Rohi Bano Aik Baar Phir Margayi

Rohi Bano Aik Baar Phir Margayi

روحی بانو ایک بار پھر مرگئی

شوبز سے گمنامی تک کی داستان نفسیات میں ماسٹرز ڈگری کی حامل خود نفسیاتی مریضہ بن چکی تھیں

ہفتہ 9 فروری 2019

 وقار اشرف
گلیمر اور شوبز کی دُنیا بڑی بے رحم ہوتی ہے ،اس رنگین چکا چوند دُنیا میں کوئی فنکار اس وقت تک ہی یاد رکھا جاتا ہے جب تک اس کی فلمیں ،ڈرامے یاگائے ہوئے گیت پردئہ سیمیں کی زینت رہتے ہیں ۔وہ فنکار جیسے ہی منظر سے ہٹتا ہے تو لوگوں کے ذہنوں سے اسے اُترتے بھی زیادہ دیر نہیں لگتی۔جب تک اس کا نام اور دولت ساتھ دیتی ہے تو سارا زمانہ ساتھ ہوتا ہے لیکن شُہرت کا سورج ڈھلتے ہی اپنا سایہ بھی ساتھ چھوڑ جاتا ہے ۔

جس کی ایک جھلک دیکھنے کیلئے لوگ دیوانہ وار جمع ہوتے ہیں جب وہی فنکار گمنامی میں جاتا ہے تو کوئی اسے پوچھنے والا بھی نہیں ہوتا ۔ایسے فنکاروں کی ایک طویل فہرست ہے جن کے پردے سے ہٹنے کے بعد کوئی ان کا پُر سان حال نہیں تھا۔عمر کا بہترین وقت لوگوں کو تفریح مہیا کرنے اور فن کی خدمت کرنے میں بسر کرنے والے دن فنکاروں کو جب خود سہارے کی ضرورت پڑتی ہے تو کوئی ان کی طرف پلٹ کر بھی نہیں دیکھتا۔

(جاری ہے)


ماضی میں اپنی بے ساختہ اداکاری سے ٹی وی اسکرین پر راج کرنے والی روحی بانو نے زندگی کے آخری کئی برس بہت بُرے حالت میں گزارے ۔ان کی زندگی شوبز سے گمنامی تک کی داستان ہے ۔وہ اب اس دُنیا میں نہیں رہیں گویاایک بار پھر مرگئی ہیں ۔ان کی بہن روبینہ یاسمین کے مطابق روحی بانو استنبول کے ایک ہسپتال میں زیر علاج اور 10روز سے وینٹی لیٹر پر تھیں ،گردوں کا عارضہ ان کی موت کا سبب بنا،اس کے علاوہ وہ کئی برسوں سے شیزوفرینیا کا شکار تھیں اور لاہور کا فاؤنٹین ہاؤس کئی سال تک ان کا مسکن رہا۔

نومبر 2018ء میں ان کے لاپتہ ہونے کی بھی خبریں سامنے آئی تھیں لیکن ان کی بہن کی طرف سے اس کی تردید کردی گئی تھی کہ وہ اپنے بھائی کے پاس ترکی میں ہیں ۔روحی بانو کی عمر 67برس تھی۔10سال قبل اکلوتے بیٹے کے لاہور میں پُراسرار قتل کے بعد سے زندگی کی تمام رعنائیاں اُن سے چھن گئی تھیں اور آخری چند سالوں کے دوران انہوں نے بہت سی تکلیفیں جھیلیں۔
روبینہ یاسمین کے مطابق انہیں استنبول میں امانتاًدفن کر دیا گیا ہے لیکن وہ اپنی بہن کی تدفین لاہور میں ان کے بیٹے کے پہلو میں کرنا چاہتی ہیں جس کے لیے حکومت سے میّت پاکستان لانے کے سلسلے میں مدد مانگی ہے کیونکہ میرے پاس اتنے وسائل نہیں کہ میں بہن کی میّت پاکستان لاسکوں ۔
10اگست 1951ء کو کراچی میں پیدا ہونے والی روحی بانونامور طبلہ نواز اللہ رکھا خان کی بیٹی اور ذاکر حسین کی سوتیلی بہن تھیں ۔
گورنمنٹ کالج لاہور سے سائیکالوجی میں ماسٹرز کیا ہوا تھا لیکن نفسیات میں ماسٹرڈگری کی حامل روحی بانوخود آخری عمر میں نفسیاتی مریضہ بن چکی تھیں ۔
پی ٹی وی لاہور مرکز کے پروڈیوسر یاورحیات نے انہیں پہلی بار اپنے ایک کھیل کے ذریعے ٹی وی کی سکرین پر متعارف کرایا جس کے بعد انہوں نے کئی ڈراموں میں یاد گار کردار کئے جن میں لانگ پلے کانچ کا پُل ،قلعہ کہانی ،زردگلاب ،حیرت کدہ،سراب ،گھائل ،ایک حقیقت ایک افسانہ ،ایک محبت سوافسانے اور کرن کہانی نمایاں ہیں ۔

”ایک اور عورت “ان کی زندگی کا آخری ڈرامہ تھا جس کے رائٹر فصیح باری خان اور ڈائریکٹر مظہر معین تھے ،یہ ڈرامہ ہم ٹی وی سے نشر ہوا تھا جس میں ان کے ساتھ کام کرنے والے فنکاروں میں اسماء عباس ،سلمان شاہد اور نروان ندیم شامل ہیں ۔ٹی وی کے ساتھ ساتھ انہوں نے کئی سٹیج ڈراموں اور فلموں میں بھی کام کیا تھا ۔
روحی بانو کے حوالے سے پاکستانی ڈرامہ وفلمی ناقدین کا کہنا ہے کہ وہ جس آسانی سے سنجیدہ اور مشکل کردار کرجاتی تھیں ایسا دیگر اداکاروں کے لیے کرنا مشکل ہوتا تھا،وہ جب ٹی وی پر آئیں تو اس وقت اداکاری میں اپنی جگہ بنانا آسان کام نہ تھا کیونکہ عظمیٰ گیلانی ،عابد علی ،محمد قوی خان،اورنگ زیب لغاری ،کمال احمد رضوی ،فردوس جمال،شجاعت ہاشمی،ثمینہ احمد،سلمان شاہد ،راحت کاظمی،سائرہ کا ظمی ،شہناز شیخ،مرینہ خان،معین اختر ،خالدہ ریاست ،محبوب عالم ،سلیم ناصر ،دردانہ بٹ ،نجمہ محبوب،منور سعید ،
عرفان کھوسٹ ،جمیل فخری ،شفیع محمد،جمال شاہ ،سکینہ سموں ،بہروز سبزداری ،جاوید شیخ، جمشیدانصاری ،بشری انصاری ،تو قیر ناصر، لطیف کپاڈیا،افضال احمد جیسے کئی بڑے نام پہلے سے اپنا سکہ جمائے ہوئے تھے ،ان بڑے ناموں کی موجودگی میں روحی بانو نے جس طرح اپنی محنت ،لگن اور شوق سے اپنی صلاحیتوں کو منوایا وہ انہی کاکمال تھا۔

انہوں نے طلعت حسین ،راحت کاظمی اور دوسرے صف اوّل کے اداکاروں کے ساتھ ایک سے بڑھ کر ایک ہٹ ڈرامہ ٹیلی ویژن کودیا۔18برس کی عمر سے پاکستانی ڈرامہ انڈسٹری پر راج کرنے والی روحی بانو نے اداکاری کے ذریعے پوری دُنیا میں اپنے پرستاروں کا حلقہ بنایا لیکن وہ ازدواجی زندگی کے حوالے سے بدقسمت رہیں ،پہلی شادی کے بعد دوسری شادی بھی ناکام ہو گئی ۔

جو پروڈیوسرا ور ڈائریکٹر کبھی ہاتھ جوڑے ان کے پیچھے پیچھے پھر تے نظر آتے تھے وہ ان سے آنکھیں چُراتے نظر آئے۔وہ کبھی شدید دماغی بوجھ کے باعث ہسپتال پہنچ جاتیں تو کبھی اپنے اُجڑے گھر کے درودیوار کو تکتے صبح سے شام اور پھر شام سے صبح ہو جاتی ۔حکومت پاکستان نے انہیں بہترین اداکاری پر 14اگست1981ء کو صدارتی تمغہ برائے حسن کارکردگی سے نوازا تھا،اس کے علاوہ بھی متعدد ایوارڈز انہوں نے اپنے نام کئے تھے ۔

لیکن ذاتی زندگی میں وہ ناکام رہیں،شیزو فرینیا کی بیماری کے باعث وہ تنہا لاہور میں بھٹکی روح کی طرح بھٹکتی رہتی تھیں ،گلبرگ میں واقع ان کا کروڑوں روپے مالیت کا گھر دیکھ کر کسی بھوت بنگلے کا گمان ہوتا تھا جہاں بجلی ،پانی اور گیس سمیت تمام بنیادی ضرورتیں ناپید تھیں ۔گندگی کے باعث گھر سے تعفن اُٹھ رہا ہوتا تھا لیکن وہ تو ان چیزوں سے بے نیاز ہو چکی تھیں ،صرف ایک کمرے میں روشنی تھی،گھر میں ماسوائے ایک ٹی وی کے ہر چیز خراب تھی۔

روحی بانو کا ایک انٹرویو میں کہنا تھا کہ میری گاڑی چند سال قبل دیگر سامان کے ساتھ چوری ہو گئی تھی ۔
میرے لئے اگر کسی نے کچھ کیا ہے تو وہ بے نظیر بھٹو تھیں جنہوں نے میرے شوہر کو بھی ہدایت کی تھی کہ وہ ہر ماہ مجھے خرچہ بھیجے جو مجھے مل رہا ہے جس سے میرا گزارا ہورہا ہے ۔اپنے ایک اور انٹرویو کے دوران روحی بانو نے بتایا تھا کہ سابق وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی ان کے قریبی دوستوں میں سے تھے اور ایک بار بیٹے کی اندوہناک موت کے بعد وہ میرے گھر آئے اور چند لمحے بیٹھے تھے ۔

روحی بانو کی مدد کے حوالے سے فنکاروں کی طرف سے وقتاً فوقتاً دعوے کئے جاتے رہے لیکن کسی نے اس عظیم فنکارہ کی مدد نہیں کی ۔وہ پاکستان ٹیلی ویژن کی ان صف اول کی اداکاراؤں میں شامل تھیں جس پر یقینا فخر کیا جا سکتا ہے ،اس ورسٹائل اداکارہ نے اپنی اداکاری کے ساتھ جو انصاف کیا وہ نئے فنکاروں کے لئے رول ماڈل سے کم نہیں ۔
وہ ہر نیا کردار قبول کرنے سے پہلے اس کردار کو کئی ہفتوں تک سمجھنے کی کوشش کرتی تھیں ،کردار کی باریک بینی اور اس کی اصل شخصیت کو سمجھ کر جب وہ اس کردار میں سامنے آتیں تو لوگ یقین ہی نہیں کرتے تھے کہ وہ محض ایک کردار ہے ۔

اداکارہ اسماء عباس کاروحی بانوکی موت کے حوالے سے کہنا ہے کہ میرا روحی بانو سے بہت گہرا تعلق رہا ہے اور شاید اسی لئے مجھے ان کی موت کا دُکھ بہت زیادہ ہے ۔پاکستان ٹیلی ویژن لاہور مرکز کے جنرل مینجر سیف الدین نے بھی روحی بانو کے انتقال پر گہرے دُکھ اور افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ فن اداکاری کو منفر داسلوب دینے والی روحی بانو نہایت باصلاحیت اداکارہ تھیں ۔وہ ایک عہد تھیں اور ان کی اداکاری مدتوں یاد رکھی جائے گی۔

Browse More Articles of Lollywood