Akmal Makeup Artist Se Super Star Tak

Akmal Makeup Artist Se Super Star Tak

اکمل میک اپ آرٹسٹ سے سپر اسٹار تک

انہیں پنجابی فلموں کا پہلا مقبول ہیروہونے کا اعزازحاصل ہے

ہفتہ 15 جون 2019

پاکستان فلم انڈسٹری کے نامور اداکار اکمل کو اپنے مداحوں سے بچھڑے 52سال کا عرصہ بیت چکا ہے لیکن وہ فلم نگر کے درودیوار میں آج بھی زندہ ہیں ۔اکمل آغاز میں بطور میک اپ مین فلم انڈسٹری سے وابستہ تھے اچانک قسمت کی دیوی ان پر مہربان ہوگئی اور وہ پنجابی فلم”جبرو“کے ہیرو بن گئے۔”جبرو“
سے پہلے انہوں نے چند فلموں (محبوبہ،قاتل ،دلابھٹی)میں معمولی کردار کئے تھے لیکن ہدایتکار مظفر طاہر کی فلم”جبرو“نے ان کیلئے کامیابیوں کے دروازے کھول دےئے جس میں یاسمین ان کی ہیروئین تھیں ۔

”جبرو“کی کامیابی کے بعد وہ فلمسازوں کی ضرورت بن گئے اور انہوں نے منہ مانگے معاوضے پر فلمیں سائن کیں۔ اس طرح انہیں پنجابی فلموں کا پہلا باقاعدہ مقبول ہیروہونے کا اعزاز حاصل ہوا ۔ایک دور میں انہیں پنجابی فلموں کی کامیابی کی ضمانت سمجھا جاتا تھا اور ان کی پنجابی فلمیں نئے ریکارڈ قائم کررہی تھیں۔

(جاری ہے)

شیریں ،لیلیٰ ،مینا ،فردوس ،نغمی اور نیلو کیساتھ اکمل کی جوڑی بہت پسند کی گئی بالخصوص اکمل اور فردوس نے نوجوان نسل کو اپنا گرویدہ بنا لیا۔

اکمل نے 65کے قریب فلموں میں کام کیا جن میں 8اُردو اور 57پنجابی فلمیں شامل ہیں۔
”چوڑیاں“ہدایت کار امین ملک کی مشہور زمانہ فلم تھی جس نے اکمل کو راتوں رات عروج پر پہنچا دیا۔اس فلم میں اکمل کو راتوں رات عروج پر پہنچا دیا۔اس فلم میں اکمل اور لیلیٰ فن کی بلندیوں پر نظر آئے۔”ہتھ جوڑی“ہدایتکار اسلم ایرانی کی سُپر ہٹ فلم تھی۔یہی وہ دور تھا جب قدرت اکمل پر مہربان تھی ،اس فلم میں اکمل اور مظہر شاہ پوری آب وتاب کیساتھ نظر آئے۔
فلم کے گانے بھی بہت مشہور ہوئے تھے۔”بہروپیا“ نے اکمل اور مظہر شاہ کی جوڑی کو لازم وملزوم بنایا۔
”خاندان“15فروری1964کو عیدالفطر پرریلیز ہوئی تھی جس کی کاسٹ میں اکمل،محمد علی،حبیب ،فردوس ،نغمہ اور بہار بیگم شامل تھیں۔اس وقت اکمل فن کی معراج پر تھے لیکن حقیقت میں دیکھا جائے تو یہ کردار اکمل کی زندگی میں ایک طرح کاٹرننگ پوائنٹ تھا جس میں انہوں نے اعلیٰ کردار نگاری کے وہ نمونے چھوڑے کہ آل راؤنڈ فنکار بن گئے۔
یہ فلم دیکھنے کے بعد بھارتی عوام کو بھی ماننا پڑا تھا کہ اکمل واقعی پاکستانی دلیپ کمار ہے ۔فلم میں اکمل کا جادو سر چڑھ کر بولا اور کسی سین میں انہوں نے محمد علی اور حبیب کوخود پر حاوی نہیں ہونے دیا۔فردوس اور نغمہ پہلی بار اس فلم میں اکٹھی ہوئی تھیں۔”میرا ماہی“
ہدایتکار ایم جے رانا کی فلم تھی جن کے کریڈٹ پر ماہی مُنڈا،یکے والی اور جی دار جیسی سدا بہار فلمیں ہیں۔
”میرا ماہی‘میں اکمل اور نیلوپورے جوبن پر تھے۔
”ملنگی“کو پاکستانی”مغل اعظم “کہا جاتا ہے اور بعض لوگ تو یہ بھی کہتے ہیں کہ جس نے ”ملنگی“نہیں دیکھی اس نے کچھ بھی نہیں دیکھا۔اس کے فلمساز اچھا شوگر والا کہا کرتے تھے کہ ”ملنگی“پاکستان کی فلمی تاریخ میں ایک ایسی فلم ہے جس نے پاکستان فلم انڈسٹری کا سر فخر سے بلند کیا اور مجھے جب بھی کبھی روپوں کی ضرورت پڑتی تو میں ”ملنگی“ریلیز کردیتا اور یہ فلم مجھے مالا مال کردیتی۔
”ملنگی“1965میں ریلیز ہوئی اور اس فلم نے پورے پاکستان میں کامیابی حاصل کی تھی۔اس کی کاسٹ میں اکمل،مظہر شاہ،ساون ،یوسف خان ،منور ظریف اور طالش جیسے فن کارشامل تھے جنہوں نے کمال کی اداکاری کی لیکن کوئی بھی فنکار اکمل کی دھول کو بھی نہ چھو سکا۔”ملنگی“اکمل کی زندگی کی سب سے بڑی فلم تھی اور مستقبل میں جب کبھی پاکستانی فلموں کا ذکر ہو گاتو”ملنگی“ضرور شامل ہوگی۔

”چاچاجی“کے ہدایت کاروحید ڈار تھے۔یہ فلم اکمل کے انتقال سے تین ماہ قبل ریلیز ہوئی تھی۔’’چاچاجی“کا ٹائٹل رول تو علاؤ الدین نے کیا تھا جبکہ اکمل نے فردوس کے روایتی ہیروکا کردار ادا کیا تھا۔”چاچاجی“کی کامیابی نے اکمل کو اس مقام پر پہنچا دیا کہ ان کا نام سنتے ہی سینما گھر وں میں لوگوں کی قطاریں لگ جاتی تھیں۔اس فلم میں شہنشاہ ظرافت منور ظریف بھی پورے جوبن پر تھے اور انہوں نے ہنسا ہنسا کرلوٹ پوٹ کر دیا تھا۔
”اکبر ا“اکمل اور فردوس کی سپُرہٹ فلم تھی جس میں اکمل شروع سے آخر تک چھائے ہوئے تھے۔خلیفہ نذیر برادران کی اس فلم میں اکمل نے سی آئی ڈی انسپکٹر کا کردار کیا تھا۔”مفت بر“میں اکمل کی ہیروئن مسرت نزیر تھیں ۔اس فلم میں بھی مظہر شاہ اور اکمل عروج پر تھے۔
”امام دین گوہا ویا“2جون 1967ء کو ریلیز ہوئی اور 11جون کو اکمل کا انتقال ہو ا۔یہ بہت اچھی فلم تھی لیکن جن لوگوں نے ”ملنگی “دیکھی تھی ،وہ ”ملنگی سے بڑھ کر فلم کی توقع کررہے تھے۔
”رانی خاں“میں اکمل کی ہیروئن حُسنہ اور لیلیٰ تھیں۔ اس میں مظہر شاہ اور اکمل کا آمنا سامنا بالکل اسی طرح ہوتا تھا جس طرح سلطان راہی اور مصطفےٰ قریشی کا ”مولا جٹ “میں ہوتا تھا۔”من موجی “میں اکمل اور فردوس،شیریں اور سدھیر کی جوڑیاں تھیں۔فلم کے سارے گیت ہی سُپرہٹ تھے۔”روٹی“ہدایتکارحیدرچوہدری کی سپُرہٹ فلم تھی جو اکمل کے انتقال کے بعد نمائش پذیر ہوئی۔
”جگر ی یار‘کاٹائٹل ساون اور علاؤ الدین نے کیا تھا لیکن ہدایتکار افتخار خان کی اس فلم میں اکمل اور نغمہ عروج پر تھے۔
اداکار اعجاز جب”مرزاجٹ“اور ”ہیررانجھا“کا پیپرورک مکمل کررہے تھے تو انہوں نے بھی فردوس کے ساتھ دونوں فلموں میں اکمل کو سائن کیا تھا۔ہدایتکار کیفی نے بھی ”چن مکھناں “کا مرکزی کردار اکمل کو سامنے رکھ کے لکھوایا تھا لیکن اکمل کی اچانک موت کے بعد کہانی تبدیل کرکے یہ کردار حبیب کو دیدیا گیا ۔
اکمل لاکھوں لوگوں کو روتا چھوڑ کر 11جون1967کو خالق حقیقی سے جاملے تھے ۔ان کی موت کے بعد قیاس آرائیوں کا ایک سلسلہ چلا۔
کوئی کہتا تھا اکمل کو زہر دیا گیا تو کوئی کچھ لیکن حتمی طور پرکچھ نہیں کہا جا سکتا۔اکمل کے انتقال کے وقت بے شمار فلمیں سیٹ پر تھیں جنہیں کہانی میں تبدیلی کرکے یا پھر افضل خان سے کام لے کر مکمل کیا گیا ان فلموں میں روٹی،پنج دریا،میرا ویر ،مقابلہ ،شیر جوان ،رن مرید ،لال بجھکڑ،غیرت مند ،بہادر کسان اور یار دوست جیسی فلمیں شامل تھیں۔
افضل خان اکمل سے بہت متاثر تھے چنانچہ انہوں نے جتنی بھی فلموں میں کام کیا اکمل کے سٹائل میں اداکاری کی لیکن اکمل کے فن کو چھوٹا افضل خاں کے بس کی بات نہ تھی ۔اکمل کی موت کو فراموش کرنا فلمی صنعت کیلئے ممکن نہیں کیونکہ انہوں نے اپنی اداکاری کے ذریعے جو لازوال نقوش چھوڑے ہیں ،وہ فلمی صنعت کے ماتھے کا جھومر بن کر جگمگاتے رہیں گے۔آج اکمل کو ہم سے بچھڑے 52سال بیت چکے ہیں اور وہ مسلم ٹاؤن کے قبرستان میں آسود خاک ہیں۔

Browse More Articles of Lollywood