Laal Mohammad Aur Buland Iqbal

Laal Mohammad Aur Buland Iqbal

لال محمد اور بلند اقبال

پاکستانی فلموں کی موسیقار جوڑی ملک کی پہلی جاسوسی فلم،پہلی ایکشن فلم،پہلی پشتو اور گجراتی فلم کی موسیقی دی

جمعرات 18 اپریل 2019

 شاہد لطیف
1965کی پاک بھارت جنگ کے دوران ہمارے گھرمیں ریڈیو پاکستان کراچی سے جنگی ترانے اور نغمات بہت شوق سے سُنے جاتے تھے ۔یہ ترانے سُن سُن کر مجھے بھی یاد ہو گئے ۔اِن کو میں بہت شوق سے گاتا تھا۔اُس زمانے میں ریڈیو پاکستان کراچی سے اتوار کی صبح بچوں کا پروگرام آیا کرتا تھا۔جنگ کے اختتام پر محض میرے شوق کی خاطر میری والدہ مجھے ریڈیو اسٹیشن لے گئیں۔
پروگرام”بچوں کی دُنیا“ کے پروڈیوسر ظفر اقبال تھے۔اب بھلا بچوں کے آڈیشن کا کیا معیار ہوتا ہو گا! بہر حال․․․․․․ایک سنجیدہ سے صاحب نے آڈیشن لیا ۔مجھے تو لفظ آڈیشن کا مطلب بھی نہیں آتا تھا۔
اُس وقت دستیاب بچوں میں شاید میں ”اندھوں میں کاناراجہ “تھا جب ہی تو مجھ ایسے کو اُنہوں نے پاس کر دیا ۔وہ حضرت میری والدہ سے کہنے لگے کہ اگر اس کو باقاعدہ اسٹیشن لاتی رہیں تو یہ کچھ سیکھ جائے گا۔

(جاری ہے)

یہ لال محمد تھے ۔ان کے ساتھ ہی بُلند اقبال سے بھی واسطہ پڑنے لگا۔دونوں حضرات کی جوڑی فلموں میں لال محمد اقبال کے نام سے موسیقی دیا کرتی تھی ۔یوں ریڈیو پاکستان کا دروازہ مجھ پر کھلا اور میں بہت جلد کورس سے نکل کر سولوsoloنغمات گانے لگا۔
شاید اُس زمانے میں سینٹرل پروڈکشن نئی شروع ہوئی تھی جہاں بچوں کے کئی ایک گیت موسیقار لال محمد نے میری آواز میں صدا بند کرائے ۔
مجھے لال محمد اور بلند اقبال اپنی اپنی جگہ موسیقی کا ایک خزانہ لگتے تھے ۔ان حضرات کو میں فخر کے ساتھ اپنا اولین اُستاد کہتا ہوں ۔موسیقی کی ابجد سے واقفیت ان دونوں کی مرہون ِمنت ہے ۔لال محمد 1933میں راجھستان کے شہر”اودے پور“میں پیدا ہوئے۔بانسری کا شوق انہیں ابتدا ہی سے تھا۔1951میں ہجرت کر کے پاکستان آگئے۔کراچی میں موسیقی کی ایک محفل میں ریڈیو پاکستان کے ڈائریکٹر ،سجاد سرورنیازی نے ان کی بانسری کو بہت پسند کیا۔
نیازی صاحب ہُنر شناس تھے لہٰذا لال محمد کو ریڈیو پاکستان کراچی میں اسٹاف آرٹسٹ کی پیشکش کردی۔
نیازی صاحب پاکستانی فلموں کی نامور گلوکارہ ناہید نیازی کے والد اور موسیقار مصلح الدین کے سسر تھے ۔ان کی ایک اور صاحبزادی نجمہ نیازی(یہ ماہ رُخ بھی کہلاتی تھیں)نے بھی اگر چہ کم لیکن مقبول فلمی گیت ریکارڈ کروائے ۔میں جب پاکستان ٹیلی وژن کے شعبہ پروگرام سے منسلک ہوا تب نجمہ نیازی /ماہ رُخ پاکستان ٹیلی وژن کی ڈائریکٹر پروگرامز تھیں ۔
میری ان سے پی ٹی وی ایوارڈ واقع لیا قت باغ راولپنڈی 1982 میں تفصیلی ملاقات ہوئی۔
بلند اقبال موسیقی کے دہلی گھرانے سے تعلق رکھتے تھے ۔ان کے بڑے بھائی اُستاد اُمراؤ بندوخان، بندوخانی سارنگی کے اُستاد تھے جو اُن کے والد بندوخان نے ایجاد کی تھی۔بلند اقبال بھی سارنگی بجانے میں مہارت رکھتے تھے اور اسی بنیاد پر ریڈیو پاکستان میں اسٹاف آرٹسٹ ہوگئے ۔
اُس زمانے میں خود اَن کے بڑے بھائی اُستاد امر اؤ بندوخان(وفات1979)،اُستاد حامد حسین ،اُستاد نتھوخان جیسے قدآور سارنگی نواز اس انجمن میں تھے ۔بہت جلد بلند اقبال نے فیصلہ کر لیا کہ ریڈیو میں کمپوزیشن شروع کرنی چاہئے۔پھر گیت وغزل کی موسیقی ترتیب دینے لگے ۔یہی زمانہ تھا جب لال محمد بھی ریڈیو پاکستان میں واردہوئے ۔بلند اقبال نہایت میٹھے آدمی تھے۔
نرمی سے بات کرنے اور اسرار ورموز سمجھانے میں آپ اپنی مثال تھے۔
میں نے اُنہیں کبھی غصے کی حالت میں نہیں دیکھا جبکہ لال محمد مزاج کے کچھ سخت اور بظاہر سنجیدہ انسان تھے ۔بانسری بجانے میں ان کو ملکہ حاصل تھا۔لال محمد قسمت کے بھی دھنی تھے۔تعلقات عامہ میں بہت اچھے تھے۔فلمسازوں ،ہدایت کاروں ،ہنر مندوں اور فلمی صحافیوں سے لال محمد ہی امور نبٹا تے تھے۔
میں نے ایسا ہوتے خود دیکھا ہے ۔ریڈیو پاکستان سے باہر موسیقی کا پروگرام ہو،کوئی غیر فلمی ریکارڈنگ ہو ،فلموں کی موسیقی یا پس منظر موسیقی ہر جگہ پیسوں کی ہی کہانی ہوا کرتی ہے ۔سامنے والافریق اگر اچھا ہوتو یہ اللہ کی نعمت ہوتی ہے ورنہ پھر آج آؤ کل آؤ والی بات۔آخر الذکرصورت حال میں لال محمد کمال بیچ کا راستہ نکال لیا کرتے تھے۔بلند اقبال راگ راگنیوں کی ابجد اور اُن کی اشکال اتنے آسان اور دلچسپ پیرائے میں بتایا کرتے کہ میں اب کیا بتاؤں ۔
سیماب اکبر آبادی کی مشہور غزل کی دُھن بلند اقبال نے میر ے سامنے بنائی:
کوئی مُوجِ گل سے کہہ دے نہ چلے مچل مچل کے وہ نظر بدل گئی ہے میری زندگی بدل کے
 فلم دوسری ماں(1968)کے اس گیت کی دُھن بھی میرے سامنے بنائی گئی۔یہ احمد رشدی کی آواز میں ریکارڈ کیا گیا:
دنیا کے غموں کو ٹھکرادو ہر درد کو تم سہنا سیکھو
پھولوں کی طلب کرنے والو کا نٹوں پہ ذراچلنا سیکھو 1968تک میں تواتر کے ”بچوں کی دُنیا “میں اپنی والدہ کے ساتھ جاتا رہا۔
ہر ہفتہ ریڈیو پاکستان کراچی سے 10/روپے کا چیک میرے اسکول،کلثوم ہائی ولیکا سیکنڈری اسکول کراچی ائیرپورٹ کے پتہ پر آتا تھا جو پرنسپل صبح اسمبلی کے موقعے پر مجھے بلواکردیا کرتیں ۔پروڈیوسر ظفر اقبال اور خاتون پروڈیوسر فاروق جہاں تیموری نے مجھے پروگرام ”نئی آواز،“
اور”نئے فنکار“میں 1969 کے اوائل تک بہت مواقع دئیے۔
اُس وقت میری عمر 14سال تھی۔
اس عمر میں لڑکوں کی آواز میں تبدیلیاں آنا شروع ہوتی ہیں لہٰذا لال محمد اور بلند اقبال نے مجھے گلا استعمال کرنے سے منع کر دیا۔یہ وقت تھا جب میں نے اپنی والدہ اور والد کے ساتھ اُستاد امراؤ بندوخان کے گھر واقع نِشتر پارک اتوار کو جانا شروع کیا۔ یہ وہاں تعلیم دیا کرتے تھے اور تمام آنے والوں کو اپنے گھر کے فردکا درجہ دیتے تھے۔وہاں تو صرف مشاہدہ کرنے سے ہی بہت کچھ حاصل ہونے لگا۔
یہیں پرراگ ایمن،راگ پیلو،راگ بہار،راگ گونڈسارنگ ،راگ دیس ،راگ بھیروسے واقفیت ہوئی۔اُس زمانے میں ،میں ان محافل کی بدولت الاپ سُن کر بتادیا کرتا تھا کہ کون ساراگ ہے ۔وہیں پر اُستاد امیر سلطان سے بھی ملاقات ہوئی ۔یہ جتنے صورتاً وجیہہ تھے اس سے کہیں زیادہ نفیس انسان اور بہترین طبلہ نواز تھے۔
سہیل رعنا کے معرکتہ الآرافلمی گیتوں میں آپ ہی کا طبلہ استعمال کیا گیا جو ان گیتوں کی ریڑھ کی ہڈی ہے ۔
یہ اُستاد امراؤ بندوخان اور بلند اقبال کے بھانجے وائلن نواز اور موسیقار وزیراحمد خان کے سسر بھی تھے ۔وزیر احمد خان کے بڑے بھائی اُستاد امیر احمد خان مشہور فلمی شاعر یونس ہمدم کے قریبی دوست اور ریڈیو پاکستان کراچی کے پروگرام پروڈیوسر تھے ۔بعد میں یہ اسی مرکز میں پروگرامز منیجر بھی رہے ۔یہ بہترین گلوکار اور موسیقار تھے اور رشتے میں اُستاد امر اؤ بندوخان کے دامادبھی تھے ۔

ایک محتاط انداز ے کے مطابق موسیقار لال محمد اقبال نے کم وبیش 31فلموں کے لئے 91گیتوں کی دھنیں بنائیں ۔جن میں 26اُردو فلموں کے89گیت اور باقی سندھی اور پشتو فلموں کے لئے۔70کی دہائی میں پاکستان اور بھارت کی اولین مشترکہ فلم ”سورج بھی تماشائی “کے موسیقار بھی لال محمد اقبال تھے ۔اسی سال لال محمد اقبال نے پاکستان کی پہلی پشتو فلم”یوسف خان شیر بانو“اور پہلی گجراتی فلم ”ماں تے ماں“کی موسیقی ترتیب دی ۔
ان کی آخری اُردو فلم”سب کے باپ“1994میں نمائش کے لئے پیش ہوئی اور سندھی فلم”ہمت والا“(1997)اُن کی ریلیز ہونے والی آخری فلم ہے ۔یوں تو ان کے مشہور گیتوں کی لمبی فہرست ہے لیکن مندرجہ ذیل وہ گت ہیں جو آج بھی ریڈیو پاکستان،اُس کے ایف ایم اسٹیشن اور دیگر ایف ایم اسٹیشنوں سے ہم اکثر وبیشتر سنا کرتے ہیں:

1۔بارہ بجے (1961)ملک کی پہلی جاسوسی فلم۔
ہار گئی ہار گئی تو سے جی لگاکے۔نشی کماری ۔شبی فاروقی
2۔جاگ اٹھاانسان (1966)۔دنیا کسی کے پیار میں جنت سے کم نہیں ۔مہدی حسن۔دُکھی پریم نگری
3۔جاگ اٹھا انسان(1966)۔دل میں بسایا پیار سے ہم نے تم کو اپنا جان کے۔مالا اورمسعودرانا ۔دُکھی پریم نگری
4۔اکیلے نہ جانا(1966)۔جو کہیں مجھ کو بہاروں کا خدا مل جاتا۔مہدی حسن
5۔آزادی یا موت(1966) ۔اودنیا جانے میرے وطن کی شان۔
عالم لوہار ۔صہبااختر
6۔لاڈلا(1969) ۔سوچا تھا پیار نہ کریں گے ہم نہ کسی پہ مریں گے ۔احمد رشدی ۔تنویر نقوی
7۔یوسف خان شیربانو(1970) ۔تمام گیت۔علی حیدر جوشی
8۔نصیب اپنا اپنا(1970) ۔اے ابر کرم آج اتنا برس۔احمد رشدی۔مسرورانور
9۔نصیب اپنا اپنا(1970) ۔ملی گل کو خوشبو مجھے مل گیا تو ،پسند اپنی اپنی نصیب اپنا اپنا۔رونا لیلیٰ ۔
مسرورانور
10۔
ماں تے ماں(1970) ۔گجراتی فلم ۔تمام گیت
11۔جین بونڈ(008 آپریشن کراچی (1971)پہلی ایکشن فلم۔اک اڑن کھٹولاآئے گا اک لال پری کو لائے گا۔احمد رشدی
12۔پازیب(1972) آئی ہے مہاجیارا موراناچے۔شہباز بیگم تانیں اُستاد امراؤبندوخان ۔فیاض ہاشمی
13۔گاتا جائے بنجارہ(1972)۔پتہ جوکھڑ کا تو دل میرادھڑکا۔احمد شدی
14۔نادان(1973) ۔بھولا بھولا میرا نام ۔احمد رشدی ۔
(غالباً) دُکھی پریم نگری
15۔گھر وندہ( نمائش کیلئے پیش نہ ہو سکی) ۔بچپن کی وادیوں سے کس نے ہمیں پکارا۔رونالیلیٰ ۔دُکھی پریم نگری
 لال محمد اقبال نے زیادہ نغمات احمد رشدی کی آواز میں ریکارڈ کروائے۔احمد رشدی ملکی فلمی صنعت کے سنہری دور کا ایسا ستارہ ثابت ہوا جس کی تابندگی کم و بیش30 سال جاری رہی۔اداکار وحید مراد کی فلموں کی اوپر تلے کامیابی کا ایک اہم سبب احمد رشدی کے پلے بیک گانے بھی تھے۔
راقم نے 1980میں پاکستان ٹیلی وژن کراچی مرکز میں شعبہ پروگرامز میں جب ذمہ داریاں سنبھالیں تو خوش قسمتی سے موسیقی کے پروگرام کرنے کو ملے۔1983میں اخبار میں پڑھا کہ نامور گلوکار احمد رشدی کو دورہ قلب کی وجہ سے ڈاکٹروں نے آرام کرنے کا مشورہ دیا ہے اور آج کل وہ کراچی میں قیام پذیر ہیں ۔اندھا کیا چاہے دو آنکھیں۔میں نے سوچا اُن سے پروگرام”آواز آواز“کروایا جائے۔

اُسی وقت میں اپنے اساتذہ لال محمد اور بلند اقبال کے پاس گیا اور اُن سے درخواست کی کہ احمد رشدی کو4 گیت ریکارڈ کروانے کے لئے راضی کریں ۔موسیقار لال محمد کے ہمراہ احمد بھائی سے ملاقات سود مندرہی ۔راقم کو اس وقت بہت حیرت ہوئی جب انہوں نے کہا کہ3 انتروں کے ایک گیت میں وہ اپنے عروج وزوال کو لکھوانا چاہتے ہیں․․․․․․․ یہ خود ان کی اپنی کہانی تھی کہ کس طرح فٹ پاتھ کے ایک شخص کو اللہ تعالیٰ نے موقع دیا کہ شہرت اور دولت کی بلندیوں کو چھولے۔
پھر کس طرح سے وہ شخص( احمد رشدی) اللہ کا نا شکرا بنا۔وہ لوگ جن کے پیسے سے فلموں کا کاروبار چلتا تھا ان ہی سے سیدھے منہ بات نہیں کرتا تھا ۔پھر کس طرح اوپر والے نے جھٹکادیا۔اور اب سارا دن ٹیلی فون کی گھنٹی بجنے کا انتظار رہتا ہے کہ شاید ․․․․بہت عمدہ گیت لکھا گیا۔
طے یہ پایا کہ شالیمارریکارڈنگ کمپنی میں یہ گیت صدا بند کےئے جائیں گے۔
جہاں موسیقار لال محمد اقبال،ساؤنڈریکاردسٹ شریف اور سلیم قریشی کے علاوہ اور کوئی نہیں ہو گا۔ایک زمانہ تھا جب احمد بھائی ایک دن میں کئی گیت ریکارڈ کروالیا کرتے تھے اور اب4 گانے25 روز میں ”ٹریک ریکارڈ“ ہوئے لیکن اس آڈیور یکارڈنگ کا معیار اتنا اعلیٰ تھا کہ بڑے بڑے موسیقی کے پنڈت بھی حیران رہ گئے کہ یہ اُسی احمد رشدی کی آواز ہے ۔یہ سارا کمال احمد بھائی کی سخت محنت ،لال محمد اقبال کا حوصلہ اور شالیمار ریکارڈنگ کمپنی کے ہنر مندوں کی200 فی صد پیشہ ورانہ مہارت کی مرہونِ منت ممکن ہوا۔
لال محمد اور بلند اقبال نے بھی احمد بھائی سے اپنی دیرینہ دوستی کا حق ادا کر دیا ۔پھر ایک روز موسیقار لال محمد 8ایم ایم والے آڈیو اسپول پر گیت منتقل کرواکے لے آئے ۔
پی ٹی وی کراچی مرکز میں بلا مبالغہ جس کسی نے بھی سنا سنتا ہی رہ گیا۔پروڈیوسر سلطانہ صدیقی اور پروگرام منیجر شہزاد خلیل بھی بہت خوش ہوئے ۔اب اگلا مرحلہ ویڈیو ٹیپ ریکارڈنگ کا تھا۔
احمد بھائی سے مشاورت کرکے ریکارڈنگ کی تاریخ10 اپریل1983 طے ہوئی ۔یہ کام آسان تھا لہٰذا امید تھی کہ چند گھنٹوں میں مکمل ہو جائے گا ۔احمد بھائی وقت مقررہ پر آگئے اور آغاز اچھا ہوا۔بچوں کے گیت پر موصوف نے بہت عمدہ لپ سنکنگ کی ۔اگلے گیت سے پہلے ایک وقفہ تھا ۔اسی دوران قیصر مسعود جعفری آگئے جو اخبارات میں ٹی وی اسٹیشن کی خبریں دیا کرتے تھے ۔

پروگرام منیجر شہزاد خلیل اپنے دفتر سے یہ ریکارڈنگ دیکھ رہے تھے۔انہوں نے مجھے فون کیا کہ احمد رشدی کو اُن کے آفس میں چائے پینے کا کہوں ۔میں نے مود بانہ کہا کہ احمد بھائی آجکل بے حد حساس اور زودرنج ہیں کہیں وہ برانہ مان جائیں ،ساتھ ہی درخواست کی کہ وہی اسٹوڈیو میں آجائیں لیکن وہاں سے احکامات برقرار رہے ۔میں نے احمد بھائی کے سامنے چائے پینے کی درخواست رکھی ۔
بس اس کے بعد وہی ہوا جس کا ڈر تھا․․․․احمد بھائی رنجیدہ ہو کر بولے”آج یہ دن بھی دیکھنا تھا کہ حکم دیا جارہا ہے ․․․․․ چائے پی لو!! “۔
راقم جلدی سے ان کے پاس بیٹھ گیا ۔پیار اور احترام سے ان کے کاندھے دبائے اور تسلی دی ۔اسی دوران قیصر مسعود جعفری کے ساتھ دیگر ٹی وی کارکنان بھی احمد بھائی کے قریب بیٹھ گئے۔پھر اچانک وہ اٹھ کھڑے ہوئے اور راقم کو مخاطب کر کے کہنے لگے:”اپنے پی ایم سے کہنا کہ میں نے جی توڑ کر یہ ریکارڈنگ کروائی تھی۔
ٹی وی سے ملنے والی رقم سے زیادہ تومیں نے آڈیور یکارڈنگ میں آنے جانے کا ٹیکسی کا کرایہ دیا ہے ۔اس ذلت کی زندگی سے تواب مرجانا بہتر ہے “۔اتنا کہ کروہ تیزی سے باہر نکل گئے ۔راقم ،صحافی قیصر مسعود جعفری اور دیگر افرد ان کے پیچھے بھاگے مگر احمد بھائی کو نہ رکنا تھا نہ رکے ۔اگلی صبح اخبارات سے دل کے دورہ سے ان کے انتقال کی خبریں پڑھیں ۔

11اپریل 1983کو احمد رشدی صاحب انتقال کرگئے ۔اس تمام واقعہ کا افسوسناک پہلو یہ ہے کہ اُن کے زندگی کے آخری گیت سرد خانے میں چلے گئے یہاں تک کہ ایک گیت جس کی ویڈیور یکارڈنگ بھی ہو چکی تھی وہ بھی پاکستان ٹیلی وژن سے نشر نہیں ہو سکا!! ذکر لال محمد اقبال کا ہورہا تھا بات احمد رشدی کی المناک موت پر اگئی۔موسیقار لال محمد سے خاکسار کی آخری ملاقات1984 میں پاکستان ٹیلی وژن کراچی مرکز میں پروڈیوسر ذوالفقار نقوی کے کمرے میں ہوئی تھی ۔

لال محمد بہت کمزور ہو گئے تھے۔اُن کو کینسر کا مرض لاحق ہو گیا تھا۔یہاں میں نے ایک حیرت انگیز تبدیلی محسوس کی کہ اب وہ پہلے جیسے سنجیدہ اور کم گونہ تھے۔کمزوری کے باوجود ہر آنے والے کے ساتھ ہلکے پھلکے لطائف کے ساتھ گفتگو کررہے تھے ۔پھر حالات مجھے پاکستان سے باہر لے گئے۔2007میں واپسی ہوئی ۔پھر لاہور مین نجی ٹی وی چینل سے منسلک ہوا۔
وہیں اخبارات سے علم ہوا کہ2009 میں موسیقی میں میرے اولین اُستاد لال محمد کراچی میں76 برس کی عمر میں انتقال کر گئے ۔موسیقار بلند اقبال سادا زندگی والے سادا انسان تھے ۔
ریڈیو سے ریٹائرمنٹ کے بعد بھی آپ نے اپنی زندگی موسیقی کی خدمت کے لئے وقف کر دی ۔ویسے ماشاء اللہ چلتے پھر تے تھے لیکن جولائی 2013کے رمضان میں دل کی تکلیف کے سلسلے میں اسپتال میں داخل ہوئے اور12 روز بعد83 سال کی عمر میں انتقال کر گئے ۔گولال محمد اقبال نے بہت زیادہ فلموں
 کی موسیقی ترتیب نہیں دی لیکن جوکام کیا، معیاری کیا۔جب ہی تو ہر روز ریڈیو پاکستان اور دیگر ایف ایم اسٹیشنوں سے اِن کے بنائے ہوئی فلمی گیت آج بھی سننے کو ملتے ہیں۔

Browse More Articles of Music