Safia Khairi Episode 2

Safia Khairi Episode 2

صفیہ خیری قسط 2

محترمہ فاطمہ جناح کے حوالے سے اپنی یادیں تازہ کرتے ہوئے صفیہ خیری نے بتایا تھا کہ

بدھ 30 جنوری 2019

 غزالہ فصیح
محترمہ فاطمہ جناح کے حوالے سے اپنی یادیں تازہ کرتے ہوئے صفیہ خیری نے بتایا تھا کہ ان سے توہمارا بہت تعلق رہا‘بھارت نے کشمیر پر حملہ کیا تو اس دوران لیڈی نصرت ہارون کے گھر پر کشمیری متاثرین کے لئے امدادی پیکٹ بنائے جاتے تھے تو میری اماں ،میں اور سب بہنیں جاتی تھیں ،وہاں مِس جناح بھی آتی تھیں ۔
میں نے اپنی بہنوں سے کہا کہ ہم سب کو مل کر کشمیر فنڈ کے لئے پیسے جمع کرنے چاہئیں ‘سب بچوں نے مل کر ٹیبلو پیش کیا،ہم نے کل 64روپے جمع کئے جو میں محترمہ فاطمہ جناح کے پاس لے کر گئی تو وہ بہت خوش ہوئیں اور کہا کہ اس قوم کا مستقبل تابناک ہوتا ہے جس کے بچے Reallzeکرتے ہیں کہ ان کی بھی ایک قومی ذمہ داری ہے ۔
ان کے یہ الفاظ مجھے آج بھی یاد ہیں ۔

(جاری ہے)

محترمہ نہایت مخلص خاتون تھیں ،پھر ہم نیشنل گارڈ میں شامل ہو گئے جس کی باقاعدہ ٹریننگ حاصل کی تھی ۔
پاکستان آنے اور تقسیم کے وقت کے حالات کے حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے صفیہ خیری نے کہا تھا کہ میرے والد محمد سلطان خان اس وقت منسٹری آف فنانس کی پراونشل سروس میں ایڈوائزر تھے ‘الہٰ آباد ،
آگرہ مختلف جگہوں پر تعینات رہے ،1947ء میں لکھنو میں ان کی پوسٹنگ ہوگئی تھی اور ہم وہاں جانے کی تیاری کررہے تھے ،سب سامان وغیرہ پیک تھا ،ٹرک بھی تیار تھا۔

اسی وقت تار آگیا کہ پاکستان بن گیا ہے اور آپ کو گورنمنٹ آف پاکستان جوائن کرنے کا آپشن دیا جاتا ہے ۔جیسے ہی انہیں تار ملا انہوں نے فوراً لکھنو جانے کی تیاری ترک کرکے کہہ دیا کہ پاکستان جائیں گے اور انہوں نے لکھنو کے لئے اپنا بند ھا سامان کھول دیا۔
والد صاحب ہمیں لے کر الہٰ آباد کا سر کاری گھر چھوڑ کر پھوپھی کے گھر دلی آگئے ،یہاں سے مہاجرین اور گورنمنٹ افسران کو لے کر اسپیشل ٹرینیں پاکستان روانہ ہورہی تھیں،انہیں بڑے اہتمام سے رخصت کیا جارہا تھا ،ہم خود بھی اسٹیشن پر ہار پھول لے کر انہیں الوداع کہنے جاتے تھے ،چار یا پانچ ٹرینیں گئی ہوں گی اور اس کے بعد والد صاحب کے ہمراہ ہماری باری تھی لیکن اسی دوران ٹرینیں فسادات کی زد میں آگئیں ۔

لوٹ مار اور ٹرینوں کو جلایا جانے لگا تو والد صاحب کو ٹرین میں آنے سے روک دیا گیا اور سر کاری افسران کے لئے جہاز کے انتظامات ہونے لگے ۔ایک روز عصر کا وقت تھا کسی نے آکر والد صاحب سے کہا کہ دیکھیں یہاں پر بہت خطرہ ہے ،آپ کے ہاں لڑکیاں ہیں (تین بیٹیاں میری پھوپھی کی تھیں اور ہم پانچ بہنیں )بہتر ہے کہ آپ رات کے وقت عورتوں کو وائسکل لاج بھجوادیں وہ محفوظ جگہ ہے ۔

میرے والد وضو کر رہے تھے ،مجھے ابھی تک یاد ہے ان کے پاس ایک روبی کی انگوٹھی ہوتی تھی جو میرے پڑ دادا کی تھی ،انہوں نے وہ اُٹھا کر Sinkپر رکھی ہوئی تھی جیسے ہی یہ سنا تو فوراً وضو کیا ،وہ انگوٹھی بھی نہیں پہنی ‘نماز پڑھ کر گاڑیاں نکالیں ،ایک ڈرائیور نے چلائی اور ایک میرے والد صاحب نے ،اس طرح ہم وائسکل لاج چلے گئے اور پھر کبھی گھر واپس نہیں آئے ۔

ہم وہاں گئے تو تھے رات بھر کے لئے ،میری دو پھوپھیاں ساتھ تھیں ،ایک مسلم لیگ والی پھوپھی اور ایک دوسری ۔انہوں نے تو اپنا زیور بھی ساتھ لے لیا تھا لیکن میری والدہ نے نہیں لیا تھا ۔وہاں ہمارے ایک بھائی اور ماموں پیچھے رہ گئے تھے ،والدہمیں پالم اےئر پورٹ پر قائم کیمپ میں چھوڑ کر انہیں لینے گئے‘ اب ہم وہاں پہنچے تو پیسے پاس نہیں تھے ،کوئی اپنے پاندان میں پیسے رکھتا تھا تو کوئی الماری میں ،بٹوے بھی ساتھ لئے نہیں ‘وہاں گئے تو میری چھوٹی بہن آٹھ نو مہینے کی تھی ،و ہ دودھ کے لئے رورہی تھی مگر کسی کے پاس پیسے ہی نہیں تھے کہ اس کیلئے دودھ خرید سکے کیونکہ ہم سے تو کہا گیا تھا کہ وائسکل لاج میں صرف رات گزارنی ہے تو جو پان کھاتا تھا اس نے چھ پان بنالئے اور اپنے ساتھ لے لئے تھے ،صبح والد صاحب میرے بھائی کو لے کر آئے تو وہ اپنے ساتھ کیا لائے ؟یہ بڑی دلچسپ بات ہے (ہنستے ہوئے)وہ پڑھنے لکھنے والے آدمی تھے تو وہ ایک بکس ساتھ لے کر آئے جس میں اخبارات کے تراشے وغیرہ تھے ،ہم سب اتنا ناراض ہوئے کہ بھائی ہمارے کوئی زیور لے آتے ،پیسے ہی لے آتے تو انہوں نے کہا کہ مجھے خیال ہی نہیں آیا ۔

خیر جب ہم اےئر پورٹ کی طرف جارہے تھے تو دیکھا کہ ہر جگہ آگ لگی ہوئی ہے اور جگہ جگہ لاشیں پڑی ہوئی تھیں ،دونوں طرف اتنے لوگ مرے ہوئے تھے ،کوئی جھاڑیوں میں تو کوئی کہیں ،میں وہ منظر مرتے دم تک نہیں بھول سکتی ،ایک قیامت برپا تھی ،یہاں ”بی بی سی“کے جہاز آئے ہوئے تھے ،یہ چھوٹے چھوٹے طیارے تھے ،ان میں سے ایک میں ہم بیٹھ گئے ،وہ لوگ جنہوں نے ہمیں اےئر پورٹ پر دیکھا تھا انہوں نے حیران ہو کر کہا آپ لوگ کہاں جارہے ہیں ،آپ لوگوں کے پاس کوئی سامان نہیں ہے ۔
ایک حشر کا عالم تھا ۔
وہاں پالم اےئر پورٹ پر سینکڑوں ہزاروں لوگ زمین پر سورہے تھے اس انتظار میں کہ ان کی باری آجائے کسی صورت کوئی فلائٹ مل جائے ‘پیسے ہاتھوں میں لئے بیٹھے تھے ۔جب ہم لوگ جہاز پر سوار ہونے لگے تو بہت سے جاننے والے آگئے اور کہا کہ آپ کے پاس کوئی سامان نہیں ہے ،خدا کیلئے ہمارا سامان ساتھ لے جائیں تو ہم ان کے سامان وغیرہ ساتھ اٹھا کر لے آئے تو اس طرح پاکستان پہنچے ۔
مجھے یاد ہے ہم رات کے وقت یہاں پہنچے تھے۔
پاک سر زمین پر قدم رکھتے ہی یہ احساس ہوا گویا جنت میں آگئے ،اس کیفیت کو میں الفاظ میں بیان نہیں کر سکتی ،بہت سے لوگ سجدے میں گر گئے ،اےئر پورٹ پر لیڈی ہارون ،ان کی بہوئیں اور مسلم لیگ کی دیگر خواتین ہمارے استقبال کے لئے موجود تھیں ۔آگ اور خون کے ایک طوفان سے گزر کر یہاں پہنچ کر ہمیں محسوس ہوتا تھا ماں کی محفوظ گود میں آگئے ۔

میں نے لوگوں کو اتنا خو ش کبھی نہیں دیکھا تھا ،میرے والد وہاں بڑا آفس چھوڑ کر آئے تھے ،یہاں لکڑی کے کھوکھے کو میز کرسی بنانا پڑتا تھا مگر والد صاحب خوشی خوشی کام کرتے تھے ۔یہاں سندھ کے لوگوں کے رویے ہمارے ساتھ بہت اچھے تھے ۔یہاں ہمیں ہر چیز سستی اور اچھی لگتی تھی ۔دلی میں کوئی بیمار ہوتا تو انگور کھانے کو ملتے تھے ،یہاں ایک دو آنے کلو انگور ملتا تھا ایک روپے کی مرغی مل جاتی تھی ،سفید آٹے کی روٹی ملتی تھی ،یہاں جتنی سکیورٹی تھی ،انڈیا میں کبھی اس کا تصور نہیں تھا ۔

وہاں انگریزوں اور ہندوؤں کا خوف ہوتا تھا ،والد صاحب دروازے پر کھڑے نہیں ہونے دیتے تھے ،
پاکستان آگئے تو ہم اپنے گھروں سے بائسکل لیکر سڑکوں پر دور دور تک گھومتے رہتے ،کوئی ڈر فکر نہیں ہوتا تھا ۔یہ اپنا ملک ہے یہ احساس قربانی پر بھاری تھا۔مجھے یاد ہے قائداعظم خواتین کے اجلاسوں میں یہی کہتے تھے کہ آپ کا اپنا ایک ملک بن جائے گا آپ کو اسے اچھا بنانے کے لیے خوب محنت کرنی ہوگی ۔
قیام پاکستان کے ابتدائی دنوں میں ہر شخص اسی جذبے سے سرشار تھا۔
آج کے پاکستان کے بارے میں کیا سوچتی ہیں ؟اس حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے صفیہ خیری نے بتایا تھا کہ وقت کے ساتھ ساتھ تبدیلیاں آنا لازمی ہے ‘اب وہ نسل تو ختم ہورہی ہے جس نے پاکستان بنایا ،
بانیان پاکستان کے بعد اس ملک کو جو مسائل پیش آئے میں سمجھتی ہوں اس کی وجہ برین ڈرین ہے ،
پاکستان کے قابل نوجوانوں نے ملک کو چھوڑ دیاجنہیں یہ ملک سنبھالنا تھا ،وہ گرین پاسپورٹ پر ملک سے باہر چلے گئے،اس کے علاوہ بیرونی سازشوں نے اس ملک کے لیے مسائل پیدا کیے ،جب سے این جی اوز آئی ہیں تباہی آئی لوگ کہتے تھے ان کے ذریعے پیسہ آرہا ہے لیکن میں کہتی تھی کہ ان کے ذریعے انٹیلی جنس ہورہی ہے ‘جاسوسی ہورہی ہے‘غیر ملکی اثرورسوخ بڑھ رہا ہے۔

آپ دیکھیں کینیڈین پاسپورٹ کوئین آف انگلینڈ سے حلف وفا داری اٹھانے پر ملتا ہے‘ہمارے لوگ وہاں جاکر محنت کرتے ہیں جبکہ ہمارے ملک کی معیشت ‘دہشت گردی ‘لسانیت ‘صوبائیت کے فروغ سے تباہ کردی گئی ۔یہ حالات دیکھ کر دل خون کے آنسو روتا ہے مگر مسلمان ہیں اللہ کی ذات سے نا اُمید نہیں پھر اس پاک سر زمین سے اُٹھے عوام ہمارے بے ایمان اور بے ضمیر نہیں ‘انشاء اللہ ایمان دار لوگوں کی بدولت حالات بدلیں گے ۔

ہماری نسل نے اس ملک کے لئے جو خواب دیکھے تھے وہ پورے نہیں ہوئے ،پاکستان امن وآشتی ،
خوشحالی اور مواقع کی سرز میں نہیں بن سکا،موجودہ حالات بہت تکلیف دیتے ہیں لیکن میں اُمید کا دامن نہیں چھوڑ سکتی کیونکہ قائداعظم اور دیگر رہنماؤں کو اس ملک کے لئے دیوانہ وار کام کرتے دیکھا ہے ۔
مجھے نئی نسل سے امید ہے ہمارے خواب وہ پورے کرے گی ۔صفیہ خیری صاحبہ سے گفتگو کا یہ اختتام تھا۔

Browse More Articles of Other