Naheed Nayazi Qist Number 3

Naheed Nayazi Qist Number 3

ناہید نیازی قسط نمبر3

سُر اور سُندرتا کا حسین امتزاج

بدھ 24 اپریل 2019

ڈاکٹر امجد پرویز
ناہید نیازی نے 1963ء میں ریلیز ہونے والی سدھیر اور ترانہ کی فلم ”کالا پانی “کے لئے ایک نغمہ”کیسا دکھایا پیا پیار کا سپنا“گایا۔فلم ”قانون “1963ء کے لئے ناہید نیازی نے ایک نغمہ ”رنگ بھرادل آج یہی گائے “پیش کیا،جب منور سلطانہ اور درپن کی مشہور فلم ”باجی “ریلیز ہوئی تو اداکارہ زیباکے پس پردہ آواز موسیقار سلیم اقبال نے ناہید نیازی کی استعمال کی۔
یہ نغمہ تھا”نہ کوئی وعدہ کیا نہ کوئی کھائی قسم“یہ گانا فوری طور پر مقبول ہو گیا کیونکہ اس کی دھن اور گائیکی انتہائی سریلی تھی ۔1963ء میں ناہید نیازی نے فلم ”دلہن“کے لئے ایک گیت”مجھ سے مت پوچھ میرے دل کی تمنا کیا ہے “ایک دوگانے کی شکل میں گلوکار سلیم رضا کے ساتھ پیش کیا تھا۔اس فلم میں ناہید نیازی کا سولونغمہ”آداب عرض ہے جناب“بھی شامل تھا۔

(جاری ہے)

ذکر چل پڑا ہے دوگانوں کا تو یہ عرض کرتا چلوں کہ ناہید نیازی کے زیادہ تر دو گانے احمد رُشدی کے ساتھ ہیں ان میں سے ایک 1964ء میں بننے والی فلم”نہلے پہ دہلا “سے ہے جس کے بول ہیں ”آتے ہوتو آؤنہ کہو جی کیوں نہ کہیں “بلیک اینڈ وائٹ فلموں کے دور میں جب فلم ”خاموش رہو“فلم بینوں نے دیکھی تو اس کی کہانی اور مرکزی کردار نے تہلکہ مچا دیا۔
یہ فلم رومانوی فلم سے ذراہٹ کے تھی ۔اس فلم میں ایک لڑکے محمد علی کی شادیاں کروا کے شریف لڑکیوں کو بازاری لڑکیاں بننے پر مجبور کیا جاتا تھا۔
اس دلیر مضمون کے پس پردہ مختلف صورت حالات پر ناہید نیازی کا گانا”جاگنے والو جا گو مگر خاموش رہو“ایک رقت آمیز سماں پیدا کر دیتا تھا یعنی کہ بدی کرنے اور مجبوری میں خاموش رہنا۔خلیل احمد کی موسیقی میں فلم ”خاموش رہو“کے لیے ناہید نیازی نے دوعدد مزید گانے گائے جن میں ”جاجارے میرے ڈھول سپاہی“اور”کیا اشارہ تم نے ہم کو پیچھے پیچھے آنے کا “(مع احمد رشدی) ۔
شمیم آرا،حبیب ،حنیف اور رُخسانہ کی فلم ”مے خانہ“کے لیے موسیقار نا شاد نے موسیقی دی تھی ۔
فلم ساز اور ہدایت کار نخشب کی یہ فلم 4نومبر1964ء کو پردئہ سیمیں پر آئی ۔کہانی رئیس امرد ہوی نے لکھی تھی ۔ناہید نیازی کا گانا”اک اپنا اک بیگانہ سن لو دل کا افسانہ “اس فلم میں شامل تھا۔”دل کے ہاتھوں سے ہمیں درد کا نذرانہ ملا”فلم“سفید خون“(1964ء)میں شامل تھا۔
فلم ”ایک دل دیوانے دو“
(1964ء)کے لیے ناہید نیازی نے ایک گانا”جیا گائے تارارارا رم “گایا تھا۔یہ سال ناہید کے لیے ایک مصروف سال تھا اور انہوں نے فلم ”کارواں “کے لیے ایک گانا”چھوڑ کے جانے والے دل توڑ کے جانے والے“گایا تھا۔
پھر وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ناہید نیازی کے فلموں کے لئے گائے ہوئے گانوں کی تعداد کم ہوتی گئی۔1965ء میں انہوں نے صرف ایک گانا”کیا من چاہے تجھ سے بالم“فلم”کالے لوگ“کے لیے گایا تھا۔
1966ء میں انہوں نے گلوکار فضل حسین کے ساتھ فلم ”عادل“کے لیے ایک دو گانا
”پیاری ماں دعا کرو“گایا۔فلم ”بدنام“اگر چہ ثریا ملتا نیکر کے گانے”بڑے بے مروت ہیں یہ حُسن والے“کی وجہ سے مشہور ہے لیکن ناہید نیازی نے اس فلم کے لیے ایک لوری”آتجھ کو سناؤ ں لوری،
حالات سے چوری چوری “گائی تھی۔
1966ء میں ہی فلم”ایندھن“منظر عام پر آئی تو اس میں ناہید نیازی کے دوعد دگانے”میں چھوئی موئی تھی اچھوتی ری“اور”توتوبیری رے بدیسیامن کی بیتیاں کیا جانے “گائے۔
آئرین پروین اور ناہید نیازی نے ایک عدد دوگانہ”ابھی ابھی آئے ہوا بھی ابھی جاؤ گے“فلم ”بھیا“(1966ء)کے لیے گایا تھا۔اسی فلم میں احمد رُشدی کے ساتھ ایک گانا”بہتے آنسو اب تو بجھادودل جلتا ہے آگ لگے“بھی پیش کیا تھااور احمد رشدی کے ساتھ ہی ایک دو گانہ”جانے مجھے کیا ہو گیا ہے “گایا۔پھر اگلے برس1967ء میں ناہید نیازی نے فلم ”وقت کی پکار “کے لیے ایک گیت”جام ہے میرے ہاتھ میں جام ہے تیرے ہاتھ میں “ریکارڈ کرایا۔

1968ء میں ناہید نیازی نے ایک عدد نغمہ”یہ مست سہانی رات سانور یا “فلم ”جان آرزو “کے لیے گایا،اسی برس جب فلم ”مجھے جینے دو“منظر عام پر آئی تو اس میں ناہید نیازی کا گیت”حُسن بھی موج میں ہے “شامل تھا ،پھر فلم ”جنگلی پھول“کے لیے گلوکار مجیب عالم کے ساتھ ناہید نیازی نے ایک دو گانہ”تم کہاں لُٹ گئے ہم یہاں “گایا۔اسی فلم میں گلوکار احمد رُشدی کے ساتھ اُن کا ایک اور دوگانہ”یہ مست نشیلی رات بُھول نہ جانا“شامل تھا لیکن بد قسمتی سے یہ فلم مکمل نہ ہو سکی ۔
اسی طرح ایک اور نامکمل فلم ”پنچھی بانورا“کے لیے مجیب عالم کے ساتھ ان کا دو گانہ”کھو گیا نہ جانے کیوں میں تیری نگاہوں میں “شامل تھا۔یہ دُکھ کی بات ہے کہ آخر الذکردونوں فلمیں خوبصورت ٹائٹل ہونے کے باوجود مکمل نہ ہو سکیں۔
ناہید نیازی کی مصلح الدین سے شادی سے پہلے اور بعد میں چند خوب صورت سُریلی دُھنیں ہمیں سُننے کو ملیں ۔ان دونوں کے اشتراک سے جو تخلیقات منظر عام پہ آئیں ان میں محبت کا عنصر شامل تھا۔
ایک ایسی دُھن”رات سلونی آئی بات انوکھی لائی جو نہ کسی سے ہم کہیں گے ‘رہیں گے چپ رہیں گے ہم “تھی۔
فیاض ہاشمی کا یہ نغمہ انہوں نے احمد رشدی کے ساتھ گایاتھا اور 1961ء کی فلم”زمانہ کیا کہے گا“کے لیے شمیم آراء اور کمال پر فلمایا گیا تھا۔
ہدایت کار اقبال یوسف کی اس فلم کے فلمساز ایف ایم سردار تھے ،یہ ایک مقبول نغمہ ثابت ہوا۔احمد رشدی کے ساتھ ایک اور دو گانہ ”کیسا سفر ہے کہےئے یونہی قریب رہیے “تھا ۔
اس کے بعد فلمساز اے مجید نے ایک فلم ”ہمسفر “بنائی جس کے گانے تنویز نقوی نے لکھے تھے ۔ایک نغمہ ”زندگی میں ایک پل بھی چین آئے نہ “جوکہ سلیم رضا اور ناہید نیازی نے علیٰحدہ علیٰحدہ گایا تھا بہت مقبول ہوا۔لکھاری اور ہدایتکار شوکت ہاشمی کی اس فلم کے لیے بھارتی گلوکار ہیمنت کمار نے بھی ایک خوب صورت نغمہ”رات سہانی ہے سویا سویا چاند ہے ،میری قسم ہے تجھ کو اک بار مسکرادے“گایا تھا ۔
یہ ایک سُر یلا اور مدھر گیت تھا۔بھارتی گلوکار ہسند ہیا مکھرجی نے بھی ایک گیت”اکھیاں چھلکیں میرا دل دھڑکے “گایا تھا۔ناہید نیازی کے فلم ”ہمسفر “کے لیے گائے ہوئے دیگر نغمے تھے :
کچھ تم نے کہا کچھ تم نے سُنا(مع سلیم رضا)
کاہے جادو کیا ہائے کیسے آئے موہے نندیا
سپنوں کے گاؤں میں مہکی فضاؤں میں
یاسمین ،اسلم پرویز ،نذر ،نگہت سلطانہ اور جعفری کی یہ فلم 8اپریل1960ء کو پردئہ سیمیں پر جلوہ گر ہوئی۔

اب اس فلم سے ذراپیچھے کی طرف مُڑتے ہیں ۔1958ء ناہید نیازی کے لیے مصروف سال تھا۔انہوں نے سلیم رضا کے ساتھ فلم ”آدمی“کے لیے دوعددگانے ریکارڈ کروائے تھے۔
اس جہاں سے دل لگاکے دیکھ لے
اور
زمین پر قدم ہے فلک پر نظر ہے
ان کے علاوہ ان کے سولو نغمے ”میرا کہا کبھی مان لو‘جاگ تقدیر کو جگا لوں گی سارے دُکھ بھول جاؤ گی،
میری محبت نے آرزو کے دےئے جلائے بجھانہ دینا اور زمانہ پیار کا اتنا ہی کم ہے یہ جانا“تھے ۔
ہدایت کار لقمان کی اس فلم کے ستارے یاسمین اور حبیب تھے،اس فلم کے لیے تمام نغمے ہندوستان کے مقبول شاعر مجروح سلطان پوری نے لکھے تھے۔
فلم ”دل میں کالا“03نومبر1962ء میں ریلیز ہوئی جو اداکار ادیب کی پہلی فلم بھی تھی،اس فلم کے ہدایت کار اقبال یوسف تھے اور ناہید نیازی نے اس میں مندرجہ ذیل نغمے گائے۔
گوری بڑی یوں بات کیسے نہ ختم بن کہے بھی تو سمجھا کرو(مع احمد رشدی)
تجھے کیا خبر میری اِک نظر بڑی جادو گر‘اے حبیبی(کورس)
13اپریل1963ء کو ریلیز ہوئی فلم”دل نے تجھے مان لیا“جو ایک فیملی ڈرامہ پرمبنی فلم تھی،اس فلم کو کراچی میں بنایا گیا تھاجس میں اداکارہ زیبا اداکار کمال کے ساتھ جلوہ گرہوئیں ،فلم کی موسیقی مصلح الدین ہی کی تھی ۔
ہدایت کار جاوید ہاشمی کی اس فلم کے کہانی کار سلیم احمد تھے ۔ریحان ،کمال ایرانی ،دلجیت مرزا اور نرالا اس فلم کے دیگر ستارے تھے۔شاعر حمایت علی شاعرتھے۔ناہید نیازی نے اس میں مندرجہ ذیل گیت گائے:
کیسا ہے یہ جہاں ’ہر قدم اِک غم‘گھڑی اِک ستم کیوں حضور کیوں جی حضور ’کیوں جب دل نے تجھے مان لیا(مع احمد رشدی)
مُکھڑے پہ آنچل چنداپہ بادل(مع احمد رشدی،مسعود رانا اور بشیر احمد)
لاہور میں بننے والی فلم ”یہودی کی لڑکی “26اپریل 1963ء کو ریلیز ہوئی۔
یہ بھی فیملی ڈرامہ فلم تھی جس نے مناسب بزنس کیا۔فلم ساز صغیر جعفری کی اس فلم کے شاعر حبیب جالب تھے۔ناہید نیازی نے اس فلم میں نغمہ”اے آسماں تو ان گردشوں کو “ گایا تھا،اس فلم کے ستاروں میں نیرّسلطانہ ،درپن،
شاہنواز،مینا شوری ،طالش ،اجمل،ناصرہ،ساقی اور ہمالیہ والاتھے۔مصلح الدین کی فلم شکاری 20مارچ1964ء کو ریلیز ہوئی جس کے نمایاں ستاروں میں شمیم آراء ،درپن ،رخسانہ شامل تھے جبکہ اس فلم کے ہدایت کار جعفربخاری تھے ۔
ناہید نیازی اور احمد رُشدی نے ایک جاسوسی فلم ”نہلے پہ دہلا“جوکہ03اپریل1964ء کو ریلیز ہوئی تھی اور اس میں نیلو اور کمال ستارے تھے کے لیے دو عددگانے گائے۔فیاض ہاشمی کے ان دوگانوں کے بول تھے:
آتے ہوتو آؤنہ کہو جی کیوں نہ کہیں
ڈارلنگ ہمیں ستاؤنہیں
فلم”جوکر“(1966ء)کے لیے ان دونوں نے نغمہ”ہر دل کی لگن تمہی ہو“گایا تھا۔کہانی کار علی سفیان آفاقی کی اس فلم کے ستاروں میں رانی،کمال ،زیبا ،آزاد ،فیضی ،ریحان،لہری اور طالش شامل تھے ۔
اس فلم کے ہدایت کار اقبال یوسف تھے۔ایکشن فلم”جوش “02اپریل1966ء کو پردہ سیمیں پر آئی۔ناہید نیازی کے لیے یہ ایک بڑی فلم تھی کیونکہ اس فلم میں انہوں نے پانچ نغمے گائے تھے ۔مالا اور احمد رُشدی نے بھی ایک ایک نغمہ گایا تھا۔ناہیدنیازی کے نغمے تھے؛
بلما جارے جا
چھیڑ وہی پگلی ہوا آجا پیا
رات چلی ہے جھوم کے (اپنے دور کا بہت ہی پسند کیاگیا گیت (مع احمد رُشدی )
سیاں بے دردی نگر نگر پھڑ کے
یہ بھی ہدایت کا ر اقبال یوسف اور موسیقار مصلح الدین کے فن کا نتیجہ تھی ،اس فلم کے نمایاں ستاروں میں زیبا ،سدھیر،وحید مراد ،رخسانہ اقبال،یوسف، روزینہ،ترانہ ،اسدجعفری،کمال ایرانی،سنتوش رسل،قومی ،لطیف چارلی ،ادیب اور ساقی شامل تھے۔
شاعری کلیم عثمانی نے کی تھی ۔فلم ”جان پہچان“میں ناہید نیازی کے تین گانے شامل تھے:
جان ما’جان ماسد آرام ما(شاعر :ناصر کسگنجوی)(اداکارہ :شاہ پرفلمایا گیا”لاگے نہ جیاتجھ بن جانے کیوں “اداکارہ ترانہ پر فلمایا گیا تھا۔
چُھپ چُھپ کر نظریں ملاتے رہو(مع احمد رشدی )محمد علی اور شاہ پر فلمایا گیا تھا۔
ماضی کے مشہور ہدایت کار ڈبلیو زیڈ احمد کے فرزند فرید احمد نے اس فلم میں ایران سے اداکار ہ شاہ پر کر کومدعو کیا تھا اور فلم کی ہدایتکاری کے فرائض بھی سر انجام دےئے تھے ۔
اس فلم کے دیگر ستاروں میں ترانہ ،
شاکر اور محمد علی شامل تھے ۔یہ فیملی ڈرامہ فلم 03اگست1967ء کو ریلیز ہوئی تھی ۔شاعر نعیم طاہر اور فلمساز محسن شیرانی تھے ۔فلم ”مجھے جینے دو“09اگست1968ء کو ریلیز ہوئی اور ناہید نیازی نے اس فلم میں صرف ایک گانا گایا تھا جس کے بول تھے ”حسن بھی موج میں ہے ۔“اس فلم میں رومانوی جوڑی زیبا اور محمد علی جلوہ گر ہوئی تھی ۔
اس فلم کے معاون ستاروں میں رنگیلا ،زمرد،اجمل اور سلطان راہی نمایاں تھے جبکہ ہدایت کار رزاق اور فلم سازنذیرعلی تھے۔
مندرجہ بالاگزارشات سے شائقین موسیقی نے یہ نتیجہ ضرور اخذ کر لیا ہو گا کہ ناہید نیازی1950ء اور 1960ء کی دہائیوں کی مصروف گلوکارہ تھیں جنہوں نے اس دور کے تمام نامور موسیقاروں کی دُھنیں گائیں ۔ان کے شوہر مصلح الدین نے صرف سولہ فلموں میں موسیقی دی اور ناہید نیازی ان کی دُھنوں سے زیادہ مستفیض ہوئیں ۔

مصلح الدین کی وفات دل کا دورہ پڑنے کی وجہ سے 03اگست2003ء کوہوئی۔انہوں نے کئی خوب صورت گانے تخلیق کیے جو آج بھی شائقین موسیقی کے دلوں کو گرما تے ہیں ۔مندرجہ بالاسطور میں ہم نے ان کی مشہور فلموں کا بھی تذکرہ کیا ہے جن میں قابل ذکر فلمیں ہمسفر ،دال میں کالا،دیوانہ ،جوکر،جان پہچان ،راہ گزر اور جوش شامل ہیں۔ پاکستان فلم انڈسری میں مصروف ترین وقت گزارنے کے بعد انہوں نے پاکستان ٹیلی ویژن کا ر پوریشن کی طرف رجوع کیا اور 1964ء سے بچوں اور بڑوں کے لیے کئی خوب صورت پروگرام کیے۔
مصلح الدین اور ناہید نیازی کے بچوں کے لیے موسیقی کے پروگرام ”پدما کی موج “اور”کلیوں کی مالا‘اب بھی یاد کیے جاتے ہیں۔حکومت پاکستان نے انہیں تمغہ حُسن کا ر کردگی ایوارڈ سے بھی نوازا تھا۔
انٹر نیٹ سائٹ Ineplot .comپر 13اکتوبر 2013ء کو شائع ہونے و الے ناہید نیازی کے انٹرویو کے چند اقتبا سات پیش کئے جارہے ہیں ۔
سوال:آپ کے شوہر مصلح الدین نے بھارتی گلوکاروں کی آوازوں کو بھی اپنی فلموں جیسا کہ ہیمنت کمار کو فلم ”ہمسفر“کے لیے اور آشا بھو نسلے کو فلم ”یہودی کی لڑکی “میں استعمال کیا تھا۔
ہم نے سنا ہے کہ ہیمنت کمار مشرقی پاکستان آئے تھے ،آشابھو نسلے بھی ریکارڈنگ کے لیے مشرقی پاکستان آئی تھی ؟
جواب:مصلح الدین ہیمنت کمار کا گانا ریکارڈ کرنے 1960ء میں کلکتہ گئے تھے ۔ہیمنت کمار سے الفاظ ”یہ سماں “اور”نین ملا“اس طرح ادانہ ہوئے جیسا کہ مصلح الدین نے یہ گانا کئی برس بعد اپنی آواز میں ادا کرکے ادا کیے۔زبان کا مسئلہ تھا۔
ہیمنت کمار کی اردو زبان کی ادائیگی کمزورتھی ۔یہ مسئلہ بڑے بڑے گلوکاروں کے ساتھ رہا ہے کہ وہ الفاظ کی ادائیگی میں اپنی من مانی کرتے تھے اور موسیقاروں یا شاعروں کی نہ مانتے تھے ۔
آشا بھونسلے کا گانا نہ تو مصلح الدین نے بنایا اور نہ وہ اس کو ریکارڈ کرنے بھارت گئے ۔فلمساز نے فلم مکمل کرلی تھی اور وہ بغیر معاوضہ دےئے مصلح الدین سے ایک زاید گانا’رقص نمبر)ریکارڈ کروانا چاہتے تھے جو کہ مصلح الدین کے اصولوں کے خلاف تھا۔
سووہ فلم ساز خاموشی سے بھارت گئے اور سستے داموں ایک گانا خریدا اور فلم میں ڈال لیا۔مصلح الدین اس موضوع پر فلمساز سے ٹکر لینا اپنی ہتک سمجھتے تھے۔
ان دنوں کئی گانے ریکارڈ کیے جاتے تھے اور فلم نہ بننے یا اس نغمے کو فلم میں شامل نہ کرنے کی صورت میں سستے داموں بیچ بھی دےئے جاتے تھے۔
سوال:فلم’سینما(1963ء)کا کلاسیکل گانامیرا بہت پسندیدہ ہے،کیا یہ آپ یا آپ کی ہمشیرہ نے گایاہے؟
جواب :یہ گانا میری آواز میں ریکارڈ ہوا تھا۔
موسیقار ماسٹر عنایت حسین نے پورا دن لگا کر مجھے ان گانے کی مشکل تراکیب یاد کروائیں جس پر میں ان کی ممنون ہوں ۔انہوں نے میرے والد سے مجھے اپنی شاگردی میں لینے کی تجویز دی ،میرے لیے یہ ممکن نہ تھا کیونکہ کالج میں فل ٹائم طالب علم ہونے کے علاوہ میں ان دنوں گانوں کی ریکارڈنگ میں بہت مصروف تھی۔
سوال:”اِک بات سُناتی ہوں“اور دیگر گانے جو فلم ”مِس 56“میں شامل ہیں ،وہ آپ نے گائے ہیں یا گیتادت نے ؟میرے خیال میں آپ نے ابھی فلم میں گانا بھی شروع نہیں کیا تھا۔اگر یہ گانے گیتادت نے گائے تھے تو بابا چشتی ریکارڈنگ کے لئے بھارت گئے تھے ؟
جواب :گانا”اِک بات سناتی ہوں“گیتادَت نے گایا ہے ۔میں حیران ہوں کہ اس گانے کو مجھ سے منسوب کرنے کی غلطی کیوں کی جاتی ہے ۔

Browse More Articles of Music