Multan Ki Surili Aawazain

Multan Ki Surili Aawazain

ملتان کی سریلی آواز یں

جب تم میرے شہر کی گلیوں سے گزروگے جنہوں نے بین الاقوامی شہرت حاصل کی

ہفتہ 23 فروری 2019

 سلیم نا ز
سر زمین ملتان اس لحاظ سے بھی خوش قسمت ہے کہ یہاں ہر شعبہ ہائے زندگی میں ذہانت کا خزانہ موجود ہے۔خصوصاً ثقافت میں تو یہاں سریلی آوازوں نے اپنے شہر کا نام روشن کیا ہے ۔قیام پاکستان سے لے کر آج تک ایک سے بڑھ کر ایک آواز کانوں میں رس گھولتی رہی ہے ۔خصوصاً سرائیکی زبان میں گانے والے تو محفل میں ایسا ماحول طاری کرتے ہیں کہ شائقین گھنٹوں لطف اندوز ہونے کے باوجود بھی سیر نہیں ہوتے ۔

اس مٹی نے ملکی سطح پر شوبز انڈسٹری کو لا تعداد فنکار ‘گلوکار اور اداکار مہیا کئے ہیں جنہوں نے نہ صرف اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوایا بلکہ اپنے شہر کی شناخت ثابت ہوئے۔خواجہ غلام فرید کی بین الاقوامی شہرت یافتہ کافی ”میڈا عشق وی توں میڈا یاروی تو ں “سے ملک گیر شُہرت کی بلندیوں کو چھونے والے گلوکار پٹھانے خان کے پاس آواز کی دولت تو موجود تھی لیکن وہ ”کاغذی خزانے “سے تامرگ محروم رہے جس کے باعث انہوں نے ساری زندگی کسمپرسی میں گزار دی ۔

(جاری ہے)


”بڑے بے مروت ہیں یہ حُسن والے کہیں دل لگانے کی کوشش نہ کرنا“گا کر اپنی پہچان کرانے والی عظیم گلوکارہ ثریا ملتا نیکر ریڈیو پاکستان ملتان کی ضرورت بنی رہیں ،انہیں اپنی مٹی سے اس قدر محبت تھی کہ انہوں نے دولت وشہرت کی خاطر ملتان کی مٹی کو خیر باد کہنے سے انکار کر دیا ۔تاہم ان کی دُختر راحت بانو لاہور میں مقیم ہیں‘ اللہ تعالیٰ نے خوش شکل دونوں ماں بیٹی کو خوب صورت آواز کی دولت سے مالا مال کیا ہے ۔

ملتان بہاولپور اور ڈی جی خان جیسے شہروں میں سریلی آوازوں کا ایک جہاں آباد ہے جو مناسب پذیرائی نہ ملنے کے باعث علاقائی سطح تک محدود ہو کررہ گئے ہیں ۔
رہی سہی کسر ایمپلی فائر ایکٹ نے پوری کردی ہے ،اس ایکٹ نے گلوکاروں سے روز گار چھین لیا ہے کیونکہ موسیقی کی محافل کا انعقاد منقطع ہو کررہ گیا ہے ۔پی ٹی وی ملتان سنٹرز کے قیام سے یہ اُمید ہو چلی تھی کہ مقامی ٹیلنٹ کو اپنی صلاحیتوں کے اظہار کے لئے بھر پور مواقع حاصل ہوں گے ۔
لیکن محدود بجٹ اور موسیقی کے کرتا دھرتا لوگوں کی ذاتی پسند ناپسند کی وجہ سے بیشتر فن کار سکرین کی زینت بننے سے محروم ہیں حالانکہ ملتان میں اعجاز راہی جیسا گلوکار بھی موجود ہے جو پس پردہ گا تا ہے تو لوگوں کے لئے یہ اندازہ لگانا مشکل ہوجاتا ہے کہ یہ عطاء اللہ گار ہے ہیں یا کوئی اور ۔اسی طرح عارف خان ‘سعدیہ ہاشمی ‘ ثوبیہ ملک‘کوثر جاپانی ‘سجادملک ‘نادیہ ہاشمی ‘ثمن شاہ ‘شمیم انصاری اور اُستاد قیصر جیسے کئی ایسے فنکار موجود ہیں جو اپنے تنگ وتاریک علاقوں سے باہر نہیں نکل سکے۔

نعیم الحسن ببلو صرف نام کے ہی نہیں بلکہ دیکھنے میں بھی ”ببلو“سے لگتے ہیں ،ان کے گائے ہوئے گیت “جب تم میرے شہر کی گلیوں سے گزرو گے “نے دھوم مچادی ۔موصوف بنک سے وابستہ رہے لیکن آج کل ملتان آرٹس کونسل میں شوقیہ گلوکاروں کو موسیقی کی تربیت دیتے ہیں ۔ثوبیہ ملک کا تعلق ملتان کے نعت خواں گھرانے سے ہے ،اللہ تعالیٰ نے انہیں سریلی آواز عطا کی ہے ،انہوں نے ثنا خوانی کے ساتھ گلوکاری کا فن بھی جاری رکھا ہوا ہے ۔
اپنے فن میں ڈوب کر گاتی ہیں کہ سامعین عش عش کر اُٹھتے ہیں ،
انہوں نے بہت کم وقت میں ملکی سطح پر نام پیدا کیا ہے ۔
خوابوں کا شہزادہ اور خوب صورت آواز کے مالک سلیم گردیزی ریڈیو پاکستان کے ساتھ اس کے قیام سے ہی وابستہ تھے ۔ریڈیو پاکستان ملتان سے سب سے پہلی نعت پڑھنے کا شرف بھی انہیں حاصل ہوا،انہوں نے ہزاروں گیت ،کافیاں ‘ملی نغمے اور غزلیں ریکارڈ کرائیں جوسُننے والوں میں بہت مقبول ہوئے۔
ان کے خوبصورت گیتوں میں ”میرے خوابوں کے شہزادے چلے آ“نے ملک گیر شہرت حاصل کی ،مرحوم کے لہجے کی مٹھاس اور تازگی ہمیشہ ان کی یاد دلاتی ہے ۔مرحوم ایک عرصہ تک گردوں کے عارضہ میں مبتلا رہ کر زندگی کی بازی ہا رگئے،ان کی وفات سے قبل ملتان آرٹس کونسل میں ان کیلئے بینیفٹ شو بھی کرایا گیا تا کہ شو سے حاصل ہونے والی آمدنی سے ان کا علاج کرایا جا سکے ۔

دوستوں کی رائے تھی کہ ایک خود ساختہ سکینڈل نے شریف النفس گلوکار پر ایسا اثر چھوڑ ا کہ اس نے اس دُنیا سے ناطہ ہی توڑ لیا۔محبتیں اور خوشیاں تقسیم کرنے والا یہ عظیم گلوکاری خود خوشیوں کی تلاش میں سر گرداں راہ عدم پہنچ گیا،ان کی برادری اور احباب نے انہیں ایسے بھلا دیا کہ سلیم گردیزی کا شاید کوئی وجود تھا ہی نہیں ۔
1971ء میں ریڈیو پاکستان ملتان سے اپنی فنی زندگی کا آغاز کرنے والے لوک فنکار شبیر ملک نے بھی آواز کی دُنیا میں خاص نام کمایا۔
افسوس کہ وہ اگلے جہاں سدھار چکے ہیں مگر ان کے گیتوں نے انہیں زندہ رکھا ہوا ہے ۔ریڈیو پاکستان ملتا ن کے علاوہ کراچی ‘لاہور ‘بہاولپور‘کوئٹہ میں انہوں نے اپنے متعدد گیت ریکارڈ کرائے۔1972ء میں انہوں نے بطور کیشےئر بنک جوائن کیا مگر تاحیات سنگیت سے وابستہ رہے ۔مرحوم نے سرائیکی فلم ”سانجھ ساڈے پیار دی “میں بھی دو گیت گائے جنہوں نے ان کے نام کو چار چاند لگا دےئے،انہوں نے 1986ء میں فلمسٹار مصطفی قریشی کے ہاتھوں “ملتان ایوارڈ“حاصل کیا۔

 1991ء میں الفنکار میوزک اکیڈمی نے ان کی تاجپوشی کرکے ان کی فنی خدمات کا اعتراف کیا۔
2002ء میں انہوں نے سر کا سفر ایوارڈ حاصل کیا۔ابتداء میں اگر چہ غزلیں گاتے تھے لیکن وقت کے ساتھ ساتھ صوفیانہ اور عارفانہ کلام گا کر اپنی فنی صلاحیتوں کا اعتراف کر ایا،انہیں شکایت تھی کہ مقامی ٹی وی چینل مقامی گلوکاروں کو ان کا جائز حق دینے کی بجائے ان کی تذلیل کررہے ہیں ۔
ریٹائرمنٹ کے بعد انہوں نے اپنی میوزک اکیڈمی بھی بنائی لیکن عمر نے زیادہ ساتھ نہ دیا اور وہ اپنے پر ستاروں کو تنہا کرکے منوں مٹی تلے جا سوئے۔
آوازوں کے اس قافلے میں ملتان کے نواحی علاقے سے تعلق رکھنے والا گلوکار جمیل انجم بھی ہے ،ان کی متعددسی ڈیز منظر عام پر آچکی ہیں ،ان کا کہنا ہے اگر حکومت ایمپلی فائر ایکٹ ختم کر دے تو فنکاروں کو
 دو بارہ روز گار کے مواقع میسر آسکتے ہیں ۔
گلوکار جمیل انجم کا تعلق شجاع آباد کی نون فیملی سے ہے ۔وہ جھولے لعل میوزیکل گروپ کے ایڈمنسٹر یٹر ہی نہیں بلکہ شاعر بھی ہیں ،ان کے شاعری کے اُستاد معروف سرائیکی شاعر شا کر شجاع آبادی اور گلوکاری کے اُستاد گمنام گائیک فقیر احمد فقیرو ہیں ۔جمیل انجم کے مطابق ان کا گلوکاری کا شوق عمر کے ساتھ پروان چڑھا اور آخر کار شوق اور جنون نے گلوکار بنا دیا۔

”ہُن فصلی بٹیرے نئیں رکھنڑیں “جیسا گیت ان کی پہچان بن گیا جو تیزی سے عوام میں مقبولیت اختیار کررہا ہے ۔ان کے مشہور گیت ”واہ جو پیار کیتوئی،ڈھولہ پردیسی پیومادا سایہ‘ سامنے چو بارہ یار دا‘ سوچ ناہ سہی‘ صلہ جانے خدا جانے ‘ہے ٹور بدلی بدلی‘ روہی دے وچ رونق ول آئی‘ دل ٹٹ گیااے‘ پیار دا سوال‘ میکوں نال گھدی جل‘ ان پانی دی نی پرواہ‘ میرے کول پیجارونہ کاراں‘ کے علاوہ سرائیکی سہرے‘ اردو پنجابی گیتوں اور دھمالوں کے علاوہ لا تعداد گیت گائے۔
گلوکار جمیل انجم کا کہنا ہے کہ شاکر شجاع آبادی کا مطبوعہ اور غیر مطبوعہ کلام سب سے زیادہ میرے پاس موجود ہے اور میں ہمیشہ خوبصورت شاعری کے ساتھ جدید میوزک کا انتخاب کرتا ہوں اس لئے میرے گیتوں کو ہمیشہ پسند کیا جاتا ہے ۔
گلوکارجمیل انجم کا مطالبہ ہے کہ خوشیوں کے موقع پر ساؤنڈ ا یکٹ کی پابندی کو ختم کیا جائے کیونکہ فنکار ملک میں امن کے سفیر ہوتے ہیں ۔
پابندی ختم کرکے گلوکاروں اور شاعروں کو خوش کیا جائے،انہوں نے کہا کہ ہمارا اس وسیب کے ساتھ امن اور محبت کا رشتہ ہے جو ہمیشہ قائم رہے گا۔
ساجد ملتانی نے بھی اپنی خوبصورت آواز کی بدولت موسیقی کی دنیا میں بہت جلد مقام پیدا کر لیا ،ان کے اب تک 8والیم (ویڈیو)اور 14والیم (آڈیو )مارکیٹ میں آچکے ہیں ۔ان کے نزدیک عوام تک رسائی حاصل کرنے کے لئے والیم ایک موٴثر ذریعہ ہیں ،والیم میں شامل ان کے تمام گیتوں نے شُہرت حاصل کی اور ان کی پہچان بنے ہیں ۔
انہیں گانے کا شوق بچپن سے ہی تھا ،اکثر شادی کی تقریب میں گانے گا یا کرتے تھے ۔ایک محفل میں ڈی آئی خان کے معروف گلوکار اُستاد نعیم فاروقی موجود تھے ۔
انہوں نے انہیں سنا تو انہیں روشن مستقبل کی نوید نسائی ،ان کی باقاعدہ تربیت کی ،ان کے بعد اُستاد غلام عباس سے بھی موسیقی کے اسرار ور موز سیکھے ،انہیں شکایت ہے کہ ریڈیو پاکستان ملتان فنڈز کی عدم دستیابی سے ”بھو کا “ہو چکا ہے ۔
پی ٹی وی ملتان سنٹر کے قیام سے توقع تھی کہ ملتان کی آوازیں ملکی سطح پر پذیر ائی حاصل کریں گی لیکن یہاں بھی بنیادی سہولتوں اور فنڈز کی عدم دستیابی کا مسئلہ درپیش ہے ۔اگر پی ٹی وی کے کسی شعبے میں کام ہورہا ہے تو وہاں بھی دوستوں اور احباب کو نواز نے کاکام جاری ہے ۔
یہی صورتحال ریڈ یو پاکستان ملتان کی ہے ،ان سرکاری اداروں نے فنکاروں کو تنگ دست بنا دیا ہے حالانکہ ماضی میں ریڈیو پاکستان ملتان سے ہی اپنی عملی زندگی کا آغاز کرنے والے فنکاروں نے ملک گیر شہرت حاصل کی ۔
انہوں نے مطالبہ کیا کہ ساؤنڈ سسٹم ایکٹ کا خاتمہ کیا جائے تا کہ موسیقی کی محفلیں
دو بارہ سے شروع ہوں اور گلوکاروں کو روز گار کے مواقع میسر آئیں ۔
لوک موسیقی کا ایک اور عظیم نام کو ثر ملک بھی ہے جس کی فنی عظمت کا اعتراف آج بھی کیا جاتا ہے ۔اے ڈی ساغر ‘سلیم گردیزی ‘شمیم اختر‘ شمشاد بیگم ‘شفیع کنول ‘آزدی ملتان ان کے ہم عصر فنکار شمار ہوتے تھے۔
سر کا یہ بادشاہ تنگ دستی کی زندگی گزارتا رہا۔تلہ گنگ کے گاؤں ”پیشتر جانگلہ میں 1930ء میں پیدا ہونے والے اس گلوکار کو ابتدائی زندگی میں ہی کسمپرسی کے حالات کا سامنا رہا ایک مرتبہ بیمار ہوئے اور ڈاکٹر کے پاس دوائی لینے گئے تو ان کے پاس ڈاکٹر کو دینے کے لئے پیسے نہ تھے اور ڈاکٹر نے بغیر پیسوں کے دوائی دینے سے انکار کر دیا۔غصے میں آکر انہوں نے فٹ پاتھ پر بیٹھ کر گانا شروع کر دیا اور کافی سارے پیسے اکٹھے کر لئے ۔
یوں ان کا علاج ممکن ہوا۔
ملتان میں جب ریڈیو پاکستان ملتان کا آغاز ہوا تو آپ ملتان شفٹ ہو گئے ،ریڈیو ملتان سے انہوں نے ایسے گیت گائے کہ وہ آج بھی ان کے حوالے کی حیثیت رکھتے ہیں ۔افسوس اس بات کا یہ ہے ان کے مداحوں کی تعداد تو کافی تھی مگر ان کے معاشی حالت بدلنے والا کوئی نہ تھا ،یہی وجہ ہے کہ مناسب علاج نہ ہونے کی وجہ سے آخری دنوں میں گردوں اور پھیپھڑوں نے کام کرنا چھوڑ دیا اور 1978ء میں فن موسیقی کا یہ ستارہ ڈوب گیا مگر اپنے پیچھے گیتوں کی ایسی رمق چھوڑ گیا جس نے ان کا نام آج بھی زندہ رکھا ہوا ہے ۔

ملتان کی ایک اور معروف نام نسیم اخترکو اللہ تعالیٰ نے سُریلی آواز کی دولت سے مالا مال کیا تھا ،70ء
کی دہائی میں انہوں نے ناہید اخترکے ساتھ ریڈیو گلوکاری کا آغاز کیا تھا ،انہوں نے سینکڑوں کی تعداد میں لوک گیت گا کر خوب نام کمایا،اس دور میں اگر چہ زاہد ہ پروین‘ اقبال بانو‘ کو ثر ملک‘ مائی اللہ وسائی‘ استاد حسین بخش جیسی پر سوز آوازیں مقبولیت کو چھور ہی تھیں مگر نسیم اختر نے اپنی انفرادیت کو قائم رکھتے ہوئے خواجہ فرید‘ اقبال‘ غالب اور فیض کے کلام کو اس انداز سے گایا کہ موسیقی کی دنیا میں چھا گئیں ۔

درباری‘ پہاڑی‘ جھوک‘ بھیردیں جیسے راگ پرانہیں عبور حاصل تھا ۔
ایک اور اہم پہلو جسے نسیم اختر نے عظیم بنا یا انہوں نے ہر حال میں ملتان جیسی مٹی سے اپنا رابطہ قائم رکھا۔
دولت اور شہرت کی خاطر ملتان جیسے شہر کو خیر باد نہیں کہا بلکہ یہیں رہتے ہوئے اپنے آپ کو منوایا۔
2002ء میں انہیں پی بی سی ایکسی لینس ایوارڈز بھی دیا گیا۔عمر کے آخری دنوں میں خاصی بیمار رہیں ،
ان کی خواہش تھی کہ کوئی اپنا ذاتی گھر ہو مگر یہ خواہش وہ دل میں لئے 19فروری کو آخری آرامگاہ میں جا سوئیں ۔

Browse More Articles of Music