تعیناتی ہوئی ہے لیکن ہماری خواہش ہے کوئی ٹرانس جینڈر بھی اس عہدے پر تعینات ہو۔
کے ایس ایس میں ٹرانس جینڈرز نے ”کونڈاچاری “کے نام سے ایک پروگرام شروع کیا ہے جس کے تحت گھر میں تیارشدہ کھانے آرڈر پر ڈلیور کئے جاتے ہیں۔
اس کے علاوہ ہماری آن لائن ٹیکسی کمپنیوں کے ساتھ بھی بات چیت چل رہی ہے کہ وہ ہمارے ٹرانس جینڈر ز کو آسان اقساط پر گاڑیاں دیں جس کے بعد ٹرانس جینڈرزڈرائیور بھی آن لائن ٹیکسی چلاتے نظر آئیں گے ۔
ٹرانس جینڈر کمیونٹی میں تعلیم کے حوالے سے کس حد تک شعور اً جاگر ہوا ہے ؟اس حوالے سے جنت علی نے بتایا کہ کافی بہتری آئی ہے ،اب کمیونٹی کے لوگ اپنی فیملیز کو باقاعدہ دلائل دے کر قائل کرتے ہیں اور ہم جیسوں کی بطور رول ماڈل مثالیں دیتے ہیں ،فیملیز کی جانب سے ٹرانس جینڈرز کو اپنانے کی شرح کافی بہتری آئی ہے ،لوگوں کو بھی اندازہ ہو گیا ہے کہ ٹرانس جینڈرز کن اہم جگہوں پر کام کررہے ہیں ،وفاقی وزارت تعلیم کی جانب سے تمام سرکاری سکولوں کو کہا گیا ہے کہ وہ ٹرانس جینڈرز کو باقاعدہ جینڈر کے طور پر ہائی لائٹ کریں ۔

2019ء میں ٹارگٹس کے حوالے سے جنت علی نے بتایا کہ ہماری خواہش ہے کہ کمیونٹی کی پارلیمان میں بھی نمائندگی ہو جس کیلئے ضروری ہے کہ خواتین اور اقلیتوں کی طرح ہمارے لئے بھی ریز روسیٹس ہوں کیونکہ جنرل الیکشن میں جیت کرآنا مشکل ہے ۔حکومتی عہد یدار اگر ہمارے لئے کچھ کرتے ہیں تو انہیں ٹرانس جینڈرز کا نام لے کر ہمارا ذکر کرنا چاہئے ۔جنت علی نے بتایا کہ میں نے پہلی بار ایک نئی اصطلاح ”آرٹی وزم “متعارف کروائی ہے جو آرٹ اور ایکٹوازم کا امتزاج ہے ،پاکستان میں یہ بالکل نئی چیز ہے جس کی وجہ سے مجھے دُنیا بھر میں جانا گیا ہے،پاکستان سے پہلی بار میں امریکہ گلوبل انوویٹر کے طور پر گئی اور اس پلیٹ فارم پر پاکستان کا سبز پہلالی پرچم بلند کیا ۔

میں آرٹ کے ذریعے ایکٹوازم کرتی ہوں اور یہی آرٹی وزم ہے ،میں نے اپنی پرفارمنس کے ذریعے بڑے پاور فل میسجز بھی دئیے جن میں شناخت اور وائیلنس جیسے ایشوز شامل ہیں ۔اس سال کے دوران کمیونٹی کی انوالومنٹ بڑھی ہے جو پہلے اس طرح نہیں تھی ۔پڑھے لکھے لوگوں کے آگے آنے سے ہماری تحریک میں مزید بہتری آئی ہے ،میں 2012ء کے آخر میں لٹریسی پروگرام کے ذریعے اس تحریک کاحصّہ بنی تھی ،ٹرانس جینڈر کلچر کی اپنی زبان ہوتی ہے جسے ہم فارسی کہتے ہیں لیکن یہ پرشین والی فارسی نہیں ہے ،وہ ورلڈبنک کا پروگرام تھا۔

آغاز میں صرف دوٹرانس جینڈر طالب علم تھے لیکن آہستہ آہستہ تعداد 50سے بھی بڑھ گئی اور ہمیں اضافی وقت دینا پڑتا تھا،ویسے مجھے ایکٹیو ازم کا شوق تو شروع سے تھا،سکول کے زمانے میں بیس پچیس گمشدہ بچوں کو والدین سے ملوایا جس پر ایوارڈ ملا تو اندازہ ہوا کہ اس کا پر ایوارڈز بھی ملتے ہیں ۔میری فیملی میں بھی اگر کسی کے ساتھ کچھ ہوتا تو میں ساتھ کھڑی ہو جاتی ۔
آغاز میں لوگوں کو یہ بھی نہیں پتہ تھا کہ ہمیں کیا کہنا ہے ،کوئی ہمیں ”شی میل“کہتا تو کوئی کسی اور نام سے آہستہ آہستہ پتہ چلا کہ ہمارے لئے اصل ٹرم ”ٹرانس جینڈر“ہے ۔شی میل اصل میں سیکیں ور کرہوتے ہیں ،میں ٹرانس جینڈر کلچر کا شروع سے حصّہ نہیں تھی پھر اپنی مرضی سے اپنا گرو منتخب کیا تاکہ اگر اس روٹ لیول تک کمیونٹی تک رسائی ہو اورچیزیں اُجاگر کرسکوں ۔

Browse More Articles of Other