Qandeel Jafri

Qandeel Jafri

قندیل جعفری

کیرئیر کے ہر موڑ پرامتیازی سلوک کاسامنارہا شاعرہ اور اداکارہ ’’قندیل جعفری‘‘

بدھ 20 مارچ 2019

عنبرین فاطمہ
عکاسی :گل نواز
معاشرے میں بکھرے ہوئے کرداروں کا مشاہد ہ کرتی ہوں اور اس سے مجھے جو انسپریشن ملتی ہیں اسی کو لفظوں میں ڈھالتی ہوں ۔میں نے لا تعداد افسانے لکھے ہیں بہت جلد میری افسانو ں کی کتاب مارکیٹ میں آجائے گی ۔ٹی وی ڈرامے لکھنے کی بھی آفرز آتی رہیں لیکن میرے پاس وقت کی کمی رہی جس کی وجہ سے لکھ نہ سکی ۔مجھے کیرئیر کے ہر موڑ پر امتیازی سلوک کا سامنا کرنا پڑا ۔
لوگ میرے ٹیلنٹ سے خائف رہتے ہیں ،میں ریڈیو کی آئوٹ سٹینڈنگ فنکارہ ہوں اور بہترین میزبان ہوں ان خیالات کا اظہارمیزبان ،شاعرہ اور اداکارہ ’’قندیل جعفری‘‘ نے  انٹرویو دیتے ہوئے کیا ۔انہوں نے مزید کہا کہ میں نے لکھنے لکھانے کا آغاز بچپن میں ہی بچوں کے میگزین سے کر دیا تھا ،رائٹر بہت ہی حساس ہو تا ہے اس کا مشاہدہ گہرا ہو تا ہے میں اپنی بات کروں تو مجھ میں مشاہدے کی عادت بہت زیادہ ہے مثلا میں سڑک پر کسی بھیک مانگنے والے کو بھی دیکھ لوں تو رک کر اس سے پوچھتی ہوں کہ کیوں بھیک مانگ رہے ہو ،جبکہ عام لوگ گزر جاتے ہیں میں ٹھہر کر ان سے بات کرتی ہوں ۔

(جاری ہے)

قندیل کا مزید کہنا تھا کہ میرا افسانہ انسانی نفسیات اور فلاسفی پر بیس کرتا ہے میں کہانی کو زیادہ اہمیت نہیں دیتی ۔افسانہ نگاری میں ،میں خالدہ حسین کو بہت پسند کرتی رہی ہوں وہ حال ہی میں وفات پا گئی ہیں ان سے ملنے کی بہت تمنا تھی لیکن ایسا ممکن نہ ہو سکا جس کا مجھے بہت افسوس بھی ہے ۔خالدہ صاحبہ کی فلاسفی اعلی پائے کی تھی جس سے متاثر ہوئے بغیر کوئی نہیں رہ سکتا تھا ۔
کوئی بھی رائٹر نیچر کے ساتھ ساتھ ماحول سے انسپریشن لیتا ہے۔

ایک سوال کے جوا ب میں ان کا کہنا تھا کہ میرے والد ماہر تعلیم تھے گھر میں کتابیں لایا کرتے تھے انہوں نے ہم سب بہن بھائیوں کو بچپن سے ہی مطالعے کی اہمیت سے روشناس کروایا وہ ہمیں ہر روز رات کو کہانی سنایا کرتے تھے ،اگر وہ کہانی نہ سناتے تو ہمیں نیند نہ آتی۔ان کا مزید کہنا تھا کہ میں پڑھائی میں بہت تیز تھی پہلی پوزیشن لیتی تھی۔
سیکنڈ آتی تھی تو اداس رہتی تھی کیونکہ میں نے ہمیشہ یہی سوچ رکھی کہ جیتنا ہے ہارنا نہیں ۔میرا مضمون تو ویسے اردو لٹریچر رہا ہے لیکن فلسفے سے بھی خاصی دلچپسی رہی ۔میں نے ٹی وی کے ساتھ ساتھ ریڈیو پر بھی ڈرامے کئے میں سمجھتی ہوں میں اچھی براڈ کاسٹر /اینکر ہوں پوری دنیا میں پاکستان کی نمائندگی کی اور کر رہی ہوں۔مجھے میڈیا سے بہت شکایات ہیں کیونکہ میڈیا اب اصلاح یا انفرمیشن کا ذریعہ نہیں رہا ہے ۔
اداکاروں کو میزبان اینکر پرسن بنا دیا جاتا ہے چینلز صرف ریٹنگ بڑھانے کے لئے ایسا کرتے ہیں لیکن وہ یہ نہیں دیکھ رہے کہ ایسا کرنے سے دیکھنے والوں کو نقصان ہو رہا ہے ،وہ کچھ سیکھ نہیں رہے ہیں ۔یہ رجحان خاصا منفی ہے جسے تبدیل کیے جانے کی ضرورت ہے ۔ایک سوال کے جواب میںان کا کہنا تھا کہ کہ ذہین عورت کو آگے نہیں آنے دیا جاتا اس کی راہ میں روڑے اٹکانے کے لئے طرح طرح کے حربے آزمائے جاتے ہیں ۔
ذہین اور باصلاحیت عورت اگر کسی مرد میزبان کے ساتھ بھی بیٹھی شو کر رہی ہو تو زیادہ تر مرد ہی بات کر رہے ہوتے ہیں عورت کو بولنے نہیں دیا جاتا اگر میں یہ کہوں کہ ایسے شوز میں خواتین شو پیس کے طور پر بٹھائی جا تی ہیں تو بے جا نہ ہو گا ۔میں نے جب سے میڈیا جوائن کیا ہے یہی کچھ دیکھا ہے ،مرد حضرات تو آج بھی مجھ سے خوفزدہ ہیں وہ جانتے ہیں کہ اگر قندیل بطور میرزبان ہمارے برابر آگئی تو ہماری چھٹی ہو جائیگی ۔
میرے اکثر جاننے والے کہتے ہیں کہ تم جب چینل پر جاتی ہو تو خاموش رہا کرو ایسے ظاہر کیا کرو جیسے تمہیں کچھ آتا ہی نہیں ہے تو پھر یہ لوگ تمہیں کام دیں گے ورنہ یہ خوفزدہ ہی رہیں گے لیکن کیا کروں مجھ سے چپ رہا نہیں جاتا ہے ۔میںنے میزبان بننے کے لئے اپنے گھر والوں کو منایا پاکستان ٹیلی ویژن پر کمپئرنگ ہی کر رہی تھی تو اسی دروان مجھے اداکاری کی بھی آفرز آ گئیں پہلا رول جو آفر ہوا وہ ایک پڑھی لکھی لڑکی کا تھا میں نے اپنے گھر والوں سے بات کی انہوں نے راضی مندی دی اس کی وجہ یہ تھی کہ وہ دیکھ رہتے تھے کہ میں دو تین سال سے باعزت طریقے سے کام کر رہی تھی ۔
مجھے یاد ہے کہ کالج میں پڑھ رہی تھی تب ہی پی ٹی وی جوائن کر لیا تھا ۔بیس سال سے شوبز انڈسٹری سے وابستہ ہوں اس دوران کچھ اچھی یادیں بھی رہیں اور کچھ کڑوی بھی ۔میں نے تو یہی دیکھا کہ جو عورت اپنے کام کو لیکر کمپرومائز نہیں کرتی اس کو کام کے مواقع کم ملتے ہیں اور میرے ساتھ بھی ٹھیک ایسے ہی ہوا ۔میں نے اپنی انا اور صلاحیتوں پر کمپرومائز نہیں کیا ہاں جو خواب لیکر آئی تھی وہ سارے پورے نہیں ہوئے خود کو جہاں دیکھتی تھی وہاں آج تک نہیں پہنچ سکی ۔
میرے پاس ڈراموں اور شوز کے بہت سارے آئیڈیا ز تھے لیکن مجھے چانس نہیں دیا جاتا تھا اور میں کمپرومائز کرکے چانس لینا نہیں چاہتی تھی ۔مجھے خوشی ہے کہ میرے والد آج مجھ پہ فخر محسوس کرتے ہیں جب لوگ انہیں کہتے ہیں کہ قندیل بہت اچھا کام کر رہی ہے تو وہ بہت اچھا محسوس کرنے لگتے ہیں ۔آپ دیکھیں کہ میں میڈیا میں ہونے کے باوجود سوشل ایکٹیوسٹ کے طور پر بھی جانی جاتی ہوں ۔
اس وقت کچھ تنظیموں کو بھی دیکھ رہی ہوں ۔بہت جگہ پاکستان کی نمائندگی کی لیکن ہمارے ہر شعبے میں جتنا لابی سسٹم مضبوط دیکھا ہے کہیں نہیں دیکھا ۔ہمارے ہاں شوبز انڈسٹری میں چند لوگوں کا ہی راج ہے وہ کسی کو آگے ہی نہیں آنے دیتے نئے رائٹرز اچھے ڈرامے لکھ کر لاتے ہیں ان کو کہا جاتا ہے کہ ابھی وقت نہیں ہے ۔کہانی جتنی بھی اچھی کیوں نہ ہواسے پڑھا ہی نہیں جاتا اور رائٹر کو واپسی کی راہ دکھا دی جاتی ہے ۔
میں سمجھتی ہوں کہ میڈیا اور شوبز انڈسٹری چند لوگوں کے تسلط سے آزاد ہونی چاہیے ۔ایک سوال کے جواب میںانہوں نے کہا کہ مجھے وقتا فوقتا ڈرامہ لکھنے کی آفرز آتی رہیں لیکن وقت کی کمی کے باعث یہ ممکن نہ ہو سکا۔ایک سوال کے جواب میں قندیل جعفری کا کہنا تھا کہ جو خواتین رائٹرز ہمیں نظر آرہی ہیں ان کو جتنا کمپرومائز کرنا پڑا اگر میں بتا دوں تو آپ کی روح لرز کر رہ جائے ۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ ہمارے ڈراموں کا کونٹینٹ بہت کمزور ہے ،ہمارا لٹریچر اور ڈرامے دونوں بہت پیچھے ہیں۔ابھی بے شمار ایسے موضوعات ہیں جن کو ہائی لائٹ کرنے کی ضرورت ہے ۔اگر ہم ریڈیو کی بات کریں تو میں ریڈیو کی آئوٹ سٹینڈنگ آرٹسٹ ہوں اس سے آگے کوئی کیٹگری نہیں ہو سکتی ۔ریڈیو ہو یا ٹی وی آواز کسی بھی آرٹسٹ کا اصل سرمایا ہو تی ہے ۔ افسوس ہوتا ہے کہ ریڈیو کی سرپرستی حکومت نہیں کر رہی جس کی وجہ سے آج ریڈیو ان حالات میں ہے ۔میری شاعری کی دو کتابیں آچکی ہیں ۔میںسمجھتی ہوں کہ شاعری برائے شاعری نہیں بلکہ زندگی ہونی چاہیے ۔

Browse More Articles of Other