Shohrat Ki Arzoo Kal Thi Nah Aaj Hai Episode 2

Shohrat Ki Arzoo Kal Thi Nah Aaj Hai Episode 2

شُہرت کی آرزو کل تھی نہ آج ہے قسط نمبر 2

احساس نے مجھے دُنیا کی رنگینیوں سے پیار کرنے نہیں دیا۔میں جب سوچتی ہوں کہ زندگی تو عارضی ہے تو خود سے کہتی ہوں کہ چھوڑو اتنا کما کر کیا کرنا ہے

جمعہ 5 اپریل 2019

 وقار اشرف
س:۔کوئی ایسا کام جوکرنے کی خواہش ہے؟
میں اپنا ویب چینل لارہی ہوں جس کے لئے کسی حد تک خوفزدہ بھی ہوں لیکن میری کوشش ہو گی کہ اللہ نے مجھے جو ٹیلنٹ دیا ہے اسے بروئے کار لا کر چینل پر کچھ مختلف چیز پیش کروں۔
س:۔ہمارا آج کا ڈرامہ بہت زیادہ بولڈ ہو گیا ہے ۔کیا یہ معاشرے میں بگاڑ کا سبب نہیں بن رہا؟
بولڈ موضوع کسی ایک آدھ ڈرا مے میں تو چل سکتا ہے لیکن یہ نہیں ہونا چاہئے کہ آپ ہر ڈرامے میں ہی دکھانا شروع کردیں ۔
معاشرے میں اور بھی بہت موضوعات ہیں انہیں بھی اُجاگر کرنا چاہئے ۔ترک ڈرامہ جب پاکستان میں آیا تو اس کی مقبولیت کی سب سے بڑی وجہ یہی تھی کہ اس کا کا نٹنٹ بہت مضبوط تھا جبکہ ہمارا ڈرامہ اس حوالے سے کافی پیچھے ہے ۔کوئی اچھا ڈرامہ یا ادبی فن پارہ تخلیق کرنے کے لئے ملک کے معاشی اور معاشرتی حالات کا اچھا ہونا ضروری ہے لیکن ہم آج جن معاشرتی اور معاشی حالات سے گزررہے ہیں ان میں اچھا افسانہ یا ڈرامہ تخلیق نہیں ہو سکتا کیونکہ ہمارے ذہن بھی رُکے ہوئے ہیں۔

(جاری ہے)


س :۔کیا ریٹنگ کے لیے عورت کو بے چاری اور مظلوم دکھایا جارہا ہے؟
آج کل چینلز پر بیٹھے لوگ معاشرے کی اصلاح نہیں بلکہ پیسہ کمارہے ہیں ۔اب کانٹنٹ کا فیصلہ کسی بھی چینل کا مارکیٹنگ ڈیپارٹمنٹ کرتا ہے ۔میں کہتی ہوں کہ آپ پیسہ ضرور کمائیں لیکن اسے سیکنڈ ترجیح رکھیں پہلی ترجیح معاشرے کی اصلاح ہونی چاہیے۔
س:۔زندگی نے آپ کو کیا دیا اور بدلے میں آپ کیا لوٹا رہی ہیں؟
زندگی نے مجھے نام اور شہرت دی جہاں تک لوٹا نے کا تعلق ہے تو میرے خیال میں اصل زندگی وہ ہے وہ آپ کسی دوسرے کے لیے جیتے ہیں ۔
میرے لیے زندگی کا مقصد بہت واضح ہے ،میں دنیاوی طور پر دولت نہیں کما سکی اور مجھ سے بہت پیچھے رہ جانے والے لوگ مجھ سے زیادہ دولت کے مالک ہیں،جن لڑکیوں نے میرے بہت بعد کیرےئر شروع کیا وہ آج کروڑوں کی مالک ہیں جبکہ میں خالی ہاتھ ہوں ،
زندگی میں جو تھوڑا بہت کمایا وہ دھو کے ہوگئے ،میری لاہور میں پراپرٹی پر قبضہ ہو چکا ہے اور میں آج کرائے کے فلیٹ میں رہ رہی ہوں لیکن اس کے باوجود مجھے کوئی ملال نہیں ہے کیونکہ میرا ضمیر مطمئن ہے ۔
میں نے ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ زندگی کی بے ثباتی کے احساس نے مجھے دُنیا کی رنگینیوں سے پیار کرنے نہیں دیا۔میں جب سوچتی ہوں کہ زندگی تو عارضی ہے تو خود سے کہتی ہوں کہ چھوڑو اتنا کما کر کیا کرنا ہے ،میرے خیال میں رہنے کے لیے ایک کمرے ،ایک کچن،ایک ڈرائنگ روم اور ایک باتھ روم والا گھر کافی ہے زیادہ کی کوئی خواہش نہیں ہے ۔گاڑی ایک چھوٹی سی ہوجو آپ کو کہیں لے جا سکے۔
یہ بنیادی ضرورتیں آپ کے پاس ہوں اور اس سے زیادہ آپ کے پاس جو کچھ بھی ہے وہ آپ نے دوسروں کو دینا ہے ۔
س:۔کوئی ملال تو نہیں ہے؟
بالکل کوئی ملال نہیں ہے لیکن کبھی کبھی تھک جاتی ہوں اور سوچتی ہوں کہ زندگی کو انجوائے کرنے کا موقع ہی نہیں ملا،یہی سوچتی رہی کہ جب اچھے دن آئیں گے تو پھر لانگ ڈرائیو پر جاؤں گی ،پھر سمندر کے پاس جاؤں گی ،وہاں بیٹھوں گی،کچھ دوستوں کوبلاؤں گی لیکن یہی سوچ کر میں چھوڑ دیتی ہوں کہ نہیں ابھی اچھا وقت نہیں آیا،ابھی تو مجھے وہ جنگ جیتنی ہے ۔
معاشرے میں بھی اور ذاتی حیثیت میں بھی اپنے مسائل کو حل کرنا ہے ۔لیکن یہ سوچ ٹھیک نہیں ہے کیونکہ ماہرین نفسیات بھی کہتے ہیں کہ خوشی کے پل زندگی میں خود نکالنے پڑتے ہیں ،کوئی آکر آپ کو خوشی کے پل نہیں دے گا اس لیے مجھے اپنی سوچ کا انداز بدلنا ہو گا اور اسی زندگی میں سے خوشی نکالنی ہو گی جو میں ابھی تک نہیں نکال سکی۔میں نے کبھی عید منائی نہ نئے سال کا جشن ،کسی تقریب میں بھی نہیں جاتی بس یہی سوچتی رہتی ہوں کہ نہیں ابھی مجھے بہت کچھ کرنا ہے ۔
اگرکسی تقریب میں جاؤں تو بظاہر میرے چہرے پر مسکراہٹ ہوتی ہے ،لوگوں کو لطیفے بھی سنارہی ہوتی ہوں لیکن گھر واپس آتے ہی اداسی پھر مجھ پر غالب آجاتی ہے ۔اس کی شاید ایک وجہ یہ بھی ہے کہ انسان جیسے جیسے آگہی کی منزل طے کرتا چلا جاتا ہے تو دُکھی ہوتا چلا جاتاہے۔اگر یہ سوچ نہ ہوتو پھر خوشیاں ہی خوشیاں ہیں ۔میں نے فلسفہ یا نفسیات باقاعدہ نہیں پڑھی لیکن مطالعہ بہت کیا ہے۔
زندگی کا فلسفہ زندگی سے ہی سیکھا ہے ،لوگوں سے جو تلخ تجربات حاصل ہوئے ان سے بھی سیکھا ہے کہ آئندہ مجھے یہ نہیں کرتا۔اگر آپ اگر زندگی کے تجربات سے نہیں سیکھتے تو پھر وہیں رک جاتے ہیں جبکہ میں ہر لمحہ سیکھنا چاہتی ہوں اور سیکھتی بھی ہوں ۔میرے خیال میں سیکھنے کیلئے ایک جنم بہت کم ہے کیونکہ یہ جنم تو میں نے سیکھنے میں گزار دیا اب اپنے لیے مجھے ایک جنم اور چاہیے۔

س:۔شاعری سے افسانے کی طرف کیسے آئیں؟
کہانیاں تو بچپن سے لکھتی تھی لیکن شعوری طور پر اس طرف آنے کا نہیں سوچا تھا ۔ایک بار میں شوز کے لیے نیویارک گئی تو درمیان میں محرم آگیا جس کی وجہ سے سارے شوز کینسل ہو گئے اور ہمیں فرصت ہی فرصت تھی ،سارا وقت کمرے میں پڑے رہتے ،اس دوران میں نے دو تین افسانے لکھے،سفر نامہ بھی شروع کیا لیکن کچھ صفحات لکھ کر سلسلہ روک لیا ۔
کاش وہ مکمل کر لیتی ۔نیویارک سے واپس آئی تو پھر کچھ کرداروں سے انسپائریشن ملی اور چند افسانے لکھ ڈالے ۔جب دیکھا کہ میں لکھ سکتی ہوں تو بڑے بڑے افسانے نگاروں کو پڑھنا شروع کیا کہ میں ان میں کہاں کھڑی ہوں ۔لوگوں نے بھی میری نثر کی تعریف کی بلکہ بعض نے تو کہا کہ تمہاری نثر شاعری سے بھی اچھی ہے لیکن اس حوصلہ افزائی کے باوجود میں کبھی زیادہ خوش فہم نہیں رہی اور بار بار خود کو جانچنے کی کوشش کرتی رہی کہ کہیں میرا افسانہ سطحی تو نہیں اسی لیے افسانوں کی کتاب آنے میں بھی دیر ہوئی ۔
میں کہانی نگار نہیں بلکہ افسانہ نگار بننا چاہتی ہوں ،سطحی نہیں بلکہ علامتی لکھنا چاہتی ہوں ۔فیس بک پر ناول بھی لکھنا چاہتی ہوں اور اس کے لیے میرے پاس اتنا مواد بھی ہے لیکن ناول لکھنے کے لیے جو وقت اور مستقل مزاجی چاہیے وہ میرے پاس نہیں ہے ۔میری پہلی کتاب”میرے درد کو جو دوا ملے“اور دوسری ”زمانے کو فسانہ چاہیے“ہے ۔تیسری کتاب افسانوں کا مجموعہ ہو گی۔

س:۔طبیعت میں روما نٹیسزم ہے؟
رومانس کیا ہے ؟ہر خوبصورت چیز اور خوب صورتی کو محسوس کرنا رومانس ہے ۔میرے نزدیک رومانٹیسزم کی تعریف بہت وسیع ہے اور یہ صرف عورت اور مرد تک محدود نہیں ۔میرے خیال میں تو شادی بھی رومانس کی موت ہے۔یہ ایک ایسی چیز ہے جسے آپ چھو نہیں سکتے بلکہ صرف محسوس کرسکتے ہیں۔
س:۔کس افسانہ نگار نے متاثر کیا؟
میں نے بہت سے افسانہ نگاروں کو پڑھا لیکن خالدہ حسین نے سب سے زیادہ متاثر کیا جن کا کچھ عرصہ قبل ہی انتقال ہوا ہے ۔
باقی گھر کا ماحول بھی شروع سے ادبی تھا،کتابیں ادھر ادھر ہوتی تھیں ،والد گفٹس میں بھی کتابیں دیتے تھے اس طرح ماحول بھی مجھے ساتھ ساتھ گروم کر رہا تھا۔
س:۔فرصت کے لمحات کیسے گزارتی ہیں؟
میوزک سُنتی ہوں اور ساتھ ریاض بھی کرتی ہوں ،لائٹ غزل میری پسندیدہ ہے اور اپنے حلقہ احباب میں گاتی بھی ہوں ۔حال ہی میں لاہور میں پیش کیے گئے ڈرامے میں میں نے ایکٹنگ کے ساتھ ساتھ غزل ”دشتِ تنہائی میں“بھی گائی ہے ۔
نور جہاں سے لے کر مہدی حسن ،امانت علی خان سے لے کر غلام علی ،پرویز مہدی تک سب کو سنا ہے ۔لیکن ہمارے ہاں انسٹرومینٹل میوزک میرے خیال میں تھوڑا پیچھے ہے۔
س:۔یہاں نئے ٹیلنٹ کو آگے آنے کاموقع دیا جاتا ہے یاراستہ روکنے کی کوشش کی جاتی ہے؟
پہلے بھی نئے ٹیلنٹ کا راستہ روکا جاتا تھا اور اب بھی حالات کچھ خاص نہیں بدلے۔اچھے خاصے پڑھے لکھے خوش شکل لڑکے آتے ہیں ،انہیں شوق بھی ہوتا ہے لیکن ڈائریکٹرز انہیں بھگا دیتے ہیں ۔
اس کے مقابلے میں اگر کوئی بڑے اداکاریا اداکارہ کا بیٹا ہے تو اس کے لیے آسانیاں ہیں ،وہی لوگ آگے آرہے ہیں ۔
فیملی :۔آپ کی سب سے اچھی عادت ؟
میں بے غرض انسان ہوں ،دوستوں سے صرف یہ توقع کرتی ہوں کہ وہ میری عزت کریں اور میرے لیے اچھا سوچیں۔میں فائدے کے لیے لوگوں سے تعلقات بناہی نہیں سکتی ۔اگر ایسی ہوتی تو آج بہت آگے ہوتی ۔جب میں کمپےئرنگ کرتی تھی تو بڑی اداکارائیں مجھے اپنے گھر بلاتی تھیں لیکن میں کبھی کسی کے گھر نہیں گئی ،کسی سے دوستی نہیں کی۔

س:۔اور خامی؟
میں کسی غلط بات پر بے رحمی اور سفاکی کی حد تک سٹریٹ فارورڈ ہوں۔
س:۔تنہائی میں بیٹھ کر خود احتسابی کرتی ہیں؟
بالکل کرنی پڑتی ہے ۔میں تنہا بیٹھ کر سوچتی ہوں ۔چونکہ کافی عرصے سے میں اکیلی زندگی گزار رہی ہوں اس لیے میری تنہائی میں کسی کی گنجائش نہیں ہے۔چاہتی ہوں جب دن بھر کام کرنے کے بعد گھر واپس آؤں تو میں ہوں اور میرا کمرہ ہو ،جو میرادل چاہے وہ اپنی مرضی سے کروں ۔
انسانوں کو پرکھنے کے بعد مجھے اب انسانوں سے اُمیدیں ہیں بھی نہیں ۔ایسے انسانوں سے بہتر ہے انسان جانوروں سے دوستی کرلے اس لیے میں نے کئی سٹریٹ کیٹس اور سٹریٹ ڈوگزڈاپٹ کئے ہوئے ہیں جو میرے ساتھ باتیں کرتے ہیں ۔میرے ملنے والے لوگوں کی تعداد اُنگلیوں پر گنی جا سکتی ہے ،مردوں سے دوستی کی قائل نہیں کیونکہ ہمارے ہاں مرد عورت کو انسان سمجھ کر نہیں بلکہ عورت سمجھ کر ملنا چاہتا ہے ۔

س:۔کوئی وہم جو پریشان کرتا ہے ۔
بے شمار وہم ہیں ،میں اکثر ڈپریشن میں چلی جاتی ہوں ۔کئی وہم ہوتے ہیں مثلاً کوئی اچھا کام کرنے سے پہلے اگر موت آگئی تو زندگی کا مقصد ادھورا رہ جائے گا۔میں بہت زیادہ مذہبی نہیں لیکن خد ا پر میرا ایمان بہت مضبوط ہے کیونکہ خدا میری ضرورت ہے ۔اندر سے میں صوفی ہوں ،منافقت میں نہیں کر سکتی ۔
س:۔کوئی لمحہ جس کے گزر جانے کا شدت سے احساس ہو؟
زندگی کے بہت سے ایسے لمحات ہیں جب بہتر پلاننگ کرنے کی ضرورت تھی لیکن اس وقت پتہ نہیں چلا کہ کیا فیصلہ کرنا چاہیے۔
میں ایک خودرو پودے کی طرح شوبز میں آئی اور میرے کوئی پلاننگ نہیں تھی کہ کس طرح کام کرنا ہے ۔میں سمجھتی ہوں مجھے ہوم ورک کے ساتھ آنا چاہیے تھا اور ساتھ اپنی مارکیٹنگ بھی خود کرنی چاہیے تھی ۔اگر کی ہوتی تو شاید آج میں کہیں اور ہوتی ۔اس لیے ان لمحوں کے گزر جانے کا افسوس ہے ۔
س:۔ناگواری کا اظہار کیسے کرتی ہیں؟
مجھ میں بہت سی چیزوں کو برداشت کرنے کا حوصلہ ہے اور میں آخری حد تک برداشت کرتی بھی ہوں ۔

ایروگینٹ میں نہیں ہوں بلکہ ڈاؤن ٹوارتھ ہوں ہاں اگر کوئی غلط بات کررہا ہوتو خاموش نہیں رہوں گی بلکہ بول پڑوں گی۔
س:۔گھر سے دوررہ کر کس چیز کو مِس کرتی ہیں؟
اپنے کمرے کو کیونکہ وہاں میرے استعمال کی ہر چیز موجود ہوتی ہے ۔میرا بیڈروم ہی میرا گھرکا پسندیدہ گوشہ ہے ۔اگر کام نہ ہوتو بعض اوقات دو دودن اپنے بستر پر گزار دیتی ہوں جس میں کتابیں اردگرد بکھری ہوتی ہیں ۔
ڈرامے دیکھنے کی بجائے سیاسی شوز دیکھتی ہوں، سیاسی طور پر سرگرم بھی رہتی ہوں ۔
تحریک انصاف اور عمران خان کی بہت بڑی سپورٹر ہوں اور ان کے لیے کئی ترانے بھی لکھے ہیں ۔میں بہت زیادہ پر امید ہوں اور ہم سب کو عمران خان کا ساتھ دینا چاہیے کیونکہ اس کے علاوہ ہمارے پاس کوئی آپشن بھی نہیں ہے۔
س:۔آپ کا سب سے قیمتی اثاثہ؟
میری نیک نامی ،میں نے دنیاوی طور پر کچھ حاصل نہیں کیا حالانکہ اگر میں چاہتی تو بہت کچھ حاصل کر سکتی تھی وہ بھی جائز طریقے سے میں نے اس ملک سے واقعی محبت کی ہے ۔
میرے پاس امریکی شہرت لینے کے مواقع تھے ،کینیڈین شہریت میں اب بھی لے سکتی ہوں لیکن میں پاکستان کے بغیر پندرہ یازیادہ سے زیادہ ایک ماہ رہ سکتی ہوں اس سے زیادہ نہیں کیونکہ پاکستان میری شناخت ہے ۔باہر میں دوسرے درجے کی شہری ہوں گی، میں نے اپنی خواہشوں کو کنٹرول کرنا سیکھ لیا ہے ۔اب میری ضروریات صرف روحانی ہیں،مجھے صرف نام اور شناخت چاہئے۔

س:۔کیسی کتب زیر مطالعہ رہتی ہیں؟
ہر قسم کی ،اکثر کتب تو لوگوں کی طرف سے مل جاتی ہیں ۔افسانہ زیادہ پڑھتی ہوں ،سیاسی کتابیں بھی پڑھتی ہوں ۔میں سمجھتی ہوں آج کے دور میں اختصار سے لوگوں کو لکھنا چاہیے ،افسانہ بھی مختصر ہونا چاہیے۔
س:۔آئیڈل اِزم پر یقین رکھتی ہیں؟
میں آئیڈ لسٹ ہوں جو آج کے دور میں انسان کو نہیں ہونا چاہیے کیونکہ جب کوئی معیار پر پورانہ اُترے تو دُکھ بہت زیادہ ہوتا ہے ۔
مجھ میں ہر وقت ایک اضطراب کی کیفیت رہتی ہے کہ یہ بھی ہونا چاہیے۔
س :۔لباس کے معاملے میں کس حد تک محتاط ہیں؟
گھر پر تو بہت سادہ رہتی ہوں ،شوبز میں نہ ہوتی تو شاید میرے پاس دوچار ہی جوڑے ہوتے ۔میں کپڑوں کی مالیت پر یقین نہیں رکھتی بلکہ بہت ہی کم قیمت کپڑوں کو اچھے انداز میں کیری کرتی ہوں ۔
برینڈکا نشےئس نہیں ہوں ۔خود پر خرچ کرنے کے حق میں نہیں اور سمجھتی ہوں کہ وہ پیسے دوسروں پر خرچ ہو سکتے تھے ۔
جیولری میں پہنتی نہیں ہوں ۔میں نے ساڑھی ،سکرٹ، جینز غرض ہر طرح کا ڈریس پہنا ہے لیکن اسے گریس فل انداز میں پہنا ہے ،کسی فیشن جو جسم کی نمائش نہیں کرتی ۔میرا سٹارورگو ہے اور مجھ میں اپنے سٹار کی ساری خصوصیات پائی جاتی ہیں ۔کھانے میں سبزیاں زیادہ کھاتی ہوں ،گوشت بہت کم کھاتی ہوں ۔آئل کو ہم اگر اپنی خوراک سے نکال دیں تو اوسط عمر بڑھ سکتی ہے۔
س:کسی سے متاثر ہوتی ہیں؟
جی بالکل جن کے پاس اچھا علم ہو۔

Browse More Articles of Other