Actresses Jinhain Maan K Kirdar Ne Urooj Baksha

Actresses Jinhain Maan K Kirdar Ne Urooj Baksha

اداکارائیں جنہیں ماں کے کردار نے عروج بخشا

ماں․․․․ہر رُوپ رحمت ہے

منگل 14 مئی 2019

 وقار اشرف
دُنیا بھر میں ہر سال مئی کے دوسرے اتوار کو ماؤں کے عالمی دن کے طور پر منایا جاتا ہے جس کا مقصد ماں کے مقدس رشتے کی عظمت اور اہمیت کو اُجاگر کرنے کے ساتھ ساتھ ماں کے لئے عقیدت مندی اور محبت کے جذبات کو فروغ دینا ہے ۔اس دن کو منانے کا آغاز امریکہ سے ہوا جب ایک امریکی خاتون اینا ہاروس کی کوششوں کے نتیجے میں 8مئی1914ء کو اس وقت کے امریکی صدر ووڈروولسن نے مئی کے دوسرے اتوار کو ماؤں کا عالمی قرار دیا تھا ۔

اگر چہ یہ دن منانے کی روایت مغربی ہے کیونکہ ہمارے ہاں تو ہر دن فادرزڈے اور مدرزڈے ہوتا ہے کیونکہ بچے کو جہنم دینے والی ماں اور بچے کو پروان چڑھانے کے لئے سردھڑکی بازی لگادینے والے باپ کیلئے سال میں صرف ایک ایک دن مخصوص کر دینا کافی نہیں۔
اس مدرزڈے کے موقع پر پاکستان فلم انڈسٹری کی ان اداکاراؤں کا ذکر کیا جارہا ہے جنہوں نے سلور سکرین پر ماں کے کردار کو اس مہارت اور خوب صورتی سے کیا کہ اس کردار میں ماں کی مامتا جھلکتی نظر آئی۔

(جاری ہے)

ایسی اداکاراؤں کی ایک طویل فہرست ہے جن میں کچھ اداکاراؤں نے عین شباب میں ہی یہ کردار ادا کیا ۔
مایا دیوی ،سلمیٰ ممتاز،زینت بیگم ،صبیحہ خانم،نیر سلطانہ ،بہار بیگم ،رانی ،نجمہ محبوب ،سیما بیگم ،نبیلہ،طلعت صدیقی ،تمنا بیگم،تانی بیگم اور دیباسے لے کر راحیلہ آغا،سمیعہ ممتاز اور دیگر تک ایسی اداکاراؤں کی ایک طویل فہرست ہے جنہوں نے ماں کا کردار کیا اور اس کردار نے انہیں عروج پر پہنچادیا۔

سلمیٰ ممتاز ماں کے کرداروں میں ممتاز کا رنگ بھرنے والی ایک اہم اداکارہ تھیں۔60ء کی دہائی میں فلم”نیلوفر“سے فلمی سفر کا آغاز کرنے والی سلمیٰ ممتاز نے300سے زائد فلموں میں اداکاری کی ۔انہوں ے وحید مراد،محمد علی اور شاہد کے علاوہ پنجابی فلموں میں اکمل اور دیگر کی ماں کے کردار خوب صورتی سے کئے۔ان کی مشہور فلموں میں دل میرادھڑکن تیری(1968ء)پترداپیار،ہیررانجھا (1970ء)اور شیراں دی جوڑی نمایاں ہیں۔

1963ء میں ریلیز ہونے والی فلم”موج میلہ“میں ان کا ماں کا کردار لوگوں کو آج تک یاد ہے۔
اداکاری کے ساتھ ساتھ انہوں نے بطور ڈائریکٹر بھی کام کیا ،چند فلمیں پروڈیوس بھی کیں۔سلمیٰ ممتاز 21جنوری 2012ء کو 85سال کی عمر میں انتقال کر گئی تھیں ۔وہ پاکستان فلم انڈسٹری کی معروف اداکارہ شمی کی بڑی بہن اور معروف اداکارہ نداممتاز کی ماں تھیں۔
نبیلہ نے بھی ماں کے کردار کو کمال مہارت سے کیا۔
1963ء میں ریلیز ہونے والی فلم”دُلہن“ان کی پہلی فلم تھی جس کے بعد وہ فلم ”چودہ سال “
(1968ء)میں یوسف خان کی ہیروئن بنیں۔1966ء میں آنے والی فلم”پیداگیر“میں وہ اکمل کے ساتھ سیکنڈ ہیروئن تھیں لیکن فلم ”بدنام “(1966ء) میں حمیدہ کا کردار ان کی پہچان بنا جس کے بعد انہیں زیادہ تر ماں کے کرداروں میں کاسٹ کیا جانے لگا۔
1973ء میں ریلیز ہونے والی فلم
”ضدی“میں وہ فن کی بلندیوں پر نظر آئیں۔
وہ بلند آواز میں جذباتی مکالموں کی ادائیگی کے باعث ملکہ جذبات بھی کہلاتی تھیں۔1970ء کی فلم”ماں پتر“میں بھی انہوں نے ماں کے کردار کو امر کر دیا۔اس کے بعد انہوں نے”بدمعاش پتر“اور ”ضدی“میں بھی یہ کردار خوبصورتی سے کیا۔”محبت اور مجبوری “(1981ء)ان کی آخری فلم تھی۔
نبیلہ کا حقیقی نام شیریں گل تھا،کہا جاتا ہے کہ وہ منشیات کی لت میں مبتلا ہوگئی تھیں اور اسی کے ہاتھوں 9جولائی 1979ء کو زندگی کی بازی ہارگئیں۔
طلعت صدیقی نے بھی کریکٹر رولز بالخصوص ماں کے کردار میں جاندار اداکاری کی۔60ء کی دہائی ان کے عروج کا دور تھا ،ان کا حقیقی نام ادیبہ نذیر ہے لیکن طلعت صدیقی کے نام سے شہر ت حاصل کی۔
ریڈیو پاکستان سے کیرےئر کا آغاز کیا جہاں گلوکاری کے ساتھ ساتھ کئی ریڈیو ڈراموں میں اداکاری کی ۔

فلم ”چھوٹی بیگم“کے ذریعے سلور سکرین پر کیرےئر کا آغاز کیا لیکن1965ء میں ریلیز ہونے والی فلم
”عشق حبیب“میں ابراہیم نفیس کی بیوی کا کردار بہت خوب صورتی سے کیا۔صابری برادرا ن کی مشہور قوالی”بھردوجھولی میری یا محمد“بھی اسی فلم میں شامل تھی۔
جمیل مرزا کی فلم”میرے بچے میری آنکھیں“میں بھی ان کی اداکاری پسند کی گئی لیکن جن فلموں نے انہیں پہچان دی ا ن میں”پھر صبح ہوگی ،لڑکا،اِک سی ماں،خون دابدلہ خون،ماں باپ ،حکومت ،اُمراؤ جان ادا،لوری ،بندگی، پروفیسر ،کون کسی کا، جتھے وگدی اے راوی اور بھائی بہن“نمایاں ہیں۔

”لاڈلہ“میں بطور ماں ان کی اداکاری فلم بینوں کو آج بھی یاد ہے ۔پنجابی فلم”دھی رانی“میں ماں کے کردار کوا س کمال مہات سے نبھایا کہ فلم بین آج تک نہیں بھولے۔
ماں کے کردار کے حوالے سے جو نام سب سے نمایاں نظر آتا ہے وہ بہار بیگم کا ہے جنہوں نے اتنی فلموں میں سلطان راہی کی ماں کا کردار کیا کہ لوگ انہیں سلطان راہی کی حقیقی ماں سمجھنے لگے تھے۔
ان کا حقیقی نام کشور ہے اور انور کمال پاشا نے سب سے پہلے اپنی فلم”چن ماہی“(1956ء)میں کاسٹ کیا اور انہیں ”بہار “کا فلمی نام دیا۔ان کا فلمی کیرےئر دوا دوارپر محیط ہے ،پہلے میں بطور ہیروئن اور دوسرے میں کریکٹرایکٹریس کے رول کئے۔
500سے زائد فلمیں ان کے کریڈٹ پر ہیں، انہیں بجا طورپر”ملکہ جذبات “بھی کہا جاتا ہے ۔ان کی مشہور فلموں میں کرتا رسنگھ ،دو راستے ،وحشی گجر ،شیر خان ،دیس پردیس ،شاہ بہرام ،ملنگی ،قیدی ،جرنیل سنگھ،سلسلہ ،کالے چور، چوڑیاں ،شیر پنجاب دا،زمین آسمان ،ڈاکو راج اور دیگر نمایاں ہیں ۔
آئینہ ،سوسائٹی گرل اور مہندی لگے ہتھ بھی ان کی مشہور فلموں میں شامل ہیں۔دیبا بیگم نے اگر چہ فلمی سفر کا آغاز تو بطور ہیروئن کیا تھا لیکن کریکٹر رولز میں بھی ان کی اداکاری لاجواب رہی ہے خصوصاً المیہ کردار انہوں نے کمال مہارت سے کئے ہیں۔“چراغ جلتا رہا“ان کی پہلی فلم تھی جس کے بعد ملن“(1964ء)، آئینہ(1966ء)، پیار کی جھنکار(1966ء) ،سنگدل (1968ء)، درد (1969ء) ،سجنا دور دیا(1970ء) نیند ہماری خواب تمہارے (1971ء) ،آنسو(1971ء)،پردیس(1972ء) “
اور دیگر نمایاں ہیں۔

80ء اور 90ء کی دہائی میں انہوں نے زیادہ تر کریکٹررولز کئے جن میں ماں کے کردار بھی شامل ہیں ۔
انہیں چہرے پر ہر وقت سجی مُسکراہٹ اور معصومیت کی وجہ سے پاکستانی”مونالیزا“بھی کہا جاتا تھا۔
انہوں نے شاہین اور سیتامریم مارگریٹ میں رانی کی سوتیلی ماں کا کردار خوبصورتی سے نبھایا تھا۔فلموں کے ساتھ ساتھ انہوں نے ٹی وی ڈراموں میں بھی کام کیا ہے ۔
دیبا کا حقیقی نام”راحیلہ“ہے لیکن دیبا کا فلمی نام ہی ان کی پہچان ہے ۔انہوں نے سینئر کیمرہ مین سید نعیم رضوی کے ساتھ شادی کی ان کے دو بیٹے سید سلمان رضوی اور عمران رضوی اور ایک بیٹی مدیحہ رضوی ہیں۔
مایا دیوی نے 1949ء میں ریلیز ہونے والی فلم”پھیرے“میں اداکار نذیر کی ماں کا کردار ادا کیا تھا اس لیے ماں کے کرداروں کی فہرست میں مایا دیوی کو نظر انداز کرنا ممکن نہیں۔
اسی طرح 1958ء میں ریلیز ہونے والی فلم”زہر عشق“میں بیوبیگم نے اداکار حبیب کی ماں کا کردار اس خوب صورتی سے کیا کہ اس پر انہیں نگار ایوارڈ کی حق دار قرار دیا گیا۔
جن فنکاراؤں نے ماں کے کرداروں کو ایک طویل عرصہ تک نبھایا ان میں صبیحہ خانم ،نیر سلطانہ اور بہار بیگم نمایاں ہیں ۔صبیحہ خانم کا تو اس کردار کو کرنے کے حوالے سے جواب نہیں ۔
انہوں نے ”اِک گناہ اور سہی‘تہذیب ،شکو ہ،مس ہیپی“میں ماں کے کردار کو امر کر دیا۔”اِک گناہ اور سہی“تاشقند فلم فیسٹیول میں بھی پیش کی گئی تھی اور پاکستان میں اسے نگار ایوارڈ سے نوازا گیا۔صبیحہ خانم نے سب سے پہلے لاہور میں ایک اسٹیج ڈرامہ”بت شکن “کیا تھا پھر انور کمال پاشا کی فلم”دو آنسو “اور”گمنام “میں اداکاری کے جوہر دکھائے ۔
ان کی دیگر بہترین فلموں میں سات لاکھ،چھوٹی بیگم،ناجی ،حسرت ،دامن ،سوال ،وعدہ ،
ایاز،عشق لیلیٰ اور اِک گناہ اور سہی شامل ہیں ۔صبیحہ اور سنتوش کی جوری نے بے شمار اردو اور پنجابی فلموں میں کام کیا۔
نےئر سلطانہ نے بھی ٹریجک ماں کے کردار کو فن کی بلندیوں پر پہنچایا اور خواتین کی ہمدردی سمیٹیں ،ان کی مشہور فلموں میں ”اولاد “اور ”پیاسا“نمایاں ہیں ۔
نےئر سلطانہ کا اصل نام طیبہ بانو تھا،وہ 1935ء کو علی گڑھ میں پیدا ہوئی۔ان کی مشہور فلموں میں چن جناں ،سہیلی ،باجی ،انتخاب ،مظلوم، میری بھابھی ،ایک مسافر ایک حسینہ ،تین یکے تین چھکے اور دیگر شامل تھیں ۔
اداکاری مسرت نذیر نے بھی ماں کے کردار خوب صورتی سے کئے ،فلم ”آنکھ کا نشہ“میں نوجوان مسرت نذیر نے صبیحہ خانم کی ماں کا کردار ادا کیا تھا۔

اداکارہ رانی نے بھی کچھ فلموں میں ماں کا کردار کیا تھا۔1966ء میں ریلیز ہونے والی فلم”گھر کا اُجالا“میں وہ محمد علی کی ماں بنی تھیں ۔اس کے بعد 1979ء میں ریلیز ہونے والی فلم”خوشبو“میں انہوں نے ممتاز کی ماں کا کردار کیا۔
اداکاری شبنم نے بھی کیرےئر کے آخر میں ماں کے کردار کو خوب صورتی سے نبھایا ۔انہوں نے زینت اور دوریاں کے علاوہ لیڈی کمانڈو میں بابرہ شریف کی ماں کا کردار کیا تھا۔
اداکار ہ فردوس نے بھی ماں کے کردار کئے ہیں بالخصوص فلم”آنسو “میں ماں کے کردار پر انہیں نگار ایوارڈ سے بھی نوازا گیا تھا۔اس طرح”پھول میرے گلشن کا“میں بھی اس کردار کو مہارت سے کیا۔ان کے علاوہ زینت بیگم،نجمہ محبوب اور سیما بیگم نے بھی اس کردار کو بہت خوبصورتی سے نبھایا۔سیما بیگم حال ہی میں کسمپرسی کی حالت میں راہی ملک عدم ہوئی ہیں ،ان کی موت کا بھی فلم انڈسٹری سے وابستہ افراد کو ایک دن بعد پتہ چلا اور کوئی بھی ان کی نماز جنازہ میں شرکت نہ کر سکا ۔
وہ تنہا نہایت غربت کی زندگی گزار رہی تھیں ،ان کا کوئی رشتہ دار تھا اور نہ ہی کوئی اولاد ۔گھر بھی کرائے کا تھا۔سیما بیگم نے چھ سو کے لگ بھگ فلموں میں کام کیا تھا اور زیادہ تر فلموں میں سپورٹنگ رول ہی کئے۔ان کا اصل نام شمیم کو ثر تھا۔گلوکارہ نسیم بیگم انہیں فلمساز شباب کیرانوی کے پاس لے کر گئیں جہاں انہیں پنجابی فلم”لاڈلی“میں کاسٹ کیا گیا تھا۔

نجمہ محبوب نے بھی کئی فلموں میں ماں کے کردار کئے ،ان کی مشہور فلموں میں سوہنی مہینوال،نوکرووہٹی دا اور ہم دونوں نمایاں ہیں ۔یہ عظیم کریکٹر ایکٹریس 6دسمبر 1983ء کو پنجابی فلم”رکشہ ڈرائیور “کی شوٹنگ کے دوران ایک بچے کو بچاتی ہوئی چلتن ایکسپریس سے ٹکرا کر جاں بحق ہو گئی تھیں۔نجمہ محبو ب نے ابتدا میں اسٹیج ڈراموں میں بھی کام کیا پھر 1969ء میں یونائینڈ پلےئرز کے ایک ڈرامے کے ذریعے ٹیلی ویژن پر آئیں ،انہوں نے مجموعی طور پر 79فلموں میں کام کیا جن میں پہلی فلم”خلش “اور آخری فلم
”نازک رشتے “تھی جو 1987ء میں ریلیزہوئی۔

تمنا بیگم نے بھی ماں کے کرداروں کو خوب صورتی سے کیا۔1948ء کو پیدا ہونے والی تمنا بیگم صداکارہ بھی تھیں،70ء کی دہائی میں فلمی صنعت میں داخل ہوئیں۔انہوں نے فلموں میں مزاحیہ کردار بھی ادا کیے،ان کی اداکاری میں اتنی بے ساختگی ہوتی تھی کہ فلم بین حیران رہ جاتے تھے ۔ان کی مقبول فلموں میں افشاں ،الزام ،نادان،مہندی ،اور بہن بھائی نمایاں ہیں ۔
انہوں نے کچھ پنجابی فلموں میں بھی کام کیا جن میں”نوکرتے مالک“اور”سو ہراتے جوائی“شامل ہیں۔
اُردو اور پنجابی فلموں کے علاوہ پشتو فلموں میں بھی کئی اداکاراؤں نے ماں کے کرداروں کو امر کیا ہے جن میں اداکارہ نگینہ خانم اور شیریں تاج نمایاں ہیں ۔سندھی فلمیں اگر چہ زیادہ نہیں بنیں ان میں جن اداکاراؤں نے ماں کے کردار کئے ان میں اداکارہ روشن عطا نمایاں ہیں۔
اگر ہم آج کی پاکستانی فلمیں دیکھیں تو ان میں بھی کئی اداکاراؤں نے ماں کے کردار بہت خوب صورتی سے کئے ہیں جن میں فلم”دُختر “میں سمیعہ ممتاز کا کردار نمایاں ہے۔آج کی اُردو اور پنجابی فلموں میں راحیلہ آغاسب سے زیادہ ماں کے کردار کررہی ہیں۔

Browse More Articles of Lollywood